|

وقتِ اشاعت :   December 8 – 2018

کسی ملک صوبے کی ہمہ جہت اور بھر پور ترقی فلاح و بہبود تقاضا کرتی ہے کہ عورتیں زندگی کے تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ مساوی شرائط پر زیادہ سے زیادہ شرکت کریں۔عورتوں کے خلاف ہر قسم کے غیر مساوانہ سلوک اور تفریق کے خاتمے کا معاہدہ (CEDA)اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18اکتوبر1979کو منظور کیاتاہم عالمی طور پر اس معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز بیس ممالک کی جانب سے معائدے کی توثیق سے ہوا۔

اقوام عالم نے اس معاہدے میں تمام ممبر ممالک کو پابند کیا ہے کہ قانون سازی سمیت تمام مناسب اقدام اٹھائیں تاکہ خواتین کی پیش رفت اور بھر پور ترقی کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے ۔خواتین کی حالت زار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے ۔خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے ۔ 

بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ عورتوں کو تشدد سمیت دیگر غیر انسانی سلوک سے محفوظ ا رکھنے کے لیے انہیں سیاسی ، تعلیمی ، انتظامی اور مالی طور پربااختیار کرنا ہوگا۔پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں خواتین کی مخصوص 17 فیصد نشستیں ہیں، جبکہ افغانستان کی پارلیمان میں 27 فیصد ،اور. بھارت میں خواتین کو 33 فیصد نمائندگی دی گیٗ ہے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی خواتین کو آزادانہ طور پر زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرنے کا عزاز جاتا ہے . ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بننے والی پی پی پی کی پہلی حکومت میں پارٹی کی متحرک سیاسی ورکرزخواتین کو اسمبلی اور کابینہ میں نمائندگی دی گیٗ اسی تسلسل کے تحت 1988 میں پیپلز پارٹی کی چیر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اسلامی دنیا کی پہلی وزیر اعظم بنی ،وہ دوسری مرتبہ 1993 میں بھی وزیراعظم بنی۔

اسی طرح 8َ200 کی قومی اسمبلی میں فہمیدہ مرزا کو پہلی خاتون سپیکر بنانے کا فیصلہ بھی پی پی پی کا ہی تھا۔اسی کابینہ میں شریں رحمان کو وفاقی وزیر اطلاعات کی ذمہ داری سونپی گیٗ۔اسی دور میں پیپلز پارٹی بلوچستان نے اٹھارویں ترمیم کی بدولت صوبے میں بننے والے محکمے خواتین کی ترقی کی پہلی وزارت کا قلم بھی پارٹی کی فعال رہنما غزالہ گولہ کو دیا۔اسی حکومت نے بی این پی عوامی کی رکن اسمبلی ڈاکٹر فوزیہ مری کو پہلی ڈپٹی سپیکر بنایا۔

2016 میں مسلم لیگ( ن ) نے نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت میں راحیلہ حمید درانی کو بلوچستان کی تاریخ میں پہلی سپیکر صوبائی اسمبلی بنایااسی دور حکومت کے آخری سال میں راحت جمالی کو خواتین کی ترقی کی وزارت کاقلم دان سونپا گیا۔ . بلوچستان میں صحت کی سہولیات کی کمی کم عمری کی شادیوں اور دیگرمسائل کی وجہ سے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 786 سے زائد مائیں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔

چند قبائلی رسومات کی بھینٹ چھڑ تی خواتین کی تعداد میں بھی کمی واقع نہیں ہو رہی ۔ایسی صورتحال میں قانون ساز اداے صوبائی اسمبلی میں 33 مخصوص نشستوں پر نامزد ہو کر رکن اسمبلی بننے والی گیارہ خواتین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔

کہ وہ خواتین کے مسائل کو حل کرنے اور حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنا متحرک کرداراداکریںَ2013.2018کی اسمبلی میں نامزد ہونے والی خواتین اراکین اسمبلی میں سے زیادہ تر کا بطور سیاسی ورکر تجربہ ہونے کی وجہ سے قانون سازی اور اسمبلی کاروائی میں ان کا کردارمثالی رہا ہے۔

25جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد وجود میں انے والی اسمبلی میں نامزد ہو کر آنے والی خواتین اراکین پر بھی صوبے میں عورتوں کی سماجی اور معاشی حالت بدلنے کے حوالے سے بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والی بلوچستان کی پہلی اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی کرنے کا اعزاز محترمہ فضیلہ علیانی کو حاصل ہوا جو تعلیم یافتہ اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والی نوجوان خاتون تھی۔

اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی میں بڑا اضافہ سابق ڈکٹیٹر حکمران جنرل پرویز مشرف۔نے ایک آرڈئنس کے ذریعے 33فیصد کیا۔2013میں وجود آنے والی اسمبلی میں واحد خاتون راحت جمالی اپنے حلقے سے انتخاب کے ذر یعے منتخب ہو ئی جن کو حکومت کے تیسرے سال خواتین کی ترقی کی وزارت کا قلم دان دیا گیا۔ اقلیتی کوٹے پر بھی آنیتہ عرفان کی نامزدگی سے خواتین کی تعداد 13 ہوگی تھی۔25جولائی 2018کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کی چار 
۔

تحریک انصاف کی ایک ،جمعیت علما اسلام کی دو۔بلوچستان نیشنل پارٹی کی دو ،عوامی نیشنل پارٹی کی ایک اور بی این پی عوامی کی ایک خاتون نامزد ہو کر اسمبلی کی رکن بنی ہیں ۔حالیہ اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کی ڈاکٹر ربابہ بلیدی اس سے قبل بھی اسمبلی کی رکن رہی ہے۔باقی تمام خواتین پہلی مرتبہ رکن اسمبلی بنی ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی کی بشریٰ رند،ماجبین شیران،بی این پی کی شکیلہ نویدکے علاؤہ اب تک منعقد ہونے والے اسمبلی اجلاسوں میں باقی 9خواتین خاموش رہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی نے بشریٰ رند،ڈاکٹرربابہ بلیدی،لیلہ بی بی،ماہ جبین شیران، پی ٹی آئی نے ڈاڈر سے تعلق رکھنے والی فریدہ بی بی کو نامزد کیا ہے،جمعیت علماء اسلام نے بی بی بانو،اور بی بی زبیدہ کو رکن اسمبلی بنایا ہے۔بی این پی نے شکیلہ نویداور زینت شاہوانی ایڈوکیٹ کو رکن بنایا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی نے کچلاک کی شاہنہ کاکٹراور بی این پی عوامی نے پنجگور سے بی بی مصتورہ کو رکن اسمبلی کی ذمہ داری سونپی ہے۔

خواتین اسمبلی سے متعلق اور اسمبلی کاروائی سے متعلق اسمبلی کی ویب سائٹ پر اب تک مطلوبہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ یواین وومین بلوچستان کی سربراہ عائشہ ودود کا کہنا تھا کہ موجودہ خواتین اسمبلی کی اکثریت بنیادی شعور اور قانون سازی کے عمل سے ناواقف ہے۔

ان سے تربیت کے حوالے سے کئی مرتبہ رابطہ کرنے پر کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔سیاسی پارٹیوں نے خواتین کی نامزدگی کرتے وقت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔موجودہ اراکین کے تربیت یافتہ ہونے تک اسمبلی کی مدت ختم ہو جائے گی۔ویسے بھی سیاسی پارٹیوں کے خواتین کو مین سٹریم میں لانے کے وعدے صرف پارٹی منشور کی حد تک ہی محدودہیں ۔ 

سیکرٹری محکمہ ترقی خواتین صدیق مندوخیل کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد دیگر محکموں کی طرح خواتین کی ترقی کا محکمہ وجود میں آیا 2010کے بعد بننے والی تمام حکومتوں نے خواتین کو سماجی و معاشی اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے ہیں۔سابق اسمبلی کی خواتین اراکین نے اس حوالے سے قانون سازی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔حراسمینٹ کی روک تھام کے ایکٹ سمیت دیگر قوانین بنائے گےٗ۔

وراثت میں خواتین کو دین اسلام نے جو حقوق دیئے ہیں بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان حقوق کی فراہمی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے وراثت میں خواتین کے طے کردہ شرعی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مسودہ قانون مختلف مراحل سے گذر کر اب کابینہ کی منظوری کے لیے بجوا دیا گیا ہے۔اس کے بعد اسمبلی سے مسودے کو منظور کرایا جاے گا جس میں موجودہ اسمبلی کی خواتین اراکین کا انتہائی اہم کردار ہو گا۔بلوچستان میں خواتین کی نمائندگی کو حوصلہ افزا کہتے ہوے ان کا کہنا تھا کہ صوبے کی خواتین اپنی صلاحیتوں اور محنت سے زندگی کے تمام شعبوں میں کردار ادا کر رہی ہیں۔

دوسری خواتین کانفرنس کے انعقاد کی سمری منظوری کے لیے وزیر اعلی کوبجھوا دی گی ہے ۔خواتین کی ترقی کی وزارت کا قلم دان بھی وزیر اعلی کے پاس ہے۔حالیہ اراکین اسمبلی خواتین کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ان کی مشاورت اور تعاون سے خواتین کی ترقی میں حائل تمام رکاوٹوں کودور کر لیا جائیگا۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری سینٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی نے بلوچستان کی خواتین کی معاشی اور سماجی حالت بدلنے کے لیے اپنی متحرک سیاسی ورکر اور سنٹرل کمیٹی کی ممبران کوصوبائی اسمبلی میں قانون سازی اور پہلے سے موجو د قوانین پر عملدرآمد کو تیز کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے ۔

پارٹی اسمبلی کارروائی اور اپنے اراکین کی کارکردگی کا جائزہ لے رہی ہے فعل حال دونوں خواتین کی کارکردگی سے میں مطمین ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ حکومت ابھی تک ملکی مسائل کا جائزہ لینے اور پالیسی بنانے میں مصروف ہے اسی لیے سینٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں کمیٹیوں کے قیام سمیت قانون سازی کاعمل شروع نہیں ہوسکا۔اس حوالے سے حکومتی کمزوریاں تو ہیں ۔حکومت جب رولز آف بزنس کا آغاز کر ے گی تو ہماری پارٹی اراکین بھر پور حصہ لیں گی۔

عورت فاوٗنڈیشن کے ملکی سطح پر چلنے والے پروگرام صنفی مساوات کی سابق صوبائی پروگرام آفیسر اور ہوم نیٹ پاکستان بلوچستان کی کوآرڈینٹر صائمہ جاوید کا کہنا تھا کہ جہاں تک میرا موجودہ خواتین اراکین اسمبلی سے رابطہ ہوا ہے ان میں بی این پی کی شکیلہ نویداوربلوچستان عوامی پارٹی کی بشری رنداور ماجبین شیران ،جمعیت کی بانو سے مل کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ خواتین سیاسی ورکر رہی ہیں دیگر اراکین کو کئی مرتبہ ایڈوکیسی کے لیے دعوت دی ہے مگر نہ جانے کیوں انہوں نے آنا گورا نہیں کیا۔سیاسی پارٹیوں کی جانب سے خواتین اراکین کی نامزدگیوں کو دیکھ کر ان کی عورتوں کی ترقی سے متعلق ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

قانون سازی اور پالیسی سازی کے عمل میں حصہ لینا انتہائی ذمہ دارانہ اور اہم کام ہے جس کے لیے اسمبلی امور سے اگاہی کے ساتھ ہوم ورک کے ساتھ اسمبلی آ نابھی ضروری ہوتا ہے موجودہ اراکین اسمبلی کی اکثریت میں اس انتہائی اہم کام کرنے کی فعل حال اہلیت نہیں ہے ۔ان کی تربیت میں بہت وقت لگے گا تب تک بلوچستان کی لاکھوں خواتین اس انتظارمیں رہیں گی کہ کب ہمارے مسائل پر بات ہوگی یا پالیسی بنے گی ۔

نیشنل پارٹی کی مرکزی خواتین سیکرٹری اورسابق رکن اسمبلی یاسمین لہڑی کا کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلی میں پارٹیوں کی جانب سے بجھوائی گیٗ زیادہ تر خواتین کا بطور سیاسی ورکر کے تجربہ نہیں ہے۔ زیادہ ترخواتین گھروں سے سیدھی اسمبلی پہنچی ہیں نامزد ہونے سے قبل شاید کسی نے اسمبلی کا نام بھی نہیں سنا ہوگا۔

پچھلی اسمبلی میں شاہدہ روف ،حسن بانو،ڈاکڑ رقیہ ہاشمی،راحیلہ درانی،سپوزمی دوسری مرتبہ اسمبلی میں آئی تھی مجھ سمیت کچھ دیگر خواتین کو اپنی پارٹیوں نے بطور ورکر کارکردگی دیکھ کر نامزد کیا تھااسی لیے ہم سب نے مل کر سینرٗز سے سیکھنے کے ساتھ ساتھ اسمبلی کے تمام امور میں مکمل ہوم ورک کے ساتھ حصہ لیا اور پروومین قانون سازی کے ساتھ پالیسی سازی اور محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں بھی پارٹی مشاورت سے کردار ادا کیا ۔سابق مخلوط حکومت کو ریکارڈ قانون سازی کرنے کا جو سہرا جاتا ہے اس میں خواتین کا متحرک کردار بھی شامل ہے۔

موجودہ خواتین اراکین کو مسلسل تربیت دینے کی ضرورت ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ جب تک یہ تربیت یافتہ ہونگی اسمبلی کی مدت ختم ہوجاے گی ان خواتین کا کیا ہو گا جن کی وہ نماندگی کرنے آئی ہیں ۔سیاسی پارٹیوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوے تجربہ کارباشعور سیاسی ورکرز کو اسمبلی میں بجھوانا چاہے اسمبلی کی رکنیت کو پرائمری سکول کی استانی کی نوکری سمجھ کر بانٹنا نہیں چائے۔ اس مرتبہ مکمل خانہ پوری کی گی ہے اور زیادہ تر اپنی رشتے دار وں کو نوازا گیا ہے ۔سیاسی پارٹیوں نے بلوچستان کی خواتین کے ساتھ ناانصافی کی ہے ۔الیکشن کمیشن کو خواتین ارکین کی اہلیت اورقابلیت کے حوالے سے الیکشن رولز میں ترامیم کرنی چائے ۔

بلوچستان اسمبلی میڈیا فوکل پرسن رپورٹر روزنامہ جنگ عبدالخالق کا کہنا تھا ابھی تک اسمبلی کے چار سیشن مکمل ہوے ہیں ۔ بی این پی کی شکیلہ نویدباپ پارٹی کی بشری رنداور ماہ جبین کی کارکردگی اچھی رہی ہے انہوں نے خواتین کے مسائل کے ساتھ دیگر اہم امور پر بات کی ہے ۔گزشتہ اسمبلی کی کارکردگی اس لیے زیادہ بہتر تھی کہ سینرٗ خواتین پارلیمنٹرین کی اچھی خاصی تعداد اسمبلی میں موجود تھی اس مرتبہ دس خواتین پہلی مرتبہ اسمبلی میں آئی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان کی کارکردگی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتی جائے گی کارکردگی کا تقابلی جائزہ مزید چھ ماہ گزرنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے ۔

انسانی حقوق کمشن پاکستان کی کونسل ممبر قمرالنساء ایڈوکیٹ جو خواتین کی معاشی و سماجی ترقی کے لیے طویل عرصے سے مصروف عمل ہے کا کہنا تھا کہ موجودہ خواتین اراکین اسمبلی کی اکثریت کو اسمبلی کے قوائدو ضوابط کا ہی علم نہیں ہے ۔قانون سازی تو دور کی بات ہے۔انتہائی افسوس کا مقام ہے معاشرتی سدھار میں مصرف عمل خواتین کے لیے اسمبلی کے دروازے بند ہیں ۔

حالیہ اراکین کی نامزدگی سے سیاسی پارٹیوں کی خواتین کے مسائل حل کرنے سے متعلق سوچ اور اہمیت ظاہر ہوتی ہے ۔سیاسی آجارہ داری کو برقرار رکھنے والوں نے صوبے کی چھیالیس لاکھ خواتین کی نماندگی ایسی عورتوں کو سونپ دی ہے جن کی اکثریت کو بات کرنے تک کا سلیقہ نہیں ۔دوسرے الفاظ میں حالیہ ارکین ا سمبلی بلوچستان کی خواتین کی حقیقی نماندگی نہیں ہیں ۔ بلوچستان کی لاتعداد اعلی تعلیم یافتہ خواتین اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوئے عورتوں کی معاشی حالت بدلنے کی کوشش میں مصروف ہیںَ کاش ان پروفیشنلز کو سیاسی پارٹیاں ا سمبلی میں بجھواتی۔

بلوچستان عوامی پارٹی کی رکن اسمبلی اور حکومت کی ترجمان بشری رند کا کہنا تھاکہ وومین کوکس کی منظوری ہوچکی ہے بہت جلد چیئر پرسن اور ممبران کا نوٹیفکیشن ہو جاے گا ۔اس کے بعد اراکین کی تربیت کا عمل شروع ہو گا پرو وومین قانون سازی اور پہلے سے بنے ہوئے قوانین پر عملدر آمد کے لیے تمام خواتین مل کر کام کریں گی ۔

ماجبین شیران کو چیر پرسن بنانے کا فیصلہ ہو ا ہے۔عورتوں کو اللہ نے مردوں کی نسبت زیادہ ذمہ دار بنایا ہے وہ جوذمہ داری لیتی ہیں اچھے طریقے سے ادا بھی کرتی ہیں ۔انشااللہ تمام خواتین مل کر بلوچستان کی عورتوں کے درینہ مسائل اور مشکلات کو کم کر نے کے لئے اپنا بھر پورکردار ادا کریں گی۔ 

ضلع ڈیرہ اللہ یار کی کونسلر اور جنرل الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے جان جمالی کا مقابلہ کرنے والی سماجی ورکر نور جہان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کے چار سیشن میں لاکھوں عورتوں کی نمائندہ اراکین اسمبلی کی کارکردگئی ان کی مسلسل خاموشی نے ظاہر کر دی ہے۔

مجھے ان میں وہ صلاحتیں دکھائی نہیں دیتی جو ارکین اسمبلی میں ہونی چائے ۔جو عورت کھڑی ہو کر بات نہ کر سکے اس نے قانون سازی کیا کرنی ہے زیادہ تر کو تو ڈمی کے طور پر لایا گیا ہے ۔یہ ہم عورتوں کی بدقسمتی ہے کہ ہماری نماندگی ایسی چپ کا روزہ رکھنے والی عورتوں کو سونپ دی گی ہے ۔

بی این پی کی رکن اسمبلی زینت شاہوانی کا کہنا تھا کہ ڈاکڑ ربابہ بلیدی کے علاوہ تمام خواتین نیی ہیں ۔بھر بھی سب نے عورتوں کے مسائل پر اسمبلی میں بات کی ہے ۔میں نے کچھ سولات مرتب کر کے اسمبلی میں جمع کرائے ہیں اگلے اجلاس میں ان پر بات کروں گی تمام خواتین متحرک ہیں آیندہ اجلاسوں میں سب بولتی دکھائی دے گی ۔باپ پارٹی کی ہرنائی سے تعلق رکھنے والی رکن اسمبلی لیلہ بی بی کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے نیا فورم ہے ابھی ابتدا ہے ہماری تربیت کا عمل شروع ہو چکا ہے جلد ہی ہم سب خواتین اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرتی سب کو نظر ایں گی ۔

ہمیں اپنے علاقے کی خواتین کے مسائل اور مشکلات کاعلم ہے اور خود پر ڈالی گی ذمہ داری کا بھی احساس ہے۔آپکا ضلع کوئٹہ کی نمائندہ فائزہ ملک کا کہنا تھا کہ ابھی تک کے صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں خواتین نے عام عورت کے مسائل پر کوئی بات نہیں کی سی پی ڈی کے ساتھ مل کر موجودہ اراکین اسمبلی کی تربیت کے لیے کئی مرتبہ رابطے کی کوشش کی ہے مگر کسی نے تربیتی عمل میں شامل ہونے کواہم نہیں سمجھا۔