|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2018

حالیہ دنوں میں حلقہ 47 کیچ 2 کے الیکشن میں ہچکچائے بغیر سیاست سے شغف رکھنے والا ہر شخص بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کی پیشنگوئی کر رہا تھا۔۔۔۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ واقعی بلوچستان عوامی پارٹی اس حلقے میں توانا ہے یا اسکی گراس روٹ مضبوط ہے بلکہ وجہ یہ تھی کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ہی امیدوار نے جیتنا ہے تو سو جیتنا ہے۔

تاریخ عالم میں شاید یہ پہلی پارٹی ہے جسکا منشور وجود میں آنے کے بعد بنی ہے جس کے بننے سے پہلے عہدیدار تخلیق پا چکے تھے چشم زدن میں خداداد صلاحیت کے حامل مختلف الخیال لوگ ایک ‘‘پلیٹ فارم ‘‘ پربلا چوں و چرا یکجاہ ہوگئے ہیں ،بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر بھائی چارہ ،اتحاد و اتفاق دیکھ کر نا اتفاق قوم کو سبق حاصل کرنا چاہئے ،بلوچستان عوامی پارٹی ایک منتشر قوم کیلئے مثال بن گئی ہے ۔

پاکستان میں تبلیغی جماعت کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی واحد جماعت ہے جو ثواب دارین پر یقین کامل رکھنے کے ساتھ باہمی یکجہتی و مفادات باہمی کا عملی نمونہ ہے۔۔۔۔۔۔ایک درویشانہ جماعت ہونے کے ناتے عوامی پذیرائی ملنا ہی تھا ، ہر خاص و عام کی پیشنگوئی کے عین مطابق حلقہ پی بی 47 کے نتائج بھی سامنے آگئے ۔

اس میں ا چھنبے والی کوئی بات نہیں ، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے اس حلقے کو حاصل کرنے کیلئے کافی محنت کی لیکن عوامی رائے کے سامنے انکی شبانہ روز بے خوابی اور محنت ’’باپ‘‘کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔

میری ذاتی رائے یہ تھی کہ اس حلقے میں ’’بی اے پی ‘‘ کا اصل مقابلہ نیشنل پارٹی سے ہوگا ،نیشنل پارٹی نے اس حلقے میں اپنی مہم شروع دن سے لانچ کر چکی تھی ،سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ صاحب اس مہم کے پائلٹ تھے اور ہمارے اچھے اور کرم فرما دوست واجہ فدا دشتی مضبوط امیدوار مانے جارہے تھے ۔

چونکہ حاجی فدا دشتی اس وقت بھی لوکل باڈیز کے اہم عوامی عہدے پر فائز ہیں تو لامحالہ گمان یہی تھا کہ فدا دشتی لالا دشتی سے دو ہاتھ ضرور کریں گے لیکن نتائج نے نیشنل پارٹی کے حوالے سے نہ صرف حیران کر دیا بلکہ میں اب بھی ششدرہ ہوں کہ مکران میں نیشنل پارٹی کی پوزیشن تیسرے درجے کی شہری جیسے کیسے بنی ؟

جیسے کہ حروف بالا میں بتا چکا ہوں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی کامیابی زبان زد عام تھی نتائج بھی عین توقع کے مطابق آگئے لیکن دوسری جانب توقع یہ بھی کی جارہی تھی کہ نیشنل پارٹی دوسری پوزیشن لانے میں کامیاب ہوجائیگی لیکن ایسا نہ ہو سکا،۔

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں نیشنل پارٹی کو اپنی ناقص رائے دی تھی، اس حلقے سے شکست کے بعد اپنی رائے کو دہرانا چاہوں گا ،نیشنل پارٹی کو اپنی سابقہ غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرکے از سر نو اپنی پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔مجھے نہیں لگتا کہ نیشنل پارٹی کا بی این پی یااختر مینگل مخالف بیانیہ کامیاب ہو پائیگابہتر یہی ہے کہ مخالفت برائے مخالفت کی سیاست چھوڑ دینا چاہئے۔

دو ہزار اٹھا رہ کے انتخابات سے پہلے تک بی این پی سے متعلق عام رائے یہی تھی کہ اس جماعت کو دوبارہ ابھرنے میں وقت در کار ہوگا لیکن تمام تجزیئے رائے زنی یکسر غلط ثابت ہوگئے ،اختر مینگل نے حالیہ انتخابات میں زبردست واپسی کی ہے ۔مکران کے حالیہ ضمنی الیکشن میں بی این پی نے توقع کے بر عکس نتائج دیکر مستقبل میں مکران میں بی این پی کیلئے کامیابی کی راہ ہموار کر دی ہے۔