|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2018

اسلام کے نام پر وجود میں انے والے ملک پاکستان میں ستر برس گزرنے کے باوجود اسلام کے قوانین کا نفاذ ممکن نہیں ہوسکا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے واضع کردہ حکامات کی خلاف ورزی کرنے کے لیے طرح طرح کے جواز تلاش کیے جاتے ہیں۔بلوچستان میں مختلف قبائلی رسوم کا سہارا لے کر کہی بہن بیٹی سے اس کا حق بخشوانے کے لیے بعض علماء سے فتویٰ لے لیا جاتا ہے ۔

اور کہی جائیداد کو تقسیم سے بچانے کے لیے بہین بیٹی کی شادی کسی کمزور شخص سے کرو دی جاتی ہے تا کہ اسے جائیداد میں حصہ نہ دینا پڑے ۔جائیداد کو بچانے کی خاطر کچھ ظالم بھائی اپنی ہی بہن پر جھوٹا الزام لگا کر اسے قتل کر د یتے ہیں قتل کے بعد عزت کے نام پر قتل کا فاہدہ لے کر باعزت بری بھی ہو جاتے ہیں ۔

جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے منشور میں یہ بات رکھی اور الیکشن کمیشن کو یہ تجویزدی ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والوں کے لیے یہ شرط لازمی قرار دی جائے کہ و ہی لوگ الیکشن میں حصہ لے سکیں جو اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو وارثت میں حصہ دینے کی یقین دھانی کروائیں۔ 

بلوچستان کے سندھ سے ملحقہ اضلاع میں بھائی اپنی بہنوں پر الزام لگا کر اسے کاری قرار دلوا کر اسے قتل کر دیتے ہیں جعفرا باد میں مختلف الزامات کے بعد قتل ہونے والی خواتین کی تعدا د میں کمی کی بجائے ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

صوبے کے پشتون علاقوں میں جائداد کے بٹوارے سے پہلے بھائی مختلف طریقے استعمال کر کے اخلاقی دباو بڑھا کر بہنوں سے اپنا حصہ معاف کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیںیا عمرہ کرانے کی لالچ دے کر حصہ معاف کروا لیا جاتا ہے۔

تحریک انصاف نے بھی الیکشن 2018 کے منشور میں عورتوں کو وراثتی حقوق کی فراہمی کے لیے قانون سازی کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی عوتوں کے طے شدہ حقوق کی فراہمی کے لیے قانون سازی کرنے کا عہد کیا تھا جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر عبدالحق ہاشمی کا کہنا تھا کہالیکشن کمیشن ایسے امیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دے ، جس نے اپنی بہن اور بیٹی کو وراثت میں اس کا حق نہ دیا ہو۔

جاگیر دار وڈیرے اور سرمایہ دار اپنی جاگیریں ،اثاثہ جات اور بنک بیلنس بچانے کیلئے بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔ مغرب نے خواتین کے حقوق کو پامال اور باپ ،بھائی اور بیٹے کی محبت سے محروم کیا ۔برابری کے نام پر عورت کا بدترین استحصال کیا گیا او ر بڑی چالاکی سے معاشی بوجھ بھی عورت کے کندھوں پر ڈال دیاہے ۔مغر ب اپنی شیطانی تہذیب کو مسلط کرنے کیلئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کے ذریعے ہمارے خاندان کے قلعہ کو مسمار کرنا چاہتا ہے۔ 

خواتین کو اسلام نے ماں بہن بیٹی اور بیوی کے رشتوں کے حوالے سے جو احترام دیا ہے اس کی مثال دوسرے کسی مذہب اور تہذیب میں نہیں ملتی۔ خواتین پر تشدد کرنے والے سے بڑھ کر کوئی بزدل نہیں ہوسکتا ،ایسے ظالموں کو سخت ترین سزائیں دی جانی چاہئیں ۔ خواتین کے حقوق کی ضمانت صرف اسلامی نظام دے سکتا ہے ،جماعت اسلامی اقتدار میں آئی تو خواتین کو وراثت میں ان کا حق دلائے گی اور جہیز ،قرآن سے شادی اور ونی جیسی رسومات کو ختم کرکے بچیوں کیلئے تعلیم کو لازمی قرار دے گی ۔ 

اسلامی حکومت میں آبادی کے52 فیصد کو وسائل بھی ان کی تعداد کے مطابق دیئے جائیں گے ، اگر اللہ نے ہمیں موقع دیا توخواتین کے لیے علیحدہ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بنائیں گے ۔اسلامی حکومت خواتین کو بلاسودی قرضے دے گی تاکہ وہ گھریلو دستکاریوں اور چھوٹی صنعتوں کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔خواتین کیلئے ہسپتالوں ،ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر علیحدہ کاؤنٹر بنائے جائیں گے تاکہ خواتین بغیر کسی جھجک کے اپنے امور سے عہدہ براء ہوسکیں۔قومی سطح پر خواتین کے حقوق کے تحفظ سے ہی عورت کو احترام اور اعتماددیا جاسکتا ہے ۔

حکمران امریکہ اور مغرب کو خوش کرنے کیلئے مسلمان خواتین سے حجاب جیسی نعمت چھین لینا چاہتے ہیں۔شیطان نے حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کو بے لباس کرکے جنت سے نکلوایا تھا اور آج اس کے چیلے انسانیت کوبے لباس کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں قرآن و حدیث کی روشن تعلیمات سے اپنے گھروں کو منور کرنے کی ضرورت ہے ۔ معاشرے کو جہالت ،کرپشن ،بدامنی ،دہشت گردی ،غربت ،مہنگائی اور بے روز گاری جیسے مسائل سے نجات دلانے کیلئے ہمیں خواتین کو اعتماد دینا اور ان کے حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔

تحریک انصاف کی بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی منورہ منیر کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی ملک کی واحد سیاسی پارٹی ہے جس نے اپنے منشور میں خواتین کو ان کے وراثتی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے ۔

بلوچستان میں سماجی تنظیموں کی جانب سے وراثت میں خواتین کے حصے کو تحفظ دینے کے لیے سابق خواتین ارکین اسمبلی سے ایڈوکیسی کے بعد محکمہ ترقی نسواں نے وراثتی قانون کا مسودہ تیار کیا ہے تحریک انصاف صوبے میں قائم مخلوط حکومت کا حصہ ہونے کے ناطے اسمبلی سے اس مسودہ قانون کو پاس کروانے میں بھر پور ساتھ دے گی ۔وفاقی سطح پر بھی ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری سے مشاورت بھی کی ہے انقریب قومی اسمبلی میں بھی وراثتی قانون میں ترمیم کا مسودہ پیش کیا جائے گا۔

محکمہ ترقی نسواں کے سیکرٹری صدیق مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک کی اکثریت مسلمان ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے طے کردہ قوانین پر عمل نہیں کیا جارہا ۔عدالتوں میں مقدمات کی بھر مار کی اور معاشرتی دباو کی وجہ سے پہلے توخواتین اپنے بھایوں کے خلاف عدالت جاتی ہی نہیں ہیں اور اگر کو ئی خاتون عدالت جانے کی ہمت کر بھی لے توانصاف بھر وقت نہیں ملتا۔ہمارہ معاشرہ طاقت ور کے مقابلے میں کمزور کا ساتھ نہیں دیتا ۔

خصوصاٰ بلوچستان جہاں ابھی تک قبائلی نظام اچھا خاصہ مضبوط ہے ۔ایسے معاشرے میں کسی خاتون کا وراثت میں حصہ لینا انتہائی مشکل عمل ہے ۔انہی مشکلات کو کم کرنے کے لیے محکمے نے سابق ارکین خواتین اسمبلی کی مشاورت سے قانون وراثت کا مسودہ قانون تیار کیا تھا ۔الحمداللہ مسودہ محکمہ قانون سے پاس ہونے کے بعد کابینہ سے منظوری کے لیے بجوا دیا گیا ہے ۔

وزیر اعلیٰ بلوچستا ن جام کمال خان جن کے پاس محکمے کا قلم دان بھی ہے نے وراثت کے قانون کی منظوری میں بھر پور تعاون کا عندیہ دیا ہے ۔ مسودہ قانون تیار کرتے وقت پنجاب کے قانون وراثت کو جائزہ لیا گیا ہے۔نادرا کے ب فارم میں وراثتی حصے کی فراہمی کو لازمی قرار دینے کے لیے معلومات درج کرانے کا الگ خانہ تجویز کیا گیا ہے۔

سماجی و سیاس شخصیت شازیہ لانگو کا کہنا تھا کہ بیٹیاں اللہ پاک کی عطا کردہ عظیم نعمیت ہوتی ہیں اور ماں باپ ہر آن انکے اچھے نصیب کی دعائیں کرتے ہیں انکے محفوظ مستقبل کے خواہشمند ہوتے ہیں لیکن جب حقیقت میں بیٹیوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی باری آتی ہے تو والدین بیٹی کو لاکھ چاہہنے کے باوجود وراثت میں اس کا جائز شرعی حق دلوانے میں کامباب نہیں ہو پاتے ۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ جس معاشرے میں لوگ مذئب کی توہین کے نام پر فوراٰٰ اشتعال میں آ جاتے ہیں مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن خواتین کے وراثتی حقوق جن کو دینے کی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضع حکمات جاری فرمائے پر عمل کرنے کی بجائے روح گردانی کرنے لے جواز فرسودہ روایات میں سے نکال کر مسلمان ہونے ہونے کے باوجود اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر دی جاتی ہے۔ 

بیٹوں کو انکی تمام تر طوطا چشمیوں کے باوجود تمام تر جائداد کا وارث بنا دیا جاتا ہے اور ایسا بار بار جتلایا جاتا ہے کہ بیٹا تو اس گھر کا وارث ہے اور بیٹی اپنے تمام تر خلوص کے باوجود سر سے کسی بوجھ کی مانند اتار پھینکی جاتی ہے اس نصیحت کہ ساتھ کہ جیسی بھی زندگی ہو ہنس کے کاٹ لینا مگر میکے کا رخ نہ کرنا تمارہ جنازہ ہی واپس انا چائے ۔ 

مردوں جن کو معاشرے میں کسی قسم کے مشکل نہین انکو باپ کا چھوڑا ترکہ بھی دے دیا جاتا ہے جبکہ عورت جس کے لیے سماج میں مشکل ہی مشکل ہے کو اسکے مستقبل کے لیے خالہ خولی دعاوں کے علاوہ کچھ نہین دیا جاتا اور جب اس پر کوئی مشکل آتی ہے تو وہ خالی ہاتھ ہوتی ہے۔ اور میلے سے اپنے حق تو کیا کسی قسم کی مدد تک کی امید نہین رکھ سکتی۔

ہمارا معاشرہ جسکی ہر بات پہر کڑی نظر ہوتی ہے جیسے کہ کسی کے مرجانے کے بعد اعتراضات اور سوالات کرتا ہے جیسے ‘‘فلاں کے بیٹے نے باپ کے قل پر قورمہ نہین بنوایا خالی چاول کھلا دیے ‘‘ اس قسم کے طعنے دیتا ہے لیکن یہمعاشرہ کبھی یہ نہین کہتا کہ ‘‘ فلان کے بیٹے نے اپنی بہنوں کو باپ کے ترکے سے کچھ نہین دیا۔مطلب بیکار کی باتوں کا پرچار کرنے والا معاشرہ بھی ء ظلم اورناانصافی پر اپنا منہ بند ہی دکھتا ہے۔اور سب سے بڑی مشکل ریاست کی اس حوالے سے عدم دلچسپی ہے پہلے تو خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق کوئی قانون آسانی سے پاس نہیں ہوتا اور اگر، ہوجائے تو پھر اس پر عمل نہیں ہوتا۔

ریاست اور سیاسی پارٹیاں خواتین کے ووٹ اور ٹیکسز کو تو یکساں طور پر بٹورتے ہیں مگر انکی فلاح و بہبود کے حوالے سے انکا کوئی کردار آج تک سامنے نہیں ایا۔ انکو دوسری سہولیات کی ساتھ ساتھ معاشی طور پر مستحکم بنانے کے حوالے سے بھی ریاست اپنا کردار ادا نہیں کر پائی ۔

بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں جائداد کی تقسیم اور بہنوں کو حصہ دینے سے بچنے کے لئے بیٹیوں کو مختلف الزامات میں مروا دیتے لگا کر قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر قرآن سے شادی کرا دیتے ہیں یا پھر برادری میں اچھا رشتہ نا ہونے کا بہانا بنا کر تمام عمر گھر بٹھائے رکھتے ہیں۔: مزید ستم یہ کہ شادی اگر کرنی پڑ جائے تو پھر خود سے کم حیثیت والے خاندان میں شادی کرادی جاتی ہے تاکہ وہ اپنا حصہ تک طلب نہ کر سکے۔

کسی بھی ریاست کی م ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے قوانین بنائے اور ان کو نافذبھی کراے لیکن ہمارے ہاں ریاست کی نظر میں آج بھی خواتین کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے اور اسکا اظہار ریاست کے رویوں سے ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ وہ خواتین کے مسائل سے کے حل سے متعلق کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کے لوگ اپنی بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے یہ سوچ بلکل غلط ہے۔یہ اقدام کسی کا انفرادی تو ہو سکتا ہے مگر اجتماعی طور پرایسا نہیں ہے۔قبائلی نظام کو اس کے نواب سردار چلاتے ہیں۔

میں آپ کو اپنی ہمشیرہ کی مثال پیش کرتا ہوں میرے والد صاحب نے ان کو بھائیوں کے برابر جائیداد دی۔میری دادی جو نواب نوروز خان کی بیٹی تھی کو ان کے والد نے اپنے سات بیٹوں کے برابر جائیداد دی آج بھی جہاں جہاں حقیقی قبائلی سوچ اور ذہنیت رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور جہاں جہاں قبائلی نظام مضبوط ہے وہاں وراثتی شرعی قوانین پر عملدرآمد ہو رہا ہے ۔

بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ اگر بہین یا بیٹی کی شادی کسی دوسرے قبیلے میں ہو جائے۔تو ایسی صورت میں جائیداد میں حصہ تو نہیں دیا جاتا۔مگر جائیداد سے زیادہ سونا یا دیگر تحائف کی شکل میں دے دیا جاتا ہے خاتون وکیل نایاب منیر کا کہنا تھا کی وراثت میں اپنا طے شدہ حق حاصل کرنے کے لیے بہت ہی کم خواتین عدالت کا دوارہ کھٹکاتی ہیں۔

کم سکم ڈھڈ سال سے دو سال کا عرصہ فیصلہ ہونے میں لگ جاتاہے۔جب تک کیس چلتا ہے ہر پیشہ پر عدالت پہنچنا وکیل کی فیس سمیت دیگر اخراجات برداشت کرنا عام خاتون کے لیے آسان نہیں ہے۔جن بھایوں سے اپنا حصہ لینے کے لیے کیا کیا ہوتا ہے ان کا دباؤ اور خوف کا الگ سامنا کرنا پڑتا ہے۔پنجاب کے ایکٹ کی طرح بلوچستان میں بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

تاکہ اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے دیا جانے والے وراثتی حقوق کے حصول کے لیے عدالتوں کے دھکے نہ کھانے پڑہیں۔جائیداد کی منتقلی کے وقت ہیں تمام بہین بھایوں کو ان کا پہلے سے طے شدہ حصہ جود بخود مل کاے۔

یشنل کمیشن فار وومن سٹیٹس کی ممبر ثنا درانی کا کہنا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے طے کردہ وراثتی حقوقِ کا ایک اسلامی ریاست میں نہ ملنا لمہ فکریہ ہے۔ہمارہیرائج قوانین عورتوں کے وراثتی کو تحفظ تو دیتے ہیں مگر عدالت کے ذریعے اپنا حق لینا عورت کے لیے انتہائی مشکل عمل ہے جسے آسان بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

12/10/18, 13:43 ۔ ImtiazAhmed: بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنے منشور میں عورتوں کے تمام حقوق کو تحفظ دینے اور حقوق کے حصول کے طریقہ کار کو آسان بنانے کے وعدے پر عمل کا آغاز کرتے ہوے محکمہ خواتین کی ترقی کیتیار کردہ مسودہ قانون کو کابینہ سے منظوری کے بعد اسمبلی سے ایکٹ بنانے کے عمل کو تیز کیاہے امید ہے دوسری سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد ایکٹ پاس کر لیا جائیگا۔

بلوچستان کمشن براے خواتین کی حیثیت کی چیئرپرسن اور ممبران کی نامزدگی بھی اسی ماہ کرنے کا وزیراعلی نے وعدہ کیا ہے بچوں اور اساتذہ کی تربیت اور کردار سازی کے لیے کام کرنے والی ادارے آفاق بلوچستان ریجن کے مینجر عبدانعیم رند کا کہنا تھا کہ تعلیمی نصاب تو بچوں کی عمر اور اان کی سیکھنے کی صلاحتوں کو مدنظر رکھتے ہوے مرتب کیا جاتا ہے پہلے بچے کو ایمانیات پڑھایا جاتا ہے پھر عبادات کے اسباق شامل کیے گئے ہیں۔

اس کے بعد زندگی کے دیگر معاملات کے بارے میں بتایا جاتا ہے بچے کو حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد کے بارے میں بتایا اور سمجھایا جاتا ہے حقوق اللّٰہ کی تفصیل کے بعد بندوں کے حقوق کی تفصیلات کے بعد نویں جماعت میں رشتے داروں کے الگ الگ حقوق پڑھاتے جاتے ہیں۔والدین بہن بھائیوں اولاد بیوی کے حقوق پڑھائے جاتے ہیں بیٹا بیٹی کے حقوق۔پڑھانے کے بعد ایف اے میں وراثت کے قوانین پڑھائے جاتے ہیں بی اے کی لازمی اور اسلامیات اختیاری میں وراثت کے قوانین تفصیل سے پڑھائے جاتے ہیں

اسلامیات صرف پڑھانے کا مضمون نہیں ہے سمجنے اور عمل کرنے کا مضمون ہے۔ بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں اسلامیات کو پراکٹکل مضمون سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی بجاے رٹہ لگا کر امتحان پاس کرنے کے کے لیے پڑھا جاتا ہے۔ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامیات پر عمل کرتے ہوے اسے زندگی گزارنے کے لیے پڑھا جائے تب بچوں کو علم ہو گا کہ ان کے والد کی جائیداد میں ان کی بہنوں والدہ۔والد کی بہنوں کا بھی حصہ اللّٰہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے۔

One Response to “پاکستان ،ستر برس گزرنے کے باوجود عورتیں وراثت کے حق سے محرو م”

Comments are closed.