بلوچستان میں حالیہ قحط سالی سے 20 زائد اضلاع متاثر ہوئے ہیں، خشک سالی کی وجہ صوبے میں بارشوں کا نہ ہونا ہے ۔ متاثرہ علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر آر او پلانٹ نصب کئے جارہے ہیں تاکہ متاثرین کو صاف پانی فراہم ہوسکے،یہ کسی حد تک ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تو بہتر ہے البتہ مستقل حل نہیں ہے۔
بلوچستان میں کچھی کینال، پٹ فیڈر کینال اور مانگی ڈیم جیسے اہم منصوبوں کو جلد مکمل کرنے پر زور دیاجائے تاکہ اس گھمبیر صورتحال سے نمٹا جاسکے، گزشتہ حکومت نے بلوچستان میں قحط سالی سے نمٹنے کیلئے ایک غیرملکی کمپنی سے ملکر مصنوعی بارشیں برسانے کا معاہدہ کیاتھا سب سے پہلا تجربہ گوادر میں ہونا تھا جس کی کامیابی کے بعد دیگر اضلاع میں مصنوعی بارشیں کرانے کا پروگرام تشکیل دیا گیا تھا، اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا، وجوہات کیا ہیں اس کے متعلق بھی کوئی معلومات نہیں۔
افسوس کا عالم ہے کہ بلوچستان میں جن منصوبوں کے متعلق معاہدے کئے جاتے ہیں ان پر عملدرآمد کیلئے سنجیدگی اختیار نہیں جاتی، مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں مانگی ڈیم کی بنیاد رکھی گئی ، صوبہ میں پانی بحران سے نمٹنے کیلئے 100 ڈیمزتعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم ان پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔
کچھی کینال اور پٹ فیڈر کینال جیسے اہم منصوبوں کامکمل ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان دونوں منصوبوں سے بلوچستان کے بعض اضلاع میں قحط سالی کا خاتمہ ہوجائے گااوربنجرزمینیں بھی آباد ہوجائینگی جس سے ایک زرعی انقلاب برپا ہوگا۔
گزشتہ ماہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے یونیسف کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہاکہ حکومت کی تمام تر توجہ خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں اور غذائیت کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے پر مبذول ہے، اس ضمن میں ایک ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایاجارہا ہے جس کی سربراہی وہ خود کرینگے، ٹاسک فورس میں عوامی نمائندوں، متعلقہ صوبائی اور وفاقی اداروں کے حکام اور ڈونرز اداروں کے علاوہ سول سوسائٹی کی نمائندگی بھی ہوگی تاکہ ایک جامع پالیسی مرتب کی جاسکے۔
ٹاسک فورس متاثرہ علاقوں میں قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی منصوبے شروع کرنے کیلئے سفارشات تیار کرے گی جن پر عملدرآمد سے خشک سالی کے اثرات اور غذائیت کی کمی کے مسائل کو دیرپا بنیادوں پر حل کیاجاسکے گا۔
صوبہ میں نیوٹریشن ایمرجنسی بھی نافذ کی گئی ہے جبکہ زچہ وبچہ کی شرح اموات پر قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جارہے ہیں، عالمی ادارہ صحت سمیت یونیسیف اور دیگر ڈونر اداروں کی معاونت کو خوش آئند قرار دیا گیا حکومت کی جانب سے بھی متعلقہ ادارے ڈونرز ایجنسیوں سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
بلوچستان میں اس وقت صورتحال گھمبیر ہوتی جارہی ہے یقیناًٹاسک فورس اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی مگر اس وقت صوبہ میں پانی بحران اور غذائی قلت پر قابو پانے کیلئے کچھی کینال اور پٹ فیڈرکینال سمیت ڈیمزکی تعمیر پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے یہ ایک مستقل حل ہے جس سے خشک سالی اور غذائی قلت جیسے چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جلد ایک لائحہ عمل تیار کریں کیونکہ بلوچستان کے حصہ کا پانی اسے نہیں مل رہا، اگر یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوجائے تو کسی حد تک پانی بحران سے بلوچستان نکل سکتا ہے،
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے پاس اعلیٰ کوالیفائیڈ شخصیات موجود ہیں جو اس مقدمہ کو بہتر انداز میں لڑسکتے ہیں کیونکہ عرصہ دراز سے اس مسئلے پر ٹال مٹول سے کام لیاجارہا ہے جبکہ سابقہ حکومتوں نے بھی اس اہم معاملے پر کوئی خاص اقدام نہیں اٹھایا ۔امید ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ملکراس مسئلے کو اٹھائینگے تاکہ پانی بحران کو مستقل طور پر حل کیاجاسکے۔