|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث حادثات اور اموات میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا۔ پاکستان مائنز ورکرز فیڈریشن کے زیر اہتمام میٹروپولیٹن کارپوریشن کے زیر اہتمام ریلی نکالی گئی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیاگیا۔ 

احتجاج میں مائنز ورکرز یونین، یونائیٹڈ مائنز ورکرز یونین، اتحاد مائنز لیبر یونین، سینٹرل مائنز لیبر یونین، شاہرگ، مچھ اور کوئٹہ کے ملحقہ علاقوں میں کانکنوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں اور انسانی حقوق کمیشن کے کارکنوں نے شرکت کی۔ 

مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور وہ کانکنوں کو حقوق دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے فیڈریشن کے مرکزی صدر حاجی نور محمد یوسفزئی اورسنٹرل مائنز ورکرز یونین کے صدر بخت نذر یوسفزئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کوئلہ کانوں میں ایک لاکھ سے زائد کانکن کام کررہے ہیں جو صحت و سلامتی کے وسائل سے محروم ہیں۔ 

حکومت کی عدم توجہی اور غفلت کے باعث حادثات معمول بن چکے ہیں اور ہر ماہ درجنوں کانکن حادثات میں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس موقع پر یونائیٹڈ مائنز ورکرز کے صدر پیر محمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صرف 2018ء4 میں کوئلہ کان حادثات میں 120 کانکن جاں بحق اور اس سے دگنی تعداد میں شدید زخمی اور معذور ہوئے ہیں۔ 

حکومت کی جانب سے کوئلہ کانکنوں میں حفاظتی اصولوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے کانکنوں کی جانیں داؤپر لگی ہوئی ہیں۔ کوئلہ کان کے مالکان اور ٹھیکیدار کانکنوں کی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے۔حادثات میں جاں بحق مزدوروں کی مناسب مالی امداد بھی نہیں کی جاتی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت حفاظتی سامان کی درآمد پر ٹیکس ختم کریں اور کوئٹہ میں ویئر ہاؤس کا قیام عمل میں لائے جہاں سے آسان اقساط پر کان مالکان اور ٹھیکیداروں کو حفاظتی سامان فراہم کیا جائے۔ 

انہوں نے کوئلہ کانکنوں کی تربیت بھی لازمی قرار دینے ، مالی امداد کی رقم پانچ لاکھ روپے تک بڑھانے ، کانکنوں کو ای او بی آئی اور دیگر ویلفیئر اداروں میں رجسٹرڈ کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ بھی ناکام ہیا ور وہ محنت کشوں کا استحصال کررہا ہے۔ مزدور تنظیموں کے رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ مائنز انسپکٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ حادثات سے بچا جاسکے۔ 

انہوں نے کوئلہ کانیں ٹھیکے پر دینے کا نظام ختم کرنے ،مائنز ایکٹ کو تبدیل کرنے اور حالیہ حادثات کی فارنزک تحقیقات کراکر ذمہ داروں کے خلاف مؤثر کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن کی کارکن قمر النساء ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کوئلہ کانکنوں کی حفاظت کیلئے قانون انگریزدور میں 1923 میں بنایا گیا تھا جو آج کے دور کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ 

اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی بلوچستان حکومت نے قانون سازی میں دلچسپی نہیں لی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک صدی پرانے قانون میں تبدیلی کرکے حادثات کی تحقیقات کا طریقہ کار مؤثر بنایا جائے اسی طرح حادثات کے ذمہ داران کی سزائیں بھی سخت کی جائے۔