|

وقتِ اشاعت :   January 22 – 2019

اگر آپ ماسٹرز پاس یا گریجویٹ ڈگری ہولڈر ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ منسٹری آف ایجوکیشن نے ایمرجنسی میں بیروزگار نوجوانوں کے لیے مسئلے کا انوکھا حل نکال ہی لیا ہے۔ ٹیسٹ و انٹرویو دئیے بغیر ہی آپ “ایجوکیٹرز’’ بن سکتے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایس ایس ٹیز کی 3500 آسامیاں خالی ہیں۔ 

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر “ایجوکیٹرز’’ کو بھرتی کیا جائے گا جو ایس ایس ٹیز کی جگہ خدمات سر انجام دیں گے اور ان کو ماہانہ پندرہ ہزار روپے بطور ریمیونیریشن ادا کیا جائے گا۔ بے روزگار نوجوان ماسٹرز اور گریجویٹس میں یقیناًخوشی کی لہر دوڑ رہی ہوگی لیکن حکومتِ وقت ان کو کس طرح دلاسہ دے کہ وہ میرٹ کی دھجیاں نہیں اڑائیں گے؟، حق دار کو ہی اس کا حق دیا جائے گا، وہ ممبرز جو سلیکشن کمیٹی میں شامل ہیں ان کا دامن صاف ہے، وہ نیب زدہ اور کرپشن زدہ تو نہیں؟۔

البتہ پڑھے لکھے عوام میں یہ گمان پایا جاتا ہے کہ یہ صرف اپنوں کو بخشنے کا ایک نیا فارمولا ہے۔ بعدازاں ان امیدواروں کو مستقل بنیادوں پر ایس ایس ٹیز بنایا جائے گا۔ جس طرح “بلوچستان پیکیج’’ کے نام پر امیدواروں کو بطور “ایچ ایس ٹی’’ بھرتی کیا گیا اور پھر پبلک سروس کمیشن پاس کیے بغیر ان کو ایس ایس ٹی تک پروموٹ کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان پیکیج میں غریب اور قابل امیدواروں کو بھی موقع ملا، تاہم “اپنوں’’ کو بھی نوازنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا گیا۔

ان اپنوں اور سیاسی پارٹیوں کے جیالوں کو آج تک معلوم نہیں کہ ان کے مدارس کس سمت میں ہیں!!۔وفاق کی جانب سے بلوچستان پیکیج کے ذریعے 20 ہزار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسا نہیں کیا گیا۔ یہاں صرف پانچ ہزار افراد کو محکمہ تعلیم میں سیاسی بنیادوں پر قوائد و ضوابط کے خلاف گریڈ 16 میں بھرتی کیا گیا جس سے ادارے کی کارکردگی مزید تباہ ہوئی کیونکہ اس کا اختیار صرف پبلک سروس کمیشن کو تھا۔

حالاں کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے واضح طور پر اپنے ایک فیصلے میں محکمہ تعلیم میں گریڈ 16 کے ملازمین کی بھرتی کا اختیار صرف بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اب بلوچستان پبلک سروس کمیشن جیسے ادارے کو ایس ایس ٹیز بھرتی کرنے کی ذمہ داری سے ہمیشہ کے لیے بری الذمہ کیا جا رہا ہے؟۔ اب کتنے عرصے بعد کمیشن کے ذریعے ایس ایس ٹیز کی پوسٹوں کا اعلان کیا جائے گا یا ایجوکیٹرز سے ہی کام چلایا جائے گا؟۔ کیا اس سے قابل افراد کی حق تلفی نہیں ہوگی؟۔ کیا محکمہ تعلیم کو پرائیوٹائیزیشن کی جانب نہیں دھکیلا جا رہا؟۔ کیا تعلیم کا جنازہ نہیں نکلے گا؟۔ سب سے زیادہ مقروض صوبے کے وزرا ء اور ایجوکیشن کے ذمہ دار افسران ان سوالوں کے جواب دینا چائیں گے۔

گو کہ آپ نے بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے فوری فیصلہ تو درست کیا ہے لیکن بھرتی کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں۔ عوامی حلقوں میں اس طریقے کو ناپسند کیا جا رہا ہے۔ کیا پھر غریب، لاوارث، غیرسیاسی نوجوانان اور کمیشن پاس ایس ایس ٹیز اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔! میں تو صرف آپ کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ 

یہ یاد رکھیں کہ میرٹ کی پامالی معاشرے میں بدامنی اور نقصِ امن کا سبب بن رہی ہے اور ایسے لوگ جو محنت کرتے ہیں ان کی حق تلفی سے مایوسیاں جنم لیتی ہیں اور نتیجتاً وہ افراد معاشرے سے انتقام لینے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ سابقہ ادوار میں اہل اور قابل افراد کی حق تلفیوں کے نتائج ہم بھگت چکے ہیں جن کی وجہ سے آج ہماری نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے اور ہر ادارہ کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ رشوت اور کمیشن کے بغیر کوئی فائل اپنی جگہ سے ہلتی تک نہیں۔

وی او اے کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے بدعنوان ترین محکموں میں ایک محکمہ تعلیم ہے جو ہر وقت سیاسی حکومتوں کے زیرعتاب رہتا ہے اور ہر آنے والے حکمران اپنے دورِ حکومت میں سیاسی، خاندانی اور دیگر بنیادوں پر ہزاروں من پسند نااہل افراد کو اساتذہ کی پوسٹوں پر تعینات کرتے ہیں۔ اب جو اساتذہ صرف رشتہ داریوں اور رشوتوں کی بنیاد پر بھرتی کیے جائیں تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بچوں کو پڑھا سکیں گے؟۔ نتیجتاً ملک میں معیارِتعلیم بڑھنے کے بجائے اس کا جنازہ نکل رہا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں گھوسٹ اسکولوں اور گھوسٹ اساتذہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ بلوچستان میں اس شخص کو بھی “خواندہ’’ کہا جاتا ہے جو صرف اپنا نام پڑھنا اور لکھنا جانتا ہو۔ بلوچستان میں سرکاری سکولوں کے برعکس پرائیویٹ سکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گویا بلوچستان میں تعلیم جیسے اہم شعبے کو نجی سرمایہ کاروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تعلیم تو اب اک جنس ہے جسے بازار میں سرعام بیچ کر منافع کمایا جا سکتا ہے۔

دنیا میں تعلیم کے شعبے کو ہمیشہ سب سے پہلے اور سرفہرست رکھا جاتا ہے اور ہر سال اس کے لیے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس میں کٹوتی کی جاتی ہے۔ سو یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ہم تعلیم کو کتنی ترجیح دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک چینی کہاوت ہے کہ “اگر ایک سال کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ، اگر ایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اگاؤ اور اگر آئندہ ایک ہزار سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ’’۔

شکر ہے کہ ہماری حکومت اس کہاوت کو بروقت سمجھ چکی ہے اور بہترین منصوبہ بندی کر کے بے روزگار نوجوانوں کے لیے “ایجوکیٹرز’’ کے پلیٹ فارم پر بلوچستان کے عوام کو ایک اور پیکیج دینے پر آمادہ ہو چکی ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر یہ نئی پالیسی جس پر سرمایہ لگایا جا رہا ہے کس حد تک کامیابی حاصل کر سکے گی؟، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

 


قلم کار کی رائے سے آپ کا اتفاق ہونا لازمی نہیں اور مقصد کسی کی دل آزاری بھی نہیں۔ اہلِ قلم اور اہلِ کمنٹس تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور “ایجوکیٹرز’’ کے ریمیونیریشن بنیادوں پر بھرتی کے حوالے سے اپنی آراء اور خدشات ضرور سامنے لائیں)