کچھ عرصہ قبل ایک ایسے دفتر جانے کا اتفاق ہوا جہاں ٖایف ایس سی کے بعد طالب علم فارم حاصل کرتے ہیں انٹری ٹیسٹ دینے کے لیئے تاکہ میڈیکل کی تعلیم میں داخلہ لے سکیں۔کچھ طالب علم دوستوں کے ساتھ اور کچھ طالب علم اپنے والدین کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ دل خون کے آنسو رو رہا تھا جب ان ذہین اور نو عمر طالب علموں کو بھکاریوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے دیکھا۔ صرف یہ پوچھنے کے لیے کہ فام کی اس شق میں کیا لکھنا ہے۔
اس کا مطلب کیا ہے۔اور جو صاحب بتا رہے تھے وہ غرور اور تکبر کی مثال بنے ہوئے ان طالب علموں کو نخوت سے کہہ دیتے تھے کتنی بار سمجھایا ہے سمجھ میں نہیں آرہا۔ باربار مت آؤ۔ تب خیا ل آیا کہ اگر یہی فارم ہماری اپنی قومی زبان اردو میں ہوتا تب انہی ذہین طالب علموں کی آنکھوں میں فکر و ترددکی بجائے خود اعتمادی ہوتی۔
والدین جو فارم فل کرنے کے معرکے کو اپنی دعاؤں سے سہل کرنے کی کوشش کررہے تھے وہ بھی پرسکون ہوتے اور پھولے نہ سماتے کہ ان کی اولاد بارہ سال کی پڑھائی کے بعد اپنا کام خود کر سکتی ہے۔ سوچوں کا سلسلہ دراز ہوا تو سوالوں کا نہ ختم ہونے والادور شروع ہوگیا۔ پہلا سوال برِصغیر پاک و ہند میں ایک عظیم تحریک تحریک آزادی کا مقصد کیا تھا؟۔اس تحریک کیلئے عزت،اولاد،گھر بار رشتوں کی قربانی کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ کیا اب ہم آزاد ہیں؟۔
آزادی کے ثمر کیسے ہوتے ہیں؟۔جو عظیم قربانیاں برِصغیر کے مسلمانوں نے دیں کیا اس کے ثمرات انھیں مل گئے؟۔اور اسی طرح کے بے شمار سوالات؟ بد قسمتی سے ہر سوال کا جواب نفی میں تھا۔ برِصغیر میں جب انگریز قابض ہوئے اور ہندؤں سے گٹھ جوڑ ہواتو نقصان صرف مسلمانوں کا ہوا۔حزیمت و بے توقیری صرف مسلمانوں کا مقدر ٹھہرا۔ ایسے میں مردِ قلندر علامہ اقبال نے اس غلام قو م میں خودی کا شعور اجاگر کیا اور ان جیسی ماندہ اور درماندہ قوم کا علاج آزادی بتا یا۔
جہاں ہر انسان اپنے مذہب،اپنے رسم ورواج،اپنی زبان، اپنے قانون اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے۔ جہاں سب کچھ اپنا ہو۔ جب سب کچھ اپنا ہو گا تو سکون ہو گا۔ عزت ہو گی اور ہماری آنے والی نسلیں ایمان کے جھنڈے تلے ترقی کی منزلیں طے کرتی جائیں گی اور ایک باوقار قوم کہلائے گی۔ کتنا حسین تھا یہ خواب کہ اس کی تعبیر پانے کے لیئے برِصغیر کے مسلمانوں نے قربانیوں کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں کہ تاریخ کے اوراق کھنگالنے پر بھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔
محنتیں تمام ہو جائیں تو اللہ بھی کرم کر دیتا ہے اور آزادی کا سورج طلوع ہو گیا۔ قائدِمحترم نے اس مملکتِ خداداد کی قو می زبان اردو کا اعلان کیا۔ جب گھر اپنا ہو تو اسے مانگے تا نگے کی چیزوں سے نہیں سنوارا جاتانہ ہی پہچانا جاتا ہے۔رعب و دبدبہ خودداری میں ہے۔پڑوسی کی چیزیں گھر میں لا کر رکھنے میں عزت اور خودداری نہیں ہے۔ جینے کے لیئے جوقربانی وطنِ عزیز کیلئے دی آج یہاں سب ہے عزت اور خودداری نہیں ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے ہمارے ملک میں تعلیم کا گراف ۴۰ فیصد بھی نہیں یعنی سو میں سے ساٹھ ان پڑھ ہیں۔
اس ملک کا قانون اپنی زبان میں نہیں بلکہ انگریزی زبان میں ہے۔ عدالتوں میں خوار ہوتے ہاتھ میں انگریزی زبان میں لکھا ہوا کاغذ پکڑ کر در بدر پھرتے ہیں۔ کوئی ہے جو پیسے لے کر اسے پڑھ دے اور اس کا جواب لکھ دے ایسا کیوں؟ جب کہ اردو ہمارے ۹۰ فیصد لوگ پڑھ سکتے ہیں۔ ہماری مسلح افواج کی تربیت انگریزی زبان میں ہوتی ہے کیوں؟ ہماری اپنی زبان میں کیوں نہیں۔آپ آزاد ملکِ پاکستان کے باسی ہیں لیکن سفر کے دوران ہدایات انگریزی میں نظر آئیں گی ۔ ہمارے ڈرائیورز یا دوسرے لوگ انگریزی نہیں جانتے۔بڑے بڑے شاپنگ مالز میں جائیں تو گیٹ پر ایگزٹ اور انٹر لکھا نظر آئے گا۔ اگر کوئی غلط دروازے سے چلا گیا تو اس پر لوگ ہنسنے لگ جاتے ہیں۔اور انگریزی نہ آنے پر تضحیک کا نشانہ بنا یا جا ہے کیوں؟
تضحیک نہ ہو۔ خودداری پر چوٹ نہ پڑے احساسِ کمتری نہ ہواسی لئے تو سب چھوڑ کر اپنی پناہ گاہ میں آئے تھے۔ ہسپتال چلے جائیں ۔ آنے والے مریض ان پڑھ مگر پرچی انگلش میں۔ کم پڑھا لکھاآدمی جب یہ پرچی دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنے والی شرمندگی اور بے چارگی دل چیر دیتی ہے اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی انگلش پرچی کو پڑھانے کے لیئے مسیحا ایسے تلاش کرتا پھرتا ہے جیسے کسی اعلیٰ مقصد کے لئے خوار ہورہا ہواور جب کوئی انگلش میں لکھی پڑ ھ لے تو تشکر کی ایسی لہر چہرے پر آتی ہے جس میں اپنی کم مائیگی کا احساس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اس کی خودداری کرچی کرچی ہو کر اس کے دل کو زخمی کر دیتی ہے۔
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ شادی کا دعوت نامہ پڑھ کر بتاؤ بارات کہا ں جائے گی اور کب جائے گی جب بتا نے والے نے بتا دیا تو شکریہ ایسے ادا کیا جیسے کہہ رہا ہو تم تو فرشتہ ہو جب ہر قدم پر ذلیل ہو نا ہے۔ خودداری پر چوٹ کھانی ہے تو آزادی کیوں لی؟
احساسِ دل رکھنے والا ہر انسان ایسی ہزاروں مثالیں روز دیکھتاہے اور سوچتا ہے کہ اس بلا کا گلہ کون دبائے گا میں نے جب اس صورتِ حال سے پریشان ہو گر دنیا میں موجود آزاد ترقی یافتہ ملکوں کو سرچ کیا کہ ان کی زبان کی کیا اہمیت ہے تو یقین کریں آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ کسی بھی ملک کا قانون ،عدالتی نظام ،ٹریفک کا نظام، سیروسیاحت کا نظام ، ہسپتال کا نظام ان کی اپنی زبان میں تھا۔
کئی ممالک ایسے تھے جو دوائیں امپورٹ کرتے ہیں لیکں ان پر لکھی ہو ئی انگریزی ہدایات کو اپنی زبان میں ترجمہ کروا کر اپنے لوگوں کو دیتے ہیں اور یہ سب اس لیے کہ ان کے شہری عزت سے جئیں ۔ انھیں اپنا ملک اپنا لگے۔حد تو یہ ہے کہ جن ملکوں میں انگریزی نہیں بولی جاتی اگر وہاں آپ انگلش میں درخواست لکھ دیں تو واپس آجاتی کہ ہماری زبان میں لکھیں۔
اساتذہ کی تربیتی نشست میں بتایا جاتا ہے کہ طالب علم کے خراب اور غلط کام کو بھی یہ مت کہیں کہ آپ نے غلط کیا ہے یا آپکو نہیں آتا اور لال رنگ کا استعمال بھی نہ کریں۔ کام میں زیادہ غلطیاں نہ نکالیں صرف یہ کہیں کہ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے مزید بہتر کام کر سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ طالب علم کی خودداری پر چوٹ نہ پڑے اور دوسرے طالب علموں کی موجودگی میں شرمندہ نہ ہو۔ اس سے جو زہریلے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ بہت ہی بھیانک ہیں۔
ہر انسان اچھا طالب علم نہیں بن سکتا مگر وہ اچھا انسان ضرور بن سکتا ہے۔ اچھاشہری ضرور بن سکتا ہے یہ ایک غیر ملکی تربیت دینے والے کی کلاس تھی اور میں مسلسل یہ سوچ رہی تھی جہاں بغیر قصور کے لوگ ذلیل ہو رہے ہوں ان کی خودداری پر ہتھوڑے برس رہے ہوں انہیں بتا یا جارہا ہو تم کمتر ہو وہ قوم کیسے ترقی کرے گی کیسے اچھا شہری بنے گی ۔
ہم نے اپنی زبان کو اپنے پیروں تلے ہی روند کر مسخ کر دیا ہے۔ٹی وی جیسے میڈیا پر اردو سے نابلد لوگ کام کرہے ہیں اور اردو کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ایسے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں جو اردو کی ٹانگ توڑنے کے مترادف ہیں۔ جہاں زبان کسی کی ،لباس کسی کا ، طرزِزندگی کسی کا ہو وہاں کی نسلوں کی پہچان کیا ہو گی۔ ہمیں کب احساس ہو گا کہ جب تک ہم اپنی زبان کی عزت نہیں کریں گے تو کوئی بھی نہیں کرے گا۔
یہ صرف زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ۲۰ کروڑ انسانوں کی عزت اور وقار کا مسئلہ ہے۔ خودداری کا مسلۂ ہے۔ دعاہے کہ جو راستہ کھو گیا ہے جو منزلیں دھندلا گئی ہیں جس مسافر سے راستہ بھٹک گیا ہے وہ صحیح سمت پر گامزن ہو جائیں آمین۔ لیکن یہ جانتی ہوں کہ اس کے لیئے پھر تحریک کی ضرورت ہے یا معجزے کی۔ ہماری زبان ہمارا وقار ہے اور اردو کا وقار ہم سے ہے۔