پاکستان بنتے ہی ملک دشمن عناصر سرگرم ہو جائیں گے۔ اندرونی طور پر بے چینی پھیل جائے گی۔ قومیت ولسانیت کے شعلے بھڑکیں گے۔ چھوٹی اور بڑی قوموں میں حقوق کے حوالے سے کشمکش رہے گی۔ اور پاکستان کا پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمیشہ تناؤ رہے گا۔ یہ ان پیشین گوئیوں کا حصہ ہے جو مولانا ابوالکلام آزاد نے مختلف تقریروں میں کی تھیں۔ بلوچستان کو 1948 میں قومی دھارے میں داخل کیا گیا۔ کس طرح اور کیسے یہاں کے باشندوں کو قائل کیاگیا۔
اس بحث میں جانے کا وقت نہیں۔ پر یہ ایک کھلی اور روشن حقیقت ہے کہ بلوچستان کے باسی ہمیشہ وفاق سے نالاں رہے ہیں۔ کئی ساری وجوہات میں بنیادی سبب مرکز کا بلوچستان کو نظرانداز کرنا۔ آئینی تقاضوں پر عمل درآمد نہیں کرنا ہے، مثلا آئین کا آرٹیکل 161 کہتا ہے کہ “گیس جہاں سے نکلتی ہو، اس کے تمام محاصل کا حق دار وہی علاقے ہیں۔ “لیکن یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ سب الٹی گنگا بہاتے ہیں۔
گیس کا سالانہ حساب 148 ارب روپے بنتے ہیں، مگر ان کا آدھا بھی متعلقہ علاقوں کو نہیں ملتا۔ ڈیرہ بگٹی اور سوئی کی گیس پورے ملک کو سپلائی کی جاتی ہے، مگر وہاں رہائش پذیر بلوچ لکڑیوں سے چولہا جلاتا ہے۔ انہی دو علاقوں میں 33 فیصد گھروں کو بجلی میسر نہیں۔ صرف 20 فیصد کو گیس میسرہے۔
2392 مریضوں کیلئے صرف ایک بیڈ دستیا ب ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں میٹرک تک کی تعلیم صفر فیصد ہے۔ تقریباً اس جیسی پسماندگی، زبوں حالی اور غربت سارے صوبے میں پھیلی ہوئی ہے۔ چاغی کا پہاڑ سونا اگل رہا ہے مگر اس کے دامن میں رہائش پذیر انسان پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں،اور وہ گوادر جس کیلئے پوری دنیا پر تول رہی ہے اور اسکیمیں بن رہی ہیں، لیکن وہاں کا باسی صاف پانی کیلئے ترستا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے رقبے کا حامل ضلع نوشکی میں 38 فیصد گھر بجلی سے محروم جبکہ 65 فیصد کو گیس میسرنہیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ شہر کے اطراف اب بھی گیس سے محروم ہیں۔ اور بعض علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ ہے، مگر یہاں ترقی کا نام ونشان نہیں۔ سونا، گیس اور کوئلہ ودیگر معدنی ذخائر کے چشمے یہاں سے پھوٹتے ہیں، لیکن یہاں کا رہائشی ضروریات زندگی اور سہولیات سے محروم ہیں۔ تاریخی قلات اور سابق گورنر بلوچستان کا آبائی وطن اب بھی گیس کی سہولت سے ناآشنا ہے۔ بجلی صرف برائے نام، سرکاری ہسپتالوں کا نام ونشان نہیں۔
جب کسی خطے میں ضروریات ناپید ہوں۔ تعلیم کا تناسب ناقابل بیان ہو۔ جہالت کا بول بالا ہو۔ ان کے پاس وسائل ہوں، مگر وہ ان سے مستفید نہ ہو سکتا ہو، دوسرا یونٹ مکمل استفادہ کر رہا ہو۔ ان کی فیکٹریاں اور کارخانے اسی سے چل رہے ہوں، وہ سہولیات سے آراستہ ہوں، مگر اصل مالک آب ودانہ کیلئے ترستا ہو۔ تو کیا اس طرح یہ یونٹ اپنے مرکز کے ساتھ خوشی سے رہ سکتا ہے؟
اور کیا لوگوں کو صرف زبانی جمع وخرچ سے مطمئن کیا جا سکتا ہے؟ بلوچستان کے ساتھ وعدے اور وعیدوں کا سلسلہ اتنا ہی طویل ہے جتنی اس ملک کی تاریخ۔ جو بھی آیا، حقوق دلوانے کے خوشنما نعرے بلند کیے۔ بے روزگاری، جہالت اور پسماندگی ختم کرنے کی بات کی، مگر چہرے بدلتے رہے۔ عوام کی حالت جوں کے توں رہی۔ ہر نئی حکومت کے ساتھ آس ویاس وابستہ رہی۔چہرے تبدیل ہوتے رہے، پر عوام کی حالت نہ بدلی۔
وفاق کا بلوچستان کے حوالے سے اعلانات اور وعدے تصنع وبناوٹ کی بدترین تصویر ہوتی ہیں۔ مزید ستم یہ کہ شکوہ وشکایات بھی نہیں کرنے دیا جاتا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیسوں سے تو دوسروں کو راحتیں میسر ہیں، وہ خوش وخرم ہیں اور یہاں کے باسی حزن والم کی راتیں کاٹ رہی ہیں۔ ان کے بچے تعلیم سے آراستہ ہوں اور ہمارے بچے جہالت کی گود میں پلے۔ دوسرے پانی کی بجائے جوس پیا کریں اور ہمارا بچہ بھیڑ بکریوں کے ساتھ ایک گھاٹ پر اپنی پیاس بجھائیں۔
ہمیں پاکستان سب سے زیادہ عزیز ہے۔کبھی نہیں چاہتے کہ اس بارے وہ خدشات اور پیشین گوئیاں درست اور سچ ثابت ہو جائیں اور ملک عزیز کو کوئی گزند پہنچے لیکن ایک مضبوط اور متحد پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ صاحب اقتدار اور مقتدر ادارے اپنی پالیسیوں پر ازسر نو غور کریں۔ تمام صوبوں کے جائز مطالبات، ان کے آئینی حقوق اور چھوٹی قوموں کے ساتھ چھوٹے بھائی کی بنیاد پر برتاؤ کریں۔ ورنہ یہ قتل وغارت گری اور حقوق کی تحریکیں کبھی نہیں رک سکتیں۔
اس کی دوسری وجوہات کے ساتھ بنیادی اور اہم سبب یہی ہے کہ ان کو ملک کاصحیح طورپر باشندہ ہی تسلیم نہیں کیا اور نہ ان کو تعمیر و ترقی میں شامل کیا جاتا ہے۔ تمام یونٹس کا مرکز کے ساتھ بھرپور اعتماد کی آج جتنی سخت ضرورت ہے، شاید پہلے اتنی نہ تھی۔ ملک خدا داد پر چاروں طرف سے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ملک دشمن قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ وہ ان اسباب کو بنیاد کر لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے میں مگن ہیں۔
جب تک ان زمینی حقائق کو تسلیم کر کے اسلام آباداپنی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرے گا، ان سازشی عناصر کو ناکام نہیں کیا جا سکتا۔ آؤ! سب مل جل کر پاکستان کو مضبوط بنائیں۔ آئین پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ناراض اور مایوس قوموں کو سینے سے لگا کر ایک متحد ومنظم قوم کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھیں اور اس ملک کو پائند آباد کریں۔