لافٹرتھراپی سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اس کا ایک اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ہوا۔میرے ایک مہربان دوست سرمد اقبال نے مجھے بتایا کہ لاہور میں باقاعدہ یہ تھراپی ہو رہی ہے اور لوگ پانچ ہزار روپے فیس دے کر کچھ دیر ہنستے ہیں اور اس سے ان کی بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں نے شاید امریکہ میں بھی کسی ایسی کمیونٹی کے بارے میں پڑ ھا تھا کہ وہاں پر لوگ کسی ایک پارک میں اکھٹے ہو کر قہقہے لگاتے ہیں اور اس سے ان کی ٹینشن کم ہو تی ہے۔ تو جستجو کے قارئین یہ ایک تسلیم شدہ طریقہ علاج ہے اور نبی کریم ﷺ کی سنت سے بھی ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو ہر حال میں خوش رہنا چاہیے۔ خواتین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اگر وہ چاہتی ہیں کہ ان کے چہرے پر جھریا ں نہ پڑیں تو ان کو بھی چاہیے کہ وہ مسکراتی رہیں۔
جدید سائنس بھی یہ کہتی ہے کہ مسکرانے یا قہقہے لگانے سے چہرے کے کچھ ایسے مسام ہوتے ہیں جو کھل جاتے ہیں اور اس کے آپ کی صحت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں دیکھا جائے تو اگر ہم ہنستے ہیں تو دوسروں پر۔
خود پر کوئی نہیں ہنستا ۔ اپنی خامیوں اور غلطیوں کے بارے میں ہمارا یہی نظریہ ہوتا ہے کہ کسی کو پتہ نہ ہی چلے تو اچھا ہے لیکن دوسروں کی خامیوں پر بات کرنا اور پھر دل کھول کر ہنسنا ہم میں سے اکثر لوگو ں کا دل پسند مشغلہ ہے اور اپنی غلطیوں پر ہم خود کو چپ کروادیتے ہیں کہ خبردار کسی کو نہیں بتا نا ۔لو گ کیا کہیں گے۔ میر ے دبئی میں قیام کے دوران مجھے بہت سے کامیاب لوگو ں سے ملنے اور ان کی کامیابی کی وجوہات جاننے کا اتفاق ہوا۔
ان سب میں سر فہرست میر ی کمپنی کا CEOتھا جو کہ ایک گورا تھااور اس کا تعلق آئر لینڈ سے تھا۔ وہ اکثر اپنے بارے میں کہتا تھا کہ میں بیوقوف ہوں اور اکثر غلطیاں کرتا ہوں لیکن ان غلطیوں سے بہت کچھ سیکھتا ہوں اورر وزانہ ان غلطیوں کو یا د کرکے ان پر ہنستا ضرور ہوں ۔ اس سے پہلے کہ لوگ مجھ پر ہنسیں میں خود ان غلطیوں پر ہنستا ہوں اور بہت کچھ سیکھتا ہوں ۔ پھر میں ان غلطیوں کو دہراتا نہیں ہوں اور ان کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو جناب اگر آپ بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو خود پر زیادہ دیر نہ سہی تو تھوڑی دیر ہی ہنس لیجئے۔
اپنی خامیوں کے بارے میں دوسروں کو بتا نا اور پھر اس پر ہنسنا اور ہنسانا بہت ہی مشکل کام ہے لیکن دوسری طرف یہ کامیابی کی کنجی ہے۔اس پریکٹس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ اپنی غلطیوں کو ہم عام طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے اور اگر تسلیم کر بھی لیتے ہیں تو اس کے بارے میں مختلف وجوہات کو گھڑ کر ہم اپنے آپ کو تسلی دے لیتے ہیں اور خود کو بھی خاموش کروا دیتے ہیںیا اپنی غلطیوں یا خامیوں کو دوسروں کے سر دھوپ کر اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتے ہیں۔
لیکن ہمارے یہ کام کامیابی کی بجائے ناکامی کی طر ف ہماری رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں۔اپنے آپ کو اتنا طاقتور ضرور بنائیں کہ خو د اپنا سامنا تو کرسکیں۔ خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین کام ہے لیکن جتنے بھی کامیاب لوگو ں کے بارے میں میں جانتا ہوں وہ سب لوگ خود احتسابی کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بنا لیتے ہیں۔
ناکام لوگ اپنی ناکامیوں پر ہنستے نہیں ہیں اور اپنی ان غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی خامیوں کا دوسروں سے ذکر کرنا اور پھر ان پر مل بیٹھ کر ہنسنا ایک مشکل امر ہے اور سب لوگ یہ کام نہیں کرسکتے لیکن یہ بھی درست ہے کہ سب لوگ کامیاب بھی نہیں ہوتے۔
خود پر ہنسیں اور کامیاب ہو جائیں
وقتِ اشاعت : January 31 – 2019