|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2019

چلو یہ مان لیتے ہیں کہ ہم شہر خموشاں کے مغربی حصے کے خاموش باسی ہیں۔ ہم بھی ملک کے دوسرے شہریوں کی طرح ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے اپنے لئے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ روزگار سفارش کے تحت من پسند سیاسی حمایتیوں اور کارکنوں کا حق ہے۔ اور ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم کسی منتخب نمائندے سے یہ سوال کریں؟ کہ ہمیں روزگار کیوں نہیں مل رہا ۔

شہر کی تنگ گلیوں اور سڑکوں کی مرمت اور تعمیر کو دیکھ کر ہماری منہ سے صرف ایک بات نکلتی ہے کہ کاش ہمارے گلیوں اور سڑکوں کو پختہ کیا جاتا۔ گلیوں اور سڑکوں کے نام پر کروڑوں روپے اپنے من پسند لوگوں کو نوازنے سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب بندر بانٹ سیاست کا حصہ ہے۔چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ہمارا احساس پانچ سال بعد سیاسی شعبدہ بازوں کو ہوتا ہے۔ اور پھر بعد میں کسی کو احساس دلانا مفاد پرستی کے زمرے میں آتاہے۔

چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ حالیہ بارشوں کے بعد شادی کور کے ندی نالوں میں اتنا پانی جمع ہے جس سے شہر کے باسیوں کو دو سے تین سال تک پانی کی فراہمی ممکن ہوگی۔ اور جہاں جس کا جی چاہے پانی کے وال کھول کر اس علاقے کو پانی کی سپلائی کو ممکن بنائے۔ ویسے پائپ لائنوں کا پروجیکٹ بھی کسی عمانی گرانٹ کی مرہون منت ہے۔ 

شہر کے مغربی حصے کے خاموش مکینوں کو پانی فراہم کرنا بھی شاید محکمہ پبلک ہیلتھ کی ذمہ داریوں میں اس لئے شامل نہیں ہے کہ خاموش باسی اپنی خاموشی کو اس لئے نہیں توڑتے کہ ٹینکر والے فی ٹینکر پانی چار ہزار پانچ سو روپے میں فراہم کرتے ہیں۔ 

بعض اوقات ٹینکر والے پانی کی فراہمی اس لئے روکتے ہیں کہ پیمنٹ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہزاروں روپے کسی غریب کو ادا کرنا ہوتے ہیں اور وہ اتنا کما رہاہوتا ہے جس سے بمشکل دو وقت کی روزی روٹی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔

چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ بقول آپ کے، ہمارے نمائندے اسمبلی فلور پر بلوچستان کے حقوق کی بہتر ترجمانی کررہے ہیں۔ اور ہم کیوں احتجاج کریں؟اس بات سے بے خبر کہ بھوکے انسان کو روٹی اور پیاسے کو پانی کی ضروت ہوتی ہے۔ اس بات کی بھوکے اور پیاسے کو فکر نہیں ہوتی کہ کون قومی جماعت اور کون علاقائی۔ اور کون کتنا بہتر ترجمانی کررہا ہوتا ہے۔

چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ صوبے میں سکولوں میں کلاس رومز کی کمی ہے اور اس لئے گلہ نہیں کرتے کہ ہمارے بچے تپتے دھوپ میں بیٹھ کر علم کے نام پر تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ انکو یہ بھی پتہ نہیں کہ انگریزی اور حساب پڑھانے والا کیا پڑھا رہا ہوتا ہے۔ 

والدین کو اپنے بچوں کی فکر اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ سرکاری سکول میں مفت کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ انکو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہاں علم کے نام پر تعلیم کی ڈگریاں انکے بچوں کا خواب ہوتا ہے۔چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں۔ 

جتنے فنڈز ملتے ہیں وہ ناکافی ہے اس لئے خاموش باسیوں کو مزید انتظار کرنا ہوتا ہے۔ویسے بقول سیاسی لیڈروں کے ماضی کے نمائندوں نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔پھر بھی کوئی یہ جرات نہیں کرسکتا کہ ماضی کے نمائندے کون تھے؟

انہی سوچوں اور خیالات سے نکل کر جب زبان کے بند تالوں کو توڑتا ہوں تو منافقت، مفاد پرستی اور لالچی کے فتوے منتظر ہوتے ہیں۔ پھر پتہ نہیں رات کے کس پہر نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہوں۔نئی صبح اور نئے منزل کی تلاش میرا اگلا منزل مقصود ہوتا ہے۔۔