کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سوئی گیس استعمال کرنے والے گھریلوں صارفین کو سیل پرائس فارمولے سے مستثنیٰ قراردے کر بلوں کی ایک مخصوص حد مقرر کرنے سے متعلق مشترکہ قرارداد منظور، اپوزیشن کے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر لنگر انداز ہونے والے جہازوں سے حاصل ریونیو میں اضافہ سے متعلق کمیٹی قائم کرنے کے مطالبہ پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین آپس میں الجھ پڑے ،ایوان میں خشک سالی اور غذائیت کے بحران سے متعلق بحث مکمل ہونے پر نمٹادی گئی ۔
وز یراعلیٰ بلوچستان کا ایوان کوپاک افغان اور پاک ایران سرحدوں پر تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی ۔ صوبائی وزیر بلدیات نے بلدیاتی اداروں میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرانے کا اعلان کرتے ہوئے اراکین اسمبلی سے ہونے والی کرپشن میں ملوث افراد کی نشانداہی کرانے کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ روز اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلا س میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی میر اکبر مینگل کی جانب سے حکومت اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہبلوچستان خشک سالی سے متاثر ہے جس سے صوبے کے عوام معاشی ابتری کا شکار ہیں حالیہ سرد موسم کی وجہ سے گریلو صارفین اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے سوئی گیس کا استعمال نسبتاً موسم گرما سے زیادہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سوئی سدرن گیس کی سیل پرائس کی وجہ 10000 سے 15000روپے ماہانہ بل ادا کرنے پڑھتے ہیں جو کہ غریب عوام کے دسترس سے باہر ہے ۔
لہذا ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان کے گھریلوں صارفین کو سیل پرائس فارمولے سے مستثنیٰ قرار دے کر موسم سرما کے لئے گھریلو صارفین کے بل کی ایک مخصوص حد مقرر کی جائے تاکہ صوبہ کے غریب عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔
قرار داد کی موزنیت پر بات کرتے ہوئے پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرے نے کہا کہ پنجاب اور سندھ سے مسترد شدہ گیس کے میٹر نصب کئے جارہے ہیں جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لوگ گیس اپنی زندگیاں بچھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ سوئی گیس حکام کوصارفین کو فکس بل ارسال کرنے کا پابند بنایا جائے بعدازیں ایوان میں رائے سے اسپیکر نے مشترکہ قرار داد کی منظوردی ۔
اجلاس میں گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سے حاصل ہونے والے ریونیو سے متعلق ثناء بلوچ نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہا کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر لنگر انداز ہونے والے جہازوں سے حاصل ہونے والی رونیو میں اضافہ کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے انہوں نے کہا کہ 124جہاز لنگر انداز ہوئے ہیں جن سے تین لاکھ 10ہزار روپے رونیوکی مد میں بلوچستان کو ملا ہے ۔
صوبائی مشیر کھیل وثقافت خالق ہزارہ نے کہا کہ ریونیو سے متعلق از سر نو جائزہ لیا جارہا ہے محکمے نے ہنگامی بنیادوں پر 16اقدامات اٹھائے ہیں محکمے نے ایوان میں اطمینان بخش جوابات دیئے ہیں معزز اراکین ہمیں وقت دے محکمے میں مزید اصلاحات لارہے ہیں اجلاس میں نصر اللہ زیرے ،اختر حسین لانگو اور سید فضل آغا نے بھی کمیٹی کے قیام سے متعلق ثناء بلوچ کے موقف کی تائید کی جس پر مشیر کھیل وثقافت اور اپوزیشن اراکین آپس میں الجھ پڑے ۔
مشیر کھیل وثقافت نے کہا کہ ایوان میں ہر کوئی کھڑا ہوکر ضمنی سوالات کررہا ہے جس پر اپوزیشن رکن سید فضل آغا نے کہا کہ ہم شرافت سے کام لے رہے ہیں ہر کوئی کا لفظ اسمبلی کی کارروائی حذف کی جائے یہ ڈسٹرکٹ کونسل کا حل نہیں صوبائی اسمبلی کا ایوان ہے جسے ہم مثالی بنانا چاہتے ہیں صوبے کے معاملات میں بہتری لانے کیلئے اپوزیشن کی تجاویز پر حکومتی اراکین کا سیخ پا ہونا باعث افسوس ہے ۔
حکومتی رکن قادرعلی نائل نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی اور مقدس ایوان کے تقدس کا علم ہے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سے متعلق قوانین کا از سرنو جائزہ لیا جارہا ہے فضل آغا ایک سینئر پارلیمٹیرین ہے گزشتہ 40سالوں سے ایوان کو جس حالات میں چلایا گیا ہمیں اس کا علم ہے ۔
خالق ہزارہ نے کہا کہ دکھ کی بات ہے سوالوں کے جوابات اطمینان بخش آئے ہیں میں ٹاؤن ناظم رہا ہو ں ہاؤس کے آداب بہتر جانتا ہوں ہو اپوزیشن مثبت تجاویز دے اس پر عملدرآمد کرینگے انہوں نے کہا کہ 2016ء کے بعد ایک ایس او پی بنائی گئی ہے جس کی 17نکات پر عملدرآمد کیا جارہا ہے ۔
اپوزیشن رکن اختر حسین لانگو نے کہا کہ کمیٹی کا قیام کوئی غلط بات نہیں حکومتی رکن دنیش کمار نے کہا کہ ہمارے دل میں بھی صوبے کے لئے اتنی ہی محبت ہے جتنا اپوزیشن اراکین کے دلوں میں ہے اسپیکر نے کہا کہ خالق ہزارہ کے قربانیوں کا اندازہ ہے وہ کام کرنا چاہتے ہیں ان کی کمیونٹی میں ان پر اعتماد کر کے انہیں ایوان تک پہنچا یا۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے جذبات کے سامنے تحمل سے کام لینا حکومت کی ذمہ داری ہے ایک دو ماہ تک محکمے کوکام کرنے کا موقع دیا جائے ثناء بلوچ نے کہا کہ مثبت تجاویز پر دوستوں کے درمین جھگڑا ہونا باعث افسوس ہے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اگر کمیٹی نہیں بنا نا چاہتی تو نہ بنائے ہم اپوزیشن اراکین کی کمیٹی بنا کر کمیٹی گڈانی جائینگے جس کیلئے ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے کہا کہ ہم اپوزیشن کی تنقید کو ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا اندازہ ہے اپوزیشن کی دوست اپنی کمیٹی بنانا چاہتے ہیں تو ضرور بنائیں تاہم امید ہے کہ اپوزیشن کی دوست اپنے رویے میں بھی تبدیلی لائینگے۔
اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا نور اللہ کی جانب سے توجہ دلاونوٹس ایوان میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے جاری کردی نوٹیفکیشن نمبر ایس آر او نمبر 1155 مورخہ 24 فروری 2016 ء کے تحت بمقام بادینی قلعہ سیف اللہ پاک افغان سرحد پر مختلف سامان دونوں برادر ممالک لانے اور لینے جانے سے متعلق کسٹم ہاوس قائم کرنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے ۔
اگر جواب اثبات میں ہے تو کسٹم ہاوس کے قیام پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا جارہا ہے کیا صوبائی حکومت اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے بھی ایوان میں پاک افغان سرحد ی شہر چمن تجارتی گیٹ کو آمد رفت کیلئے 24 گھنٹے کھولنے اور لوگوں کو سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کیا اجلاس میں اختر حسین لانگو نے نوشکی کے سرحدی علاقے کو بھی توجہ دلاو نوٹس میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ۔
قائد ایوان جام کمال خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اور وفاقی وزیر عبدالرزاق داود سے ملاقات میں صوبائی حکومت نے ایران اور افغانستان بارڈرسے منسلک تجارتی زون کی تعمیر سے متعلق بات کی ہے انھوں نے کہا کہ سرحد پر تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی پر اسپیکر نے توجہ دلاو نوٹس نمٹادی گئی ۔
اجلاس میں ثناء بلوچ کی جانب سے ضمنی سوال کے جواب میں نوابزادہ طار ق مگسی نے کہا کہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں یکساں بنیادوں پر ڈیمز تعمیر کئے جائینگے گزشتہ حکومت میں جن اضلاع کو زیادہ مقدار میں ڈیمز ملے ہیں ان کا جائز لے رہے ہیں۔
اجلاس میں اپوزیشن اراکین اختر حسین لانگو ،یونس عزیز زہری،احمد نواز بلوچ،سید فضل آغاکے ضمنی سوالات کے جوابات دیتے ہوئے صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی نے کہا کہ جن اضلاع میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ان کی تحقیقات کراتے ہوئے ذمہ داروں کو سزائیں دی جائینگے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر کے صفائی سے مطمئین نہیں ہو جلد شہر کا تفصیلی دورہ کر کے ون ٹائم صفائی مہم شروع کر کے دکھائینگے کہ صفائی کیا ہوتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی رجسٹریشن کیلئے بلوچستان بھر میں یونین کونسل کی سطح پر کمپیوٹرز فراہم کئے جارہے ہیں ۔ اب تک 12لاکھ بچوں کی رجسٹریشن ہوچکی ہے انہوں نے کہاکہ محکمہ لوکل گورنمنٹ سے متعلق جن اراکین کو شکایات ہیں عوامی نمائندے اس کی نشاندہی کراتے ہوئے اس کی انکوائری سی ایم آئی ٹی محکمہ یا انتظامیہ جس سے وہ کروانا چاہیں ہم اس سے کرائینگے۔
اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے اکبر مینگل نے مشترکہ توجہ دلاو نوٹس ایوان میں پیش کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ لیبر اپیلٹ ٹربیونل بلوچستان کی جانب سے لیبر اپیل نمبر 10/2017کے تحت محکمہ مواصلات وتعمیرات کے 351ملازمین کی سروس پر بحالی اور ان کے بقایا جات ادا کرنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے اگر الف کا جواب اثبات میں ہے تو حکومت نے ان ملازمین کی ملازمتوں پر بحالی اور ان کے بقایا جات کی ادائیگی کے حوالے سے کونسے اقدامات اٹھائے ہیں ۔
نیز اس سلسلے میں محکمہ ہذا کی جانب سے اپنائی جانے والی پالیسی کی تفصیل بھی دی جائے جس پر وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے فیصلہ آنے تک اس پر بات نہیں کرسکتے۔ ایوان میں اپوزیشن کے رکن واحد صدیقی کے ضمنی سوال کے جواب میں مشیر انرجی مبین خلجی نے یقین دہانی کرائی کہ ان کے حلقے کے گریڈاسٹیشن کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جارہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلی کے بجلی سے متعلق زیر التواء منصوبوں کو جنگی بنیادوں پر حل کرائینگے بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے ریکسیو سروس 1122کے حوالے سے اپنے سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچستان میں اکثر اوقات حادثات ہوتے رہتے ہیں جس کی تازہ مثال بیلہ کے قریب ہونے والا حادثہ ہے جس میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئی لیکن بلوچستان میں کہیں ریسکیو کے ادارے نہیں ماضی میں کوئٹہ میں ریکسیو کے حوالے سے نوجوانوں کو تربیت دی گئی مگر ان کو مستقل بنیادیوں پر تعینات کرنے کے بجائے عارضی بنیادیوں پرتعینات کیا گیا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تربیت یافتہ ریسکیو ملازمین کومستقل کیا جائے اور ان تمام ملازمین کو ان کے اپنے اپنے اضلاع میں تعینات کر کے وہاں پر ریکسیو 1122کے سینٹر قائم کئے جائے تاکہ سانحہ لسبیلہ کی طرح کا کوئی حادثہ پیش نہ آئے اور کسی بھی ناخوشگوار صورتحال میں یہ ملازمین بہتر انداز میں خدمات سرانجام دے سکے ۔
صوبا ئی داخلہ و پی ڈی ایم اے میر ضیاء لانگو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں آج ہی وزیر اعلیٰ کی صدارت میں اجلاس ہوا ہے متعلقہ حکام کو اس حوالے سے کام کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے ۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے اپنے سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت بلوچستان میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کیلئے اسکولوں کی تعداد انتہائی کم ہے انہوں نے زور دیا کہ بچیوں کیلئے بھی اسکول قائم کئے جائیں بچیوں کو تعلیم یافتہ بنا کر ہم ترقی کرسکتے ہیں جس پرصوبائی وزیر تعلیم محمد خان لہڑی نے کہا کہ صوبائی حکومت اس حوالے سے کام کررہی ہے اورآئندہ پانچ سال کے دوران صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کی تعداد لڑکوں کے اسکولوں کے برابر لے آئینگے ۔
اجلاس میں قحط سالی سے متعلق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو پانچ ماہ ہوئے ہیں سابق ادوار میں مخلو ط صوبائی حکومت میں شامل جماعتوں کے سربراہاں وزیراسظم کے دائیں اور بائیں بیٹھے تھے اس کے باوجود انہوں نے کوئٹہ شہر کی بہتری کیلئے کچھ نہیں کیا ۔
اس وقت کی حکومت نے ایک تحصیل کو 300 ڈیمز دیئے اور اخر میں کوئٹہ کو پٹ فیڈر کینال سے پانی کی فراہمی کا ناممکن تصوراتی منصوبہ کوئٹہ کے شہریوں کو دینے کااعلان کرکے عوام کو لولی پاپ سے ٹرخانہ کی کوشش کی ۔ انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب اور صدر مملکت نے جلد کوئٹہ کا دورہ کرکے پانی کے مسئلہ کے دیر پا حل کیلئے اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے ۔
مشیر ملک نعیم بازئی نے کہا کہ بلوچستان کے 18 اضلاع میں ایک لاکھ سے زائد افراد خشک سالی سے متاثر ہیں جس سے میرا حلقہ انتخاب بھی شامل ہے پی ڈی ایم اے کو چائیے کہ وہ ہمارے حلقے میں بھی امدادی سامان فراہم کرے ۔
رکن صوبائی اسمبلی عبدالرشید لالا نے کہا کہ میرا حلقہ انتخاب خشک سالی سے شدید متاثر ہوا ہے ہمیں راشن دینے کی بجائے پانی کی ٹینیکیں فراہم کی جائیں کیونکہ ہمارے حلقہ کے لوگ راشن سے نہیں بلکہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ اجلاس میں زینت شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان کے اکثر علاقہ خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں اگر متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کے ساتھ ساتھ بچوں کیلئے بکسٹ اور غذائی اشیاء بھیجی جائیں ۔
صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے میر ضیا ء لانگو نے کہا کہ بلوچستان کے کئی اضلاح قحط سالی سے متاثر ہیں کابینہ نے متاثرہ علاقوں کو قحط زدہ قرار دیا ہے اسلام آباد میں ڈزاسٹر میجمنٹ حکام سے ملاقات ہوئی ہے انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جلد بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کے لیے امدادی سامان روانہ کریں گے ۔
بعد شدید خشک سالی اور غذائیت کے بحران پر بحث مکمل ہونے پر اسپیکر نے کہا کہ موجودہ حکومت خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کیلئے اقدامات اٹھارہی ہے اور صوبے میں حکومت عوام کی فلاح وبہبود کیلئے پالیسی مرتب کرکے مزید بہتری لائیگی ، جس کے بعد اسپیکر نے اجلاس آج سپہ پیر تین بجے تک ملتوی کردیا ۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ، گیس کے گھر یلو صارفین کیلئے بلوں کی مخصوص حد مقرر کرنے سے متعلق قرار داد منظور
وقتِ اشاعت : February 1 – 2019