|

وقتِ اشاعت :   February 4 – 2019

نیورو سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل 48روز بعد بازیاب ہو کر گھر واپس پہنچ گئے ،زندہ واپسی کی خبر ان کے اہل خانہ کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ ان کی یہ بازیابی تاوان کے عوض عمل میں آئی۔ 13دسمبر 2018کو شہباز ٹاؤن کوئٹہ سے انہیں اغوا کیا گیا تھا جبکہ ان کی بازیابی کراچی سے عمل میں آئی ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے بازیابی کو صوبائی حکومت کی کامیاب حکمتِ عملی کا نتیجہ قرار دیا جبکہ ڈاکٹرز ایکشن کمیٹی نے صوبائی حکومت کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ابراہیم خلیل کی بازیابی میں حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا، بازیابی 5کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی کے بعد عمل میں آئی ہے۔ سیکورٹی کی ناقص پلان اور اغواکاروں کی عدم گرفتاری کے خلاف ڈاکٹرز ایکشن کمیٹی نے بلوچستان حکومت کو 48گھنٹے کا الٹی میٹم دے کر اس کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔

عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں وہ سرکاری اور نجی ہسپتالوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ دوسری جانب ڈی آئی جی پولیس نے سینہ تان کر کہا ہے کہ تاوان کی ادائیگی کے نتیجے میں بازیابی کی تحقیقات کی جائیں گی اور اغوا میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ کتنی مضائقہ خیز بیان ہے کہ 48روز تک پولیس کچھ نہ کر سکی اب ایک بیان داغ کر اپنا دامن کس طرح صاف کرنا چاہتی ہے۔

آخرٹارگٹ ڈاکٹر ہی کیوں؟بلوچستان میں ڈاکٹروں کے اغوا میں کون ملوث ہے؟ اور اب تک ان عوامل کا تدارک کیوں نہیں کیا جا سکا۔ اغوا کی جتنی بھی وارداتیں سامنے آئی ہیں اب تک حکومتی سطح پر ان سے متعلق کوئی ایسی رپورٹ سامنے نہیں آئی جسے حوصلہ افزا کہا جا سکے۔ البتہ قیاس آرائیوں اور مفروضوں کی بھر مار ہے۔

ڈاکٹروں کے اغوا کا یہ پہلا کیس نہیں ہے اس سے قبل 32ڈاکٹر اغوا کیے جا چکے ہیں۔ بیشتر تاوان کی رقم ادا کرنے کے بعد بازیاب ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 18ڈاکٹر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ پے درپے واقعات کے خلاف ڈاکٹر سراپا احتجاج رہے ہیں اور مطالبات کو منوانے کے لیے او پی ڈیز بند کرنے کا سلسلہ چلت�آرہا ہے مگر اغوا شدہ ڈاکٹروں کی بازیابی تاوان کی ادائیگی کے بعد ہی عمل میں آتی رہی ہے۔ 

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہڈاکٹروں کی خدمات کو دیکھتے ہوئے عوام ان کے حق میں آواز اٹھاتے اور احتجاج کرتے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا ،ڈاکٹروں ہی کو سڑکوں پہ آنا پڑا۔ آخر وجہ کیا ہے؟ سردست جو وجوہات نظر آتی ہیں وہ یہ ہیں ۔ اول تو یہ کہ عوام خود خوف کا شکار ہے، اسے عدم تحفظ کے احساس نے گھیر رکھا ہے،یا پھر اس میں اتناشعور نہیں ہے کہ وہ اس حساس معاملے پر کوئی احتجا ج کرسکے۔ دوسرا یہ کہ وہ ڈاکٹر جو کسی زمانے میں مسیحا ہوا کرتے تھے ،اب ان کا مقصد فقط پیسے بٹورنا رہ گیا ہے ، اور تاوان کی خطیر رقم کی ادائیگی اس تاثر کو درست ثابت کر رہی ہے۔

بلوچستان جہاں ڈاکٹروں کے اغوا کا سلسلہ جاری ہے وہیں کئی ڈاکٹروں نے دورانِ ڈیوٹی اپنی جانیں گنوا چکی ہیں۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کے آبائی ضلع آواران میں ڈاکٹر ڈیوٹی سرانجام دینے کو تیار نہیں، کیوں تیار نہیں اس کا جواب ہمارے سامنے موجود ہے کہ ڈاکٹروں کی جانیں محفوظ نہیں ۔ سن 2015میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دورِ حکومت میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے پولیٹیکل سیکرٹری خیر جان بلوچ کے بھائی ڈاکٹر شفیع بزنجو دن دیہاڑے شہید کر دئیے گئے۔ 

قاتلوں کا تاحال سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ ڈاکٹر جو پہلے سے خوف زدہ تھے ڈاکٹر شفیع کے قتل نے انہیں راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ زیادہ تر ڈاکٹر اپنا تبادلہ دیگر اضلاع میں کرانے پر مجبور ہوگئے، رہ جانے والی ڈاکٹروں نے ایڈمنسٹریشن کی نشستیں سنبھال لیں۔ اس پوری صورتحال نے متاثر اہلِ علاقہ کو کیا۔
صوبے کی بات کی جائے تو پورا صوبہ سیکورٹی زون بن چکا ہے۔ سیکورٹی کے نام پر جگہ جگہ چیک پوسٹ بنے ہوئے ہیں عام آدمی چیکنگ کے مرحلے سے گزرتے ہوئے خوف زدہ ہو جاتا ہے کہیں دہشتگردی کی رسی اس کے گلے میں کَس نہ دی جائے جبکہ اغوا کار اتنے مضبوط ہیں کہ وہ راہِ فرار کے لیے محفوظ راستوں کا انتخاب کرتے ہیں اور بغیر کسی دشواری کے سندھ کی سرحد کو پار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔

ڈاکٹر ابراہیم کے اغواء اور ان کی رہائی کے بعد سوالات نے جنم لینا شروع کیا ہے، کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں اغوا ء کی وارداتوں پہ قابو پایا کیوں نہیں جا سکا۔ اغوکار بمقابلہ سرکار رسہ کشی کی صورتحال جاری ہے مگر اب تک کی اعداد و شمار کے مطابق حکومت اور سیکورٹی اداروں کے مقابلے میں اغواکار کافی طاقتور نظر آئے ہیں اور انہوں نے اپنی اسی طاقت کا مظاہرہ ہر موقع محل پر کرکے حکومت اور سیکورٹی اداروں کو کمزور دکھانے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔

مغوی ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو کوئٹہ سے کراچی تک 700کلومیٹر کا طویل سفر کیسے طے کرنا پڑا اور اغواکار اتنی سیکورٹی چیکنگ کے باوجود انہیں کراچی تک لے جانے میں کیسے کامیاب ہوئے،یہ عوامل سیکورٹی کے نام پر کی جانے والی اقدامات کی نفی کرتی ہیں اور اسے صوبائی حکومت کی ناقص حکمت عملی اور سیکورٹی لیپس کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ 

اس طرح کے واقعات کا منفی اثر آنے والے وقتوں میں بلوچستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور امن کے نعروں پہ ضرور پڑے گا۔ تشویشناک صورتحال کو ہینڈل کرنے میں حکومت کس قدر سنجیدہ ہے اس کا اندازہ 2019میں سیکورٹی کے حوالے سے اعلانات اور ان پر عملدرآمد سے لگایا جا سکے گا۔