|

وقتِ اشاعت :   February 10 – 2019

بہت لکھا ہم نے پی ٹی آئی کی حمایت میں، اس کے ہر عمل اور ہر اقدام کو سَراہا کہ ملک میں قائم کرپٹ اداروں کی کارکردگی غیر موئثر ہو گی اور رشوت کا بازار سرد ہوگا۔ ادارے اس صورت آزاد اور خود مختار ہوں گے کہ اِن میں موجود کالی بھیڑیں اب یہاں اپنی جگہ نہ بنا پائیں گی۔ 

ہم نے پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان کے ہر اس قول کو فیور کیا جو اس نے ہر محاذ پر بولا کہ اب احتساب سے کوئی نہیں بچ پائے گا۔ لیکن جب اس لاجک کی گہرائی پر گئے تو پتا چلا کہ عمران خان صاحب اور پی ٹی آئی کے سرکردہ وزیر اور مشیر صاحبان ” نیب” کو اپنی مرضی کے مطابق ہانکنے میں مصروف عمل نظر آئے۔ 

او ر یہ عقدہ بھی وا ہوا کہ نیب مکمل طور پر پاکستان تحریک انصاف کی عمل داری میں آ چکا ہے اور اب اس ادارے کی آزادی سلب ہو چکی ہے۔ یوں کہئے کہ یہ ادارہ اس وقت تحریک انصاف کا ذیلی سیاسی ادارہ بن چکا ہے ناکہ ایک آزاد سرکاری ادارہ!

ملک کو ضرورت تھی کہ ترقیاتی کام ہوتے۔ ادارے فعال کئے جاتے۔ انتظامیہ متحرک ہوتی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایمان دار ہوتے۔ کرپٹ افسران و اہلکاران کو نکال کچرے میں پھینک دیا جاتا جو قومی اور ملکی وقار کا سودا کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔

کرپٹ افسران کے لئے عبرت ناک سزا کا نظام ہوتا مگر یہاں اداروں میں موجود بد عنوان ٹولے کو مزید اختیارات دے کر عوام کے حقوق غصب کرنے کے اختیارات دے دئے گئے ہیں۔ 

موجودہ حکومت میں تھانوں میں تفتیشی افسرا ن کرایوں کے قاتلوں کا روپ دھار چکے ہیں۔ شُرفاء کی پگڑیاں اُچھالی جا رہی ہیں۔ بے گناہوں پر روایتی پولیس کلچر پر عمل کرتے ہوئے تھانے داروں کا بر سر عام تشدد معمول بن چکا ہے۔ سانحہ ساہیوال اس سسٹم کی ایک بد ترین مثال ہے جس میں بے گناہوں کا خون کیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا ایک عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون کرائسس کا شکار ہے۔ صحافتی اداروں کو معاشی بحران کا شکار کر کے شہریوں کے بنیادی حقوق ” آزادی اظہار ” پر قد غن لگائی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر صحافت کے تحفظ کے لئے تحریکیں سر گرم ہیں۔ ترکی میں بین الاقوامی سطح کے کالم نگاراور سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث کچھ عناصر کے خلاف جس طرح سعودی عر ب میں کاروائی عمل میں آئی۔ قدرے اطمینان بخش ہے۔ 

جمال خاشقجی کی شہادت پر امریکی مذمت اور احتجاج لائق تحسین ہے۔ اگر اس طرح کا عالمی سطح کا احتجاج پاکستان میں در پیش اُن معاملات پر ہوتا جن میں صحافت کے شعبہ کو خطرات لاحق ہیں تو یقیناًاس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے۔ بیورو کریسی تو پہلے ہی عوام پر مسلط ہے۔ جو شہریوں کا خون نچوڑ رہی ہے۔ 

تفتیشی ادارے ناقص تفتیش کے ذریعے بے گناہوں کو مشق ستم بنا رہے ہیں۔ ایسے میں شُعبہ صحافت ہی تھاکہ جو عوام اور اعلیٰ اداروں اور حکومتی ایوانوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کر رہا تھا۔

اس پر بھی شب خون مارنے کا عمل سر انجام دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ڈیرہ غازی خان کے سینئیر ترین صحافی اور سماجی کارکن اے ڈی سمینوی کو ڈیرہ غازی خان کی ڈسٹرکٹ پولیس نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ 

اے ڈی سمینوی ڈیرہ غازی خان کے معمر ترین صحافی ہیں اور میں اے ڈی صاحب کو اپنا استاد قرار دیتا ہوں۔ کیونکہ صحافت سے متعلق کچھ نکات میں نے اے ڈی سمینوی سے سیکھے۔ ڈی ایس پی رمیض بخاری، ایس ایچ او فاروق آفاق، سب انسپکٹر یار محمد کلیری، اے ایس آئی شاہد ، اے ایس آئی حضور بخش و دیگر پولیس کے متعلقہ عملہ نے سینئیر صحافی اے ڈی سمینوی کو متعدد بار روڈ پر دے مارا اور اوپر سے لاتوں، مُکوں اور لاٹھیوں سے شدید تشدد کیا۔

جس کے نتیجے میں اے ڈی سمینوی کے ناک سے بلیڈنگ شروع ہو گئی۔ خدشہ ہے کہ مذکورہ صحافی کی ناک کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا ہے۔ سینئیر صحافی کو تشدد کرتے ہوئے مذکورہ پولیس اہلکاران تھانہ دراہمہ لے گئے جہاں مبینہ طور پر اے ڈی سمینوی پر مزید تشدد ہوا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اس تمام جاں سوز اور تکلیف دہ عمل کے دوران صحافی اور سماجی شخصیت اے ڈی سمینوی کے بیٹے طارق علی جو کہ ایک قومی اخبار کے ساتھ وابستہ ہیں پر بھی تشدد کا سلسلہ چلتا رہا۔ 

رات کی تاریکی میں ایک حقیقت پسند اور معمر صحافی پر غیر انسانی تشدد ، کیا اخلاقی حدود کے اندر تھا یا ریاستی قانون اس کی اجازت دیتا ہے؟ ہاں یہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے روایتی اور فرسودہ پولیس کلچر میں اس کی اجازت ضرور ہے۔ رات بھر اے ڈی سمینوی پر پولیس کا تشد د جاری رہا۔ 

ایک نحیف اور ناتواں جسم نے جو پہلے ہی بُڑھاپے کے باعث محض ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے، قارئین آپ اندازہ لگائیں پولیس کے ہٹے کٹے اور مذکورہ بالا شیر جوانوں کا جبر برداشت کئے رکھا ہوگا؟

اس واقعہ کو دیکھتے ہوئے ذہن میں خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ شاید ہمارے وطن عزیز پاکستان میں ایک ایسی تحریک نے اقتدار حاصل کر لیا ہے یا ایسی تحریک کا منشور پنجے گاڑ چکا ہے جس کا ہر عمل ریاست ، قوم اور شہریوں کی ترقی اور فلاح کے لئے نہیں، محض سیاسی انتقام کے لئے ہے۔ ایک ایسی جماعت ” تحریک انصاف ” جو میڈیا کی آزادی کے باعث حکومت میں آئی ،

اگر میڈیا پر جبر کرتی رہی تو نتائج منفی صورت میں مرتب ہونگے ۔اس موقع پر قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کا فرمان نقل کیا جا رہا ہے ” کہ نیازی صاحب پر ترس آتا ہے وہ حسد اور بغض کی آگ میں جل رہے ہیں” جناب کا غصہ، حسد اور بغض میڈیا کی شخصیات پر انتقام اور تشدد کی صورت میں شاید ٹھنڈا ہوگا۔۔۔۔!

بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی موجودہ حکومت کے ایک طرف ترجمان ادارے ” نیب” نے سفاکانہ حرکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے بلکہ پوری دنیا میں مسلمہ مقدس ہستیوں ” اساتذہ” پر جس طرح ظلم کرنا شروع کر دیا ہے ناقابل برداشت ہے۔ 

آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں جاکر دیکھیں “استاد” محترم و مکرم گردانا جاتا ہے۔ استاد کے احترام پرکوئی دورائے نہیں ہے ۔ سرگودھا یونیورسٹی کے لاہورکیمپس کے سربراہ محترم پروفیسر جاوید کو “نیب” اور عملہ کیمپ جیل کے سفاکانہ رویہ کے باعث دل کا عارضہ لاحق ہوااور یوں یہ عارضہ شدت پکڑتا گیا۔ 

جب کیمپ جیل میں ان کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہوئی تو جیل عملہ کو سُوجھی کہ کیوں نہ اس بہت بڑے کرپٹ اور سماج دشمن ایک محترم پروفیسر کو علاج معالجہ کے لئے ہسپتال ریفر کیا جائے؟ شاید ” نیب ” اور پی ٹی آئی کی سرکار کے اشارے پر انتہائی غیر ضروری تاخیر کرتے ہوئے ایک عظیم استاد پروفیسر محمد جاوید کو ہسپتال لایا گیا۔ جہاں پروفیسر صاحب نے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تڑپ تڑپ کر جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی اور “نیب” اور پی ٹی آئی کی حکومت کے خود ساختہ معیار پر سوالیہ نشان چھوڑ گئے۔ 

کیا ایک بیمار اور کمزور استاد ہتھکڑیوں کے بغیر پولیس کسٹڈی سے بھاگ سکتے تھے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ایک تعلیم یافتہ اعلیٰ اقدار و اخلاق کے مالک اور پختہ شعور کے حامل استاد جنہوں نے ہمیشہ قانون کا احترام سکھایا، علم کی فیاضی کی نہ کہ چوروں اور جرائم پیشہ سیاست دانوں کی طرح بھاگ جانے کے گُر سِکھائے ، ہتھکڑیوں کے بغیر فرار ہو جاتے؟ علم انسان کو بہادر بناتا ہے نا کہ بزدل۔ 

وزیر اعظم عمران خان کو آخر میں چندصائب مشورے دوں گا کہ آپ ملک میں ترقیاتی کاموں کو فروغ دیں۔ محکموں میں اصلاحات لانے کا ایجنڈا مکمل کریں۔ اساتذہ کے لئے فلاحی اور مناسب اصول و ضوابط وضع کریں تاکہ علم کے متلاشی یہاں پیاس بجھا سکیں۔ انصاف سستا کریں۔ایک عام ، تنگ دست اور غریب آدمی تک ایک بہترین انتظامی نظام کے ذریعے اپنی رَسائی بہتر کریں تا کہ غریب کے مسائل حل ہوں۔ 

ذرائع ابلاغ کے لئے بہتر اور مفید اقدامات کا فیصلہ کریں۔ میڈیا پرسنز اور ماہرین تعلیم کا براہِ راست تحفظ کریں۔ پولیس، نیب ، ایف آئی اے، سی ٹی ڈی اور دیگر تفتیشی اداروں کو لگام دیں۔