|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2019

کوئٹہ:  گوادر میں سعودی حکومت کی متوقع آئل ریفائنری کے قیام میں بلوچستان حکومت اور اراکین پارلیمان کو اعتماد میں لینے سے متعلق بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں مشترکہ قرار داد منظو رر اسمبلی نے گندے پانی سے کاشت کی جانیوالی فصلوں کو تلف کرنے اور آئندہ اس کی روک تھام کیلئے پیش کی جانیوالی مشترکہ قرار داد بھی منظور کرلی گئی ۔

ہفتہ کے روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں انجینئرزمرک خان اچکزئی اور ثناء بلوچ کی جانب سے مشترکہ قراردادپیش کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور پسنی میں حکومت سعودی عرب کی جانب سے متوقع آئل ریفائنری کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے ۔

لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ سعودی حکومت سے متوقع آئل ریفائنری کا معاہدہ کرتے وقت اس میں بلوچستان کے مجموعی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کو فنی معاونت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ فنی تربیت ، ماحولیات اور دیگر درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کو یقینی بنایا جائے نیزاس سلسلے حکومت بلوچستان اور اراکین پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے ۔

قرارداد کی موزنیت پر بحث کرتے ہوئے صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ قرار داد لانے کا مقصد یہ ہے کہ گوادر میں سعودی حکومت ، چائنہ یا جاپان جو بھی سرمایہ کاری کریں اس میں عوام کے حقوق کی پاسداری یقینی بنائے جاسکے تاکہ وہاں غربت کے خاتمے سمیت ، تعلیمی اداروں کا قیام یقینی بنا کر صوبے میں آنے والی سرمایہ کاری سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے یہاں کے لوگوں کو تیار کیا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اور حکومتی بینچز اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں صوبے کے حقوق کی بات ہوگی اس پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا نہ ہی کسی کو صوبے کے وسائل کا سودا کرنے دیں گے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک وفاقی یونٹ ہے اور اس میں شامل چاروں اکائیوں کو آئین والی معدنی دولت ساحل ووسائل پر اختیار کی ضمانت دیتا ہے اسی لئے نیپ کے دور سے آج تک ہم نے صوبائی خودمختاری کی بات کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری اور ترقی کی مخالفت ہم نہیں کرتے اس ترقی کے ثمرات سے ہم تب فائدہ حاصل کریں گے جب وہاں کے مقامی لوگوں کواس ترقی میں شامل کیا جائے گاانہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں اور صوبائی کابینہ کو فیصلوں میں نظر انداز کرنے سے صوبے کے احساس محرومی اور مایوسی میں اضافہ ہوگاانہوں نے کہا کہ گوادر سے ہونے والے معاہدوں کی منظوری صوبائی کابینہ نے دینی ہے ۔

کابینہ کی منظوری کے بغیر گوادر سے متعلق ہونے والے معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی ۔ زمرک خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی سے ایسے قوانین منظور کرائے جائیں جن کی مدد سے صوبے کے مسائل کا خاتمہ کرکے صوبے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے متعلق ہونے والے معاہدوں پر ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے وفاقی حکومت بلوچستان سے متعلق ہونے والے معاہدوں میں مقامی نمائندوں ، وزیراعلیٰ اور کابینہ اراکین کی شرکت کو یقینی بنائے ۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ گوادر میں قائم ہونے والی آئل ریفائنری کے اثرات ہمارے معاشی ،معاشرتی ، ثقافت اور ماحولیات پر اثرا نداز ہوگی بلوچستان میں انسانی وسائل کی کمی کے باعث یقینایہ لوگ اپنے ساتھ وہاں سے لوگ بھی لائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کی ایک جم غفیر ایسی ہے جس کے پاس ڈگریاں تو ضرور ہیں مگر گوادر میں ہونے والی اس بہت بڑی سرمایہ کاری میں شامل ہونے کے لئے انہیں وہ تربیت حاصل نہیں ۔ موجودہ دور میں انفراسٹرکچر ، انرجی سمیت عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم حاصل کرکے ہی ہم اپنے انسانی وسائل میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر بلوچستان کے تمام اضلاع میں ٹیکنیکل کالجز کا قیام عمل میں لائے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ڈیموگرافک تبدیلی سمیت تمام امور کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ سی پیک سے ترقی کے دعوے تو کئے جارہے ہیں مگر افسوس کہ ترقی کے ثمرات سے بلوچستان کے عوام کو گزشتہ ستر سالوں سے محروم رکھا گیا ہے طلباء کے سکالرشپس کو کم کرکے انہیں حصول علم سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

سی پیک کے تحت بجلی ، انفراسٹرکچر ، پاور پراجیکٹ اوردو رویہ سڑکیں ، صنعتی زونز کے صرف اعلانات سننے میںآ ئے انہوں نے کہا کہ ترقی کو تب ترقی کہیں گے جب گوادر کے لوگوں کی حالت میں تبدیلی آئے گی آج حالت یہ ہے کہ گوادر میں لوگوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں صوبے میں ترقی کی شرح نمومیں اضافے کے لئے صوبائی حکومت کو سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہئیں ۔ 

صوبائی وزیر اطلاعات ظہور بلیدی نے کہا کہ صوبائی حکومت نے پہلے دن سے ہی بلوچستان کے ساحل و وسائل کے تحفظ ، لوگوں کے حقوق ، تعمیر و ترقی سے متعلق اقدامات اٹھائے صوبائی حکومت نے لینڈ لیز پالیسی بنائی ہے جس کے تحت بیرونی ممالک کی کمپنیوں کو شراکت داری یا لیز کی بنیاد پر زمین فراہم کی جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں پاور پراجیکٹ کے لئے دی گئی زمین سے ہر سال صوبے کو خطیر رقم حاصل ہوگی انہوں نے کہا کہ گوادر ماسٹر پلان سے متعلق ہم نے واضح کردیا ہے کہ گوادر کی پرانی آبادی کووہیں پرترقی کے عمل میں شامل کیا جائے گا ۔

بلوچستان بینک کے قیام سے صوبے کے دو ہزار لوگوں کو روزگار میسر تین سے چار ارب روپے خزانے میں جمع ہوں گے جنگلات اورماحولیات کے تحفظ کے لئے انگریز دور میں بنائے گئے ایکٹ میں ترمیم کی جارہی ہے ماحولیاتی تحفظ کے لئے گوادر میں درخت لگائے جارہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان اپنے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کررہی ہے حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر پلاننگ کمیشن کے حکام نے یہاں کا دورہ کرکے صوبائی کابینہ کی مشاورت سے منصوبوں کو وفاقی پی ایس ڈی میں شامل کیا ہے گوادر میں فنی تربیت کے لئے اعلیٰ ادارے قائم کئے جارہے ہیں گوادر یونیورسٹی ایکٹ کی منظوری دے دی گئی ہے ۔ 

بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔اجلاس میں ملک نعیم خان بازئی اور نصراللہ زیرئے کی مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں گندے پانی سے سبزیوں کی کاشت کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے جس سے وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ اور انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہے ۔

کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں گندے اور زہریلے پانی سے سبزیوں کو سیراب کیا جاتا ہے طبعی ماہرین کے مطابق گندے پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیوں کے استعمال سے ملیریا ، ٹائیفائیڈ اور کالے یرقان جیسے خطرناک بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ گندے پانی سے کاشت کی جانے والی فصل کو فوری طو رپر تلف کرے اور آئندہ اس کی روک تھام کے لئے موثر کارروائی عمل میں لائے ۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے اکثر علاقوں میں نکاسی آب کے پانی سے سبزیاں اگائی جارہی ہیں جن سے انسانی صحت پر مضر صحت اثرات مرتب ہورہے ہیں لہٰذا حکومت اس حوالے سے اقدامات اٹھائے اور ضلعی انتطامیہ کو ہدایت کرے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر گندے پانی سے کاشت کی گئی فصلوں کو تلف کرے ۔

صوبائی وزیر پی ایچ ای واسا نور محمد دمڑ نے کہا کہ متبادل بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے گندے پانی سے سبزیاں اگانے کا سلسلہ کافی عرصے سے چلا آرہا ہے سپنی روڈ سمیت دیگر تین مقامات پر قائم واٹرٹریٹمنٹ پلانٹ کو بحال کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان پلانٹس کے فعال ہونے سے زمینداروں کو صاف پانی فراہم کیا جائے گا اور سرکاری دفاتر میں گراسی کو بھی اسی پانی سے سیراب کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے ابتدائی مرحلے میں پندرہ ملین روپے جاری کردیئے ہیں ہماری کوشش ہے کہ اس منصوبے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلایا جائے ۔ جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ خیزئی میں واقع پلانٹ کاکام بندپڑا ہے اس کی فعالیت پر بھی توجہ مرکوز کی جائے ۔

بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ گندے پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیوں سے کینسر سمیت دیگر موذی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے حکومت اس اہم نوعیت کے عوامی مسئلے پر فوری توجہ دیتے ہوئے کوئٹہ شہر میں ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعداد کو بڑھاتے ہوئے دس کردے پلانٹس کی تعداد میں اضافے سے نہ صرف ٹیکس کی مد میں حکومت کی آمدن میں اضافہ ہوگا بلکہ لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے ۔

جے یوآئی کے حاجی نواز کاکڑ نے کہا کہ نکاسی آب کے پانی سے بہتر زمینداری ہوتی ہے کیونکہ پودوں کی جڑوں میں جب یہ پانی جاتا ہے وہاں سے یہ صاف ہو کر پودوں کو زندگی بخشتا ہے لہٰذا اس میں ایسی کوئی بات نہیں کہ مضر صحت پانی سے اگائی جانے والی فصلیں مضر صحت ہوں قدرتی نظام کو چھیڑنے سے گریز کیا جائے ۔

بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے بھی قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ زمینداروں کو متبادل ذرائع فراہم کئے جانے تک ان کی فصلوں کو تلف نہ کیا جائے ۔ ایچ ڈی پی کے قادر علی نائل نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انسانی المیہ ہے کہ نکاسی آب کے پانی سے سبزیاں کاشت کی جارہی ہیں حالانکہ مہذب دنیا میں بھی صاف پانی سے کاشت ہونے والی سبزیوں کو بھی لیبارٹریز بھیجا جاتا ہے ۔ 

صوبائی وزیر اطلاعات ظہور بلیدی نے کہا کہ کوئٹہ پیکج کے تحت ایک ارب روپے کی منظوری دے دی گئی ہے حکومت اس جانب توجہ دے رہی ہے اور وزیراعلیٰ نے خود بھی سپنی روڈ پر واقع پلانٹ کا عدم فعالیت کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ محکمے کو پلانٹ کی فعالیت کی ہدایت کی ہے جس کے بعدقرار داد اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی ۔