|

وقتِ اشاعت :   February 21 – 2019

کوئٹہ: محکمہ تعلیم بلوچستان کی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے 9 ہزار 247 اسکولوں میں بچوں کے لیے پینے کا صاف پانی میسر نہیں، جبکہ 9 ہزار 838 اسکولوں میں ٹوائلٹ جیسی بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ 

تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود صوبے میں 10 لاکھ بچے تاحال اسکول جانے سے محروم ہیں دستاویزات میں کہا گیا کہ صوبے میں مجموعی طور پر 13 ہزار سرکاری اسکولز ہیں جہاں پر 8 لاکھ 99 ہزار 383 طلبہ کا اندراج ہیں۔

علاوہ ازیں بتایا گیا کہ صوبے میں 7 ہزار 900 سے زائد اسکول چار دیواری سے محروم ہیں اور 5 ہزار 296 سرکاری درسگاہوں میں ایک کمرہ، ایک استاد ہیں اور بلوچستان میں 1800 اسکول غیر فعال ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے صوبائی محکمہ برائے پلاننگ کے افسر نے بتایا کہ اسکولوں میں درکار بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے مالی سال 17-2016 اور 18-2017 میں منظور ہونے والا بجٹ 2 ارب روپے استعمال نہ ہونے کے باعث پیسے وفاق کو واپس ہو گئے تھے۔

مذکورہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے نوٹس لیتے ہوئے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو اپنے علاقوں میں موجود سرکاری اسکولوں کا دورہ کرنے کی ہدایت کردی سرکاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعلی نے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی کہ اپنے دورے سے متعلق مکمل تفصیلات پر مشتمل رپورٹ جمع کرائیں واضح رہے کہ بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے اور بچوں کو لازمی طور پر اسکول میں اندراج کرانے کے لیے آئین کے آرٹیکل25 اے کا نفاذ ہے ۔

مذکورہ آرٹیکل کے مطابق ریاست قانون کی رو سے 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کی پابند ہوگی مذکورہ آرٹیکل کو آئین میں 18ویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا تھا تاہم تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود صوبے میں 10 لاکھ بچے تاحال اسکول جانے سے محروم ہیں۔