|

وقتِ اشاعت :   April 18 – 2014

اسلام آباد: اگر پاکستان کو آئین کے آرٹیکل چالیس سے وابستہ رہنا ہے تو اسے افغان عسکریت پسندوں سے اپنے تعلقات منقطع کرنا ہوں گے۔ جمعے کو سینیٹ میں ان خیالات کا اظہار اپوزیشن رہنماؤں نے کیا ہے۔ اپوزیشن رہنما سینیٹ میں ملک کی خارجہ پالیسی پر اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے اور یہ تحریک پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے سینیئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے پیش کی تھی۔ اپوزیشن رہنماؤں نے خارجہ پالیسی میں ‘ دوہرے رویے’ کو ختم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ گزشتہ عشروں سے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر سے جو سویلین کنٹرول ختم ہوا ہے اسے بحال کیا جائے۔ سینیٹرز نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں پڑوسی ممالک میں جو سیاسی تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی کی نئے سرے سے تشکیل کی جائے۔ ان میں چین ، انڈیا، افغانستان اور ایران وغیرہ شامل ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کی بنیاد آئین کے آرٹیکل چالیس میں درج ہے۔ انہوں نے سینیٹ میں آرٹیکل چالیس پڑھ کر سنایا، اور کہا کہ اگر ہمیں اس ( آئین) سے وابستہ رہنا ہے تو نہ صرف تمام افغان عسکریت پسندوں سے رابطہ ختم کرنا ہوگا بلکہ پاکستان میں ان کی پناہ اور روپوش ہونے کے عمل کو بھی روکنا ہوگا۔ ‘ کسی تنقید اور نکتہ چینی سے محفوظ فوجی اسٹیبلشمنٹی کی وضع کردہ خارجہ پالیسی کے مقابلے میں ایک مستحکم جمہوری حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی خارجہ پالیسی کو تمام سیاسی جماعتیں خوش آمدید کہیں گی،’ انہوں نے کہا۔ ‘ خارجہ پالیسی میں دوہرا معیار نماٰیاں ہے۔ وزیرِ خارجہ کا عہدہ وزیرِ اعظم کے پاس ہے۔ انہوں نے ایک مشیر اور معاون خصوصی رکھا ہوا ہے۔ جبکہ دوسری جانب وفاقی وزیر اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب دفترِ خارجہ سے پوچھے بغیر خارجہ معاملات پر آزادانہ بیان دے رہے ہیں،’ انہوں نے کہا۔ ‘ یہاں تک کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ہندوستانی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ سے ایک مشترکہ اعلامئے پر دستخط کیا ہے،’ بابر نے کہا۔ ‘ لوگوں کے درمیان روابطہ بڑھانا کوئی مذائقہ نہیں لیکن یہ وزیرِ اعلیٰ کی بجائے دفترِ خارجہ کی طرف سے ہونے چاہئیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ ملک کا ہر فرد اپنا ذاتی ایجنڈا آگے بڑھائے گا۔’ ‘ اسی طرح حکومت بارہا کہہ چکی ہے کہ وہ شامی جنگ میں فریق نہیں بنے گی لیکن اس معاملے میں شکوک سر اٹھارہے ہیں غیر ریاستی عناصرہتھیاروں سمیت شام اور مشرقِ وسطیٰ کا رخ کررہے ہیں،’ انہو ں نے مزید کہا۔ بابر نے ماضی میں بوسنیا کو ہتھار بھیجنے کے معاملے کا بھی ذکر کیا جو اقوامِ متحدہ کی پابندی کی خلاف ورزی تھا۔ انہوں نے شام اور بحرین کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اسطرح پاکستان مشرقِ وسطیٰ کی صورت میں ایک اور افغانستان میں پھنس جائے گا۔ سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے حکومت کی جانب سے خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی پر ان کیمرہ بریفنگ کا مطالبہ کیا۔