وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ،دونوں کی تعلقات عامہ (پی آر) کی ٹیموں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دو روزہ دورہ ء پاکستان کی کامیابی کے کریڈٹ کا دعویٰ کیا ہے،جس سے ملک میں سول ملٹری توازن کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگر میاں نواز شریف وزیر اعظم ہوتے تو شایدخارجہ پالیسی کی کامیابی پر اعزاز کی ایسی حصے داری ممکن نہ ہوتی۔
محمد بن سلمان کے ساتھ ایک سو سے زیادہ سعودی تاجر تھے۔پاکستان اور سعودی عرب نے دیگر کے علاوہ معدنیات، کیمیکلز، زراعت، اور فوڈ پراسینگ سمیت کئی شعبوں میں 21 بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کی مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے۔ان میں گوادر میں ایک آئل ریفائنری پیٹرو کیمیکلز انڈسٹریز بھی شامل ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی خام تیل گوادر پہنچایا جائے گا ،یہ اس بندرگاہ کے لیے ،جس کا انتظام چینیوں کے پاس ہے بزنس کا ایک اچھا موقع ہو گا۔سعودی سرمایہ سے لگائی جانے والی آئل ریفائنری کو چینی صوبے ژنجیانگ کی توانائی کی مانگ پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔
دو نئے بجلی گھروں — حویلی بہادر شاہ اور بلو کی پاور پلانٹ کو فروخت کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں ،پنجاب میں یہ دونوں بجلی گھر پاکستان نے تعمیر کیے تھے۔مختصر مدت کے فائدے کے لیے ان بجلی گھروں کو بیچنا غیر دانش مندانہ ہو گا،کیونکہ پاکستان کو پہلے ہی غیر ملکی کمپنیوں کا ڈیویڈنڈ ادا کرنا ہے جو زر مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ بنتاہے۔فخر سے سرشار حکومت کو پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے وعدے پر خوشی ہے۔جب فخر کا نشہ اترے گا تو ہو سکتا ہے ہمیں معلوم ہو کہ اس سعودی فراخ دلی کے بدلے میں کیا دیا گیا۔جب ان پیکجز کی شرائط اور ضابطوں کو حتمی شکل دی جائے گی تو امید ہے کہ سعودیوں کے ساتھ یہ ڈیل ویسی دھندلی نہیں رہے گی جیسی کہ چین کے ساتھ کی گئی تھی۔
محمد بن سلمان نے بھارت کے ساتھ 44 بلین ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ان کا اقتصادی ماڈل یہ ہے کہ مسلسل تیل کی آمدنی پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کی جائے ،سیاحت کی صنعت میں سعودی سرمایہ کاری کو پھیلایا جائے ، سعودی عرب اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ وہ دنیا کے 2 ارب مسلمانوں کے لیے مذہبی سیاحتی کشش رکھتا ہے۔
سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ سابق حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نظر انداز کیا اور تعلقات کچھ دباؤ میں رہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے آرمی چیف اور عمران خان نے متعدد دورے کیے۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اس وقت دباؤ میں آئے جب پاکستان نے سعودی- یمن تنازع میں کسی قسم کی فوجی مدد دینے سے انکار کیا۔پاکستان کو یہ فکر بھی لاحق تھی کہ اگر اس نے یمن کے ساتھ سعودی عرب کے تنازع میں کوئی فعال فوجی مدد کی تو ایران کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہوں گے جو اس کا مغربی پڑوسی ہے۔تاہم اس نے جنرل راحیل شریف کو اسلامی ملٹری کاؤنٹر ٹیرر ازم کولیشن فورسز کی سربراہی کرنے کی اجازت دے دی۔
حال ہی میں ایرانی حکومت نے الزام لگایا کہ ایک دہشت گرد گروپ نے جس کی بنیاد پاکستان میں ہے، 13 فروری کو ایران میں پاسداران انقلاب پر حملہ کیا جس میں 27 گارڈز مارے گئے اور 13 زخمی ہو ئے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے اس حملے کی مذمت کی اور تحقیقات کے لیے تعاون کی پیشکش کی۔ایران کے خدشات پر بات چیت کے لیے ایک پاکستانی وفد تہران بھی جائے گا۔شک و شبہ کا اظہار کرنے والے بہت سے لوگ ایرانی فوج پر اس حملے کی توجیہہ پاکستان کے دورہ سے قبل محمد بن سلمان کے لیے تحفہ کے طور پر کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب ، امریکا اور اسرائیل کی طرف سے ایران کو تنہا کیا جا رہا ہے۔اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے بارے میں وارسا میں امریکا اور پولینڈ کی طرف سے مشترکہ طور پر منعقد کی جانے والی کانفرنس میں تمام ایران مخالف قوتیں جمع ہوئیں اور انھوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر خوب لے دے کی۔
اس کے ساتھ ہی پلوامہ میں ایک حالیہ بم حملے کاجس میں44 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے، الزام بھی پاکستان پر لگایا جا رہا ہے۔ بھارت نے فوری طور پر جیش محمد پر الزام عائد کر دیا،جس نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔جیش محمد پر پابندی لگی ہوئی ہے۔بھارت نے2016 میں پٹھان کوٹ میں ایک حملہ کے واقعہ میں بھی اس تنظیم کے لیڈر مولانا مسعود اظہر کا نام لیا تھا۔اگر چہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایران اور بھارت ،دونوں ملکوں میں حملے کی مذمت کی ہے مگر دنیا پاکستان پر اعتماد نہیں کرتی۔
جب بھی پاک بھارت تعلقات میں تھوڑی سی پیش رفت ہوتی ہے، افغان،طالبان مذاکرات آگے بڑھتے ہیں یا ایرانی فوج پر کوئی حملہ ہوتا ہے ،بد قسمتی سے غیر ریاستی اداکاروں کی غلط حرکات کے حوالے سے تمام انگلیاں پاکستان کی طرف اٹھائی جاتی ہیں۔
محمد بن سلمان کے دورہ ء پاکستان کے دوران سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کی طرف سے اُس وقت انتہائی غیر سفارتی بیان سامنے آیا جب ان سے پوچھا گیا کہ ایران اسلامک کاؤنٹر ٹیررازم ملٹری لائنس کا حصہ کیوں نہیں ہے؟انھوں نے الزام لگایا کہ ایران اس علاقے میں” دہشت گردی کا چیف اسپانسر ” ہے۔ان کا کہنا تھا کہ” 1979 کے انقلاب کے بعد سے ایران دہشت گردی کا چیف اسپانسر رہا ہے ایران نے لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں جیسے دہشت گرد گروپ قائم کر رکھے ہیں۔جنوبی امریکا، یورپ اور سعودی عرب میں دہشت گردی کے حملوں میں ایران کو ملوث پایا گیا ہے اور ایران دہشت گرد گروپوں کو دھماکہ خیز مواد اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں ملوث ہے” ۔
اس کے علاوہ، یہ پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان کی تردید ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب بیشتر علاقائی مسائل پر یکساں سوچ رکھتے ہیں۔جب سعودی وزیر خارجہ نے یہ الزام لگایا کہ ایران اس علاقے میں دہشت گردی کا چیف اسپانسر ہے تواس اہم ترین معاملہ پر اتفاق رائے نظر نہیں آیا۔ کسی تیسرے ملک کے پلیٹ فارم سے اس قسم کا بیان دینا انتہائی غیر سفارتی طرز عمل ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ میں اپنے سعودی ہم منصب کے اس بیان پر اعتراض کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں تھا۔
سعودی عرب جو پیسہ دیتا ہے اس کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ زیر ِ بار رہا ہے سعودی عرب قتل کر کے بھی بچ جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس پیٹرو ڈالر ہے ۔حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ وہ جمال خشوقجی کے قتل پر سعودی عرب کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے کیونکہ سعودی عرب تیل کی زیادہ پیداوار سے قیمتوں کو کم رکھے ہوئے ہے اور سعودیوں نے امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو100 بلین ڈالر کے آرڈرز دیئے ہوئے ہیں۔
تاہم محمد بن سلمان کے حالیہ دورے سے سب سے زیادہ فائدہ سعودی جیلوں میں قید 2,107 پاکستانیوں کو ہوا جنھیں سعودی عرب عمران خان کی عاجزانہ درخواست پر رہا کر رہا ہے۔سعودی ولی عہد نے بھی بہت تیزی سے کام کیا اور اگلی ہی صبح پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری ہونے لگے۔کیا ہم خوش قسمت نہیں ہیں کہ سعودی عرب جمہوری ملک نہیں ہے،جہاں عدلیہ اور پارلیمنٹ سے غیر ملکی قیدیوں کی رہائی کی منظوری درکار ہوتی بلکہ یہ ایک سلطنت ہے جہاں بادشاہ اور ولی عہد کی حکومت ہے ؟
کالم نگار تک رسائی کے لیے: (ayazbabar@gmail.com)