احمد کی عمر کم وبیش دس سال ہوگی جب اس نے والد سے چوری چھُپے موٹر سائیکل چلانا سیکھ لیا تھا۔ بائیک چلانے کا اس کو جنون تھا۔ جونہی موقع ملتا وہ گھر سے موٹر سائیکل لیتا اور یہ جا وہ جا۔پہلے پہل تو اس کی حد محلے کا پارک تھا۔ بس بات اگلے محلے تک جا پہنچی۔ چند دن بعد ہی اس نے بائیک مین روڈ پر چلانی شروع کر دی۔وہ بائیک اتنی تیز رفتاری سے چلاتا تھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چند لمحوں میں پہنچ جاتا تھا۔ اور بڑے فخر سے یہ کارنامہ اپنے دوستوں کو بتا تا تھا۔
اس کے بائیک چلانے کی خبر آہستہ آہستہ ابو کے کانوں تک جا پہنچی ۔ ابو نے اچھی خاصی اس کی کلاس لی اور آئندہ سے بائیک چلانے سے منع کر دیا۔ لیکن احمد کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ جیسے ہی موقع ملتا وہ بائیک پکڑتا اور مین روڈ پر اور بازارمیں لے جاتا اور دل کھول کر چلاتا۔آخر وہی ہوا جس کا ابو کو ڈر تھا۔ ایک دن احمد بائیک لے کر گھر سے نکلااور دوسرے موڑ پر جیسے ہی وہ مین روڈ پر چڑھنے لگااچانک دوسری سائیڈ سے آنے والے تیز رفتار ٹرک نے اسے ٹکر ماردی۔بائیک کی تیز رفتاری کی وجہ سے وہ اس کو کنٹرول نہ کرسکا اور ایک سائیڈ پر بائیک سمیت گِر گیا۔ اللہ نے جان تو بخش دی مگر اس کو اتنی شدید چوٹیں آئیں کہ ہسپتال میں دس دن داخل رہا۔
جستجو کی مستقل قارئین! اس طرح کے واقعات ہمیں روزانہ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ان ٹریفک حادثات کا شکار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کرتے ۔ ہمیں ٹریفک قوانین کا علم تو ہوتا ہے لیکن ہم ان پر عمل نہیں کرتے ۔اکثر لوگوں سے یہی کہتے ہو ئے سنا ہے کہ جو سب لوگ کرتے ہیں ہم بھی وہی کریں گے۔
اگر لوگ پرواہ نہیں کرتے تو ہم کیوں پرواہ کریں۔پھر ٹریفک قوانین میں تمام تر نرمی ان لوگو ں کے لیئے ہے جو یا تو صاحبِ ثروت ہیں یا ان کے تعلقات بڑے افسروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہمارے ٹریفک وارڈن بھی چوراہوں میں آنے جانے والے لوگوں کو روک کر ان کی گاڑیوں کے کاغذات چیک کر رہے ہوتے ہیں اور نامکمل ہونے پر ان کے چلان کاٹ رہے ہوتے ہیں۔سڑکوں پر چلنے والی غیر قانونی گاڑیاں بھی تما م قیود سے آزاد ہوتی ہیں۔ان ٹریفک قوانین کی مکمل آگاہی بہت ضروری ہے اور ان پر عمل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ ہم روزانہ ہونے والے ٹریفک حادثات کو دیکھ کر یہ نہیں سوچتے کہ کل کو ہماری باری بھی آسکتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری اس بات کی گارنٹی تو نہیں کہ آپ کو کوئی ٹریفک حادثہ پیش نہیں آئے گالیکن اس بات کی گارنٹی ضرور ہے کہ آپ کسی بھی نا گہانی آفت سے بچ سکتے ہیں۔
ملک میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیئے ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مختلف سکولز اور کالجز میں آگاہی مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں جناب وسیم عباس انجم صاحب انسپیکٹر؍سیئنیرپٹرولنگ آفیسر اورمحترمہ حنا سلیم صاحبہ سب انسپیکٹر ؍پیٹرول آفیسر نے ایک سیشن کا اہتمام بہار کیڈٹ اینڈ فورسز اکیڈمی اوکاڑہ میں کیا۔
اس سیشن میں محترمہ حنا سلیم صاحبہ نے پہلے ٹریفک قوانین پر روشنی ڈالی اور طلبا ء کو موٹر بائیک اور گاڑی چلانے کے قوانین سے آگاہ کیا ۔اگر بچے بڑوں کے ساتھ سفر کر رہے ہیں تو ان کو بھی ٹریفک قوانین کا علم ہونا چاہیے۔ روڈ پر فرسٹ لین اور سیکنڈ لین اور شولڈر کا علم ہونا چاہیے۔ خاص طور پر موڑ کاٹتے ہوئے ہمیں دونوں اطراف کی ٹریفک کا علم ہونا چاہیے اور موڑ پر آپ کی بائیک یا گاڑی کی رفتار انتہائی کم ہونی چاہیے۔
آپ کو اپنی گاڑی یا بائیک کو باقاعدگی سے چیک کرواتے رہنا چاہیے یہ بھی آپ کو بہت سے حادثات سے بچا تا ہے۔ زیادہ تر حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے ہوتے ہیں۔تیزرفتاری سے بچنا ضروری ہے ۔ اگر آپ نے کسی جگہ پہنچنا ہے تو آپ کو وقت سے پہلے گھر سے نکلنا چاہیے اور ٹریفک کے مطابق اپنی گاڑی کو چلانا چاہیے۔ محترمہ حنا سلیم صاحبہ نے طلباء کو بتا یا کہ بارش یا دھند کے اوقات میں بلا وجہ سفر سے گریز کرنا چاہیے۔ بائیک پر دوسے ذیادہ افراد کو سوار نہیں ہونا چاہیے۔ بائیک کو ہمیشہ شولڈر پر چلائیں تاکہ ممکنہ تیز رفتار گاڑیوں اور ٹرکو ں سے بچا جاسکے ۔ اگر ان ٹریفک قوانین پر عمل کیا جائے تو ہم بہت سی انسانی جانوں کو بچا سکتے ہیں۔
بائیک رائیڈر کو ہیلمٹ کا استعمال لازمی کرنا چاہیے یہ حادثات کی صورت میں آپ کو بچاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں محترم وسیم عباس انجم صاحب نے بتا یا کہ بائیک پر سوار تما م لوگوں کو ہیلمٹ پہننا چاہیے۔ ایک طالب علم نے سوال کیا کہ اگر ون وے ٹریفک ہو تو ہمیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟۔ محترم وسیم عباس انجم صاحب نے بتا یا کہ ون وے ٹریفک میں گاڑی چلاتے ہوئے ہمیں موڑ بہت احتیاط سے کاٹنا چاہیے ۔
چونکہ اس صورت میں دوسری گاڑیوں کی رفتا ر تیز ہوتی ہے اور بہت سارے ٹریفک حادثات کا باعث بنتی ہے۔ ہمارے ٹریفک وارڈنز کے رویے کے بارے میں انہوں نے بتا یا کہ ہم ان کی بھی باقاعد ہ ٹریننگ کرتے ہیں اور ان کو تما م لوگوں سے یکساں سلوک کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ اگر وہ لوگ مکمل کاغذات نہ رکھنے والے لوگوں اور مکمل طور پر فٹ گاڑی نہ رکھنے والے لوگو ں کو جرمانہ نہیں کریں گے تب تک ہم ٹریفک حادثا ت سے بچ نہیں سکتے ۔
لوگ اپنا وقت بچا نے کی خاطر ٹریفک وارڈنز کو رشوت کی پیش کش کرتے ہیں لیکن وہ ان چیزوں کے نقصانا ت کو نہیں سمجھتے ۔ اگر آپ کی گاڑی میں مکمل لائٹیں نہیں ہیں تو اس کا نقصان ٹریفک وارڈن کو تو نہیں ہوگا لیکن آپ کی زندگی ضرور خطرے میں پڑھ جاتی ہے۔ اپنے وقت کی بچت آپ کو بہت مہنگی پڑ ھ سکتی ہے۔ حکومت نے تما م ٹریفک قوانین عوام کی بہتری کے لیئے ہی بنا ئے ہیں ۔
دنیا کے تما م ممالک میں لوگ ٹریفک قوانین کا احترام کرتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر ان کو بھاری جرمانوں کو سامنا پڑتا ہے ۔ جن کا ادائیگی کے سوا کوئی حل نہیں ہوتا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ان قوانین پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ان کے ٹریفک وارڈنز کی اتنی زیادہ اتھارٹی ہوتی ہے کہ ان کا عائد کردہ جرمانہ کوئی بھی معاف نہیں کرسکتا ۔
جرمانہ کرتے ہوئے وہ لوگوں کو موقع پر روکتے نہیں ہیں بلکہ جو لوگ بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں ان کی گاڑیوں کے نمبر خود کار نظام کے تحت نوٹ کیے جاتے ہیں اور ان کے موبائل پر جرمانے کا میسج آجاتاہے ۔کیمر ہ ان کی حرکات کو ریکارڈ بھی کر رہا ہوتاہے۔ اگر کوئی شخص اس جرمانے کو ماننے سے انکا رکر دے تو اس کو کیمرے کی ریکارڈنگ بھی دکھا ئی جاتی ہے۔ ٹریفک قوانین ہماری سہولت کے لیئے ہی بنا ئے جاتے ہیں اور ان پر عمل کر کے ہم نہ صر ف اپنی بلکہ دوسرے لوگوں کی زندگی بھی محفوظ بنا سکتے ہیں۔
ٹریفک حادثات کا ذمہ دار کون؟
وقتِ اشاعت : February 28 – 2019