|

وقتِ اشاعت :   March 5 – 2019

پلوامہ اٹیک کے کئی دنوں تک بھارت جنگ کی دھمکیاں دیتا رہا مگر کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا یہاں تک کہ بدھ کے دن بھارت کے طیارے لائن آف کنٹرول کو کراس نہیں کر لیتے ہیں ،جس کے بعد تشویش بڑھ جاتی ہے اور پاکستان کے بہادر جوان ان کو نیست و نابود کر دیتے ہیں ۔ اب سب کہنا شروع کر دیتے ہیں ابھی جنگ ہوئی ابھی ہوئی اور ابھی ہوئی ، ہر جگہ انٹرنیٹ ہو ، ٹی وی سکرین ہو یا موبائل فون ہو ہر جگہ ماحول گرم ہے ہر کوئی جنگ جنگ کرنے لگا ہوا تھا ۔ ہم لوگ یونیورسٹی میں تھے جب خبریں گردش زدہ عام تھیں، دل گھبرا رہا تھا ، زبان سے بس یہی نکلتا تھا خدا خیر کرے۔۔۔ آزاد کشمیر کے ساتھی زیادہ پریشانی میں تھے ،ان کے تو علاقے بھی خالی کرا لیے گئے تھے۔

مگر ان سب میں ایک چیز نمایاں تھی وہ جذبہ تھا کسی میں بھی کم نہ تھا ، سب وطن کیلئے لڑنے مرنے کو تیار تھے ، اس کی سکت ان میں تھی یا نہیں یہ الگ بات ہے۔مگر اس سب میں، میں نے جو جانا ہے وہ یہ کہ بیک وقت وطن پرست اور امن پسند نہیں رہا جاسکتا ہے، یا تو وطن پرستی نبھائی جا سکتی ہے یا امن کی خواہش کی جا سکتی ہے ۔ 

عمران خان کے امن کے پیغام کی تائید کی جاتی ہے کیونکہ پاکستان کا پیغام امن ہے۔ فوج نے تو جو محاذ پر لڑا وہ لڑا ، پاکستانی عوام نے بھی سوشل میڈیا کو ایک لمحہ کے لیے بھی خیر باد نہیں کہا ، فیس بک اور ٹویٹر پر کیا شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے ٹرینڈ بنائے ہیں کہ وطن کے سپوتوں کو اکیس توپوں کی سلامی دینے کا جی چاہتا ہے۔ ویسے اس میں اب کوئی شک نہیں رہا سوشل وار بھی آجکل بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے مگر اس کے فوائد کچھ بھی نہیں ہیں سوائے ذہنوں کو کچرے سے بھرنے کے۔ سوشل محاذ اور اصل محاذ پر لڑنے میں بہت فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو بھولنا نہیں چاہیے۔

اگر جنگ ہوتی ہے تو ایک چیز طے ہے وہ ہے پاکستان کی فتح،کیونکہ پاکستانی قوم بہادر قوم ہے جو پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہے یہاں کتنے بھی اختلافات ہوں مگر ضرورت پڑنے پر سب اکٹھے ہو جاتے ہیں جبکہ بھارت میں عوام میں اتنا حوصلہ نہیں ہے ۔ بھارت اس قوم کو دھمکیاں دیتا ہے جس کے جوان تو پیدا ہی شہید ہونے کیلئے ہوتے ہیں۔مگر اگر ان جذبات کو پڑے رکھ کر سوچا جائے تو حقیقت یہی ہے کہ جنگوں سے فتح نہیں ملتی قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں ۔مودی سرکار نے یہ ڈرامہ الیکشن کیلئے رچایا تو ہے مگر اس کا نتیجہ اب اچھا نہیں نکل رہا ہے جس کی اسے لگ سمجھ گئی ہے۔یہ جو لوگ جنگ جنگ کر رہے ہیں پھر غزوات کی مثالیں دے رہے ہیں انہیں چند حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ نبی کریم نے جنگ کا حکم اس وقت دیا جب اور کوئی راہ نہیں بچی تھی ، پھر جنگ کے ایسے اصول کہ قربان جائیے کہ سوائے اس دشمن کے جس نے وار کیا کسی کو ہاتھ نہ لگایا جائے، انسان کیا درختوں اور جانوروں کی حفاظت تک کا خیال رکھا۔ اب جنگ کی صورت میں کیا ان سب کا خیال رکھا جائے گا ؟

پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں دونوں میں سے ایک بھی حملہ کرتا ہے تو بم چلائے جائیں گے اور پھر تباہ ایک نہیں دونوں ملک ہونگے اور یہ تباہی یہاں رکے گی نہیں بلکہ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے گی اور انسانیت زمین بوس ہو جائے گی۔ان دھماکوں کے نتیجے میں اٹھنے والا دھواں اتنا زہریلا ہو گا کہ سو سال تک بارش نہ ہوگی اور پیداوار کے آثار تو دور کی بات ہیں زندگی بھوک سے مر جائے گی۔کوئی بھی اتنا بیوقوف نہیں ہے کہ ایسے ہی جنگ ہونے دے، نہ عالمی طاقتیں اور نہ قومی طاقتیں کیونکہ بچنا کسی نے بھی نہیں۔ اس سب سے تو صرف نفرتوں کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے صرف اپنے مفاد پورا کرنے کے لیے۔

دونوں ملک اس چکر میں انسان سے حیوان بنتے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو جہنم واصل کر رہے ہیں۔ اور قربان آرمی ہو رہی ہے جو باڈر پر ہے یہ سچ ہے کہ ہماری آرمی بہت جانباز ہے اور اس جیسی آرمی پوری دنیا میں نہیں مگر وہ بھی کسی کا بھائی، شوہر اور بیٹے جن کے گھر والے ان کیلیے پریشان ہیں اور ہر گھڑی ان کی سلامتی کی دعا ئیں مانگتے ہیں۔ہماری مائیں بہت ناز سے بیٹوں کو وطن پر قربان کرتی ہیں مگر یہ سب اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔آپ سوشل میڈیا پربیٹھ کر بھارت پر لطیفے کسنے کی بجائے انہیں ان فالو کیوں نہیں کر دیتے ،”جان چھٹی تے گل مکی”۔ آپ اپنے دشمن کو خود کیوں نہیں شکست دیتے ان سے وابستہ چیزوں اور لوگوں سے منہ کیوں نہیں موڑ لیتے ،آپ اپنی ترجیحات بدل کر بھی کافی کچھ کر سکتے ہیں۔آج بھی ان کے چاہنے والوں میں صفحہ اول پر پاکستانی ہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔

اللہ پاکستان کو اپنے امن و امان میں رکھے اور دشمن کے شر سے محفوظ رکھے۔