|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2019

کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان نے کہا ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنانے کیلئے خواتین کو تمام شعبوں میں یکساں مواقع فراہم کرنا ناگزیر ہیہمیں تقریبات سے آگے بڑھ کر خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پرمقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کیا کہ پاکستان میں خواتین کا کردار ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں نظر آتا ہے، ہم نے خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں مزید آگے لانا ہے، خواتین کو ان کے حقوق کی فراہمی اور ان کوتمام سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے معاشرئے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے لئے زیادہ سے زیادہ قانون سازی کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں موجودہ صوبائی حکومت نے عملی اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور آج کے دن کے حوالے سے یہ بات بتاتے خوشی محسوس کررہا ہوں کہ موجودہ دور حکومت میں ایک خاتون کو سیکرٹری وومن ڈیولپمنٹ مقرر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کے دن کے حوالے سے ہمیں بہت سی چیزوں کا تعین بھی کرنا ہوگا، اگر ہم صرف تقاریب کا اہتمام اور تقاریر کرکے چلے جائیں گے تو کامیابی حاصل نہیں کرپائیں گے ،اس کے لئے حکومتی سطح پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے، خواتین کے مسائل کو بھی ایڈریس کرنا ہوگا، اسلام میں خواتین کا کردار اہم رہا ہے ہم نے ان کے حقوق کے لئے قانون سازی کرنا ہوگی۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی دور کرنے کیلئے تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے جس کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں بلوچستان کے طلباء و طالبات کیلئے تعلیمی سہولیات کی فراہمی کیلئے صوبے کے ہر ضلع میں 2 سے 4 ماڈل ہائی سکولز قائم کر رہے ہیں جن میں نصف اسکول لڑکیوں کیلئے ہو ں گی،بہت جلد دس سے پندرہ ہزار اساتذہ کی تقرری کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا۔

دریں اثناء گزشتہ روز نجی ہوٹل میں یواین ویمن کے دوسری ویمن لیڈر شپ ان پاور منٹ کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے کہا کہ ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے انہیں نظر انداز کرکے ملک ترقی نہیں کرسکتا ۔ ہمارے مذہب اور معاشرے میں خواتین کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے ، حضرت خدیجہؓکا آپ ﷺ کیساتھ نبوت کے دور میں کردا ر اس کا عملی نمونہ ہے ۔

معاشرے کی پسماندگی دور کرنے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ضروری ہے کہ خواتین کے احترام اور تمام معاملات میں ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ،حکومت خواتین کے حقوق کا پور احترام کرتی ہے اور خواتین کو برابر کے شہری کی حیثیت سے وارثت کے قانون کے تحت خواتین کو انکے حصہ کی منتقلی کے تحفظ کو قانونی شکل دی گئی ہے وراثت کی منتقلی سے متعلق جلد صوبائی کابینہ سے منظور ہونے والے بل کو اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا جائیگا جس میں خواتین کے حقوق کے وراثت میں ٹائم پریڈ کا تعین کیا جا ئیگا۔ 

انہو ں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں اس سے پہلے خواتین تو اپنی جگہ مردوں کو انکے حقوق نہیں ملتے رہے ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں ہے کہ وراثت کے کیسز جو دادا سے چلے آرہے ہیں ان کے ورارثوں کی تعداد 150 کے قریب ہونے کے باوجود ان کیسز کا فیصلہ نہیں ہو پایا ۔ 

انہوں نے کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری محکموں میں ایک خاتوں سیکرٹری تعینات ہوئی ہے ۔ صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ سرکاری معاملات میں خواتین کو موثر نمائندگی دیتے ہوئے سول سیکرٹریٹ میں تعینات خواتین جن میں سیکرٹری بننے کی اہلیت موجود ہے انہیں ان کلیدی عہدوں پر تعینات کیا جائے ۔ 

انہوں نے کہا کہ حکومت نے محسوس کیا ہے کہ کوئٹہ ، پشین اور خضدار میں انتظامی عہدوں پر تعینات خواتین کی تعلیم صحت سمیت انتظامی معاملات میں کاکردگی بہت سے مردوں سے بہتر ہے ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ محکمہ صحت میں حکومت نے کنٹریکٹ کی بنیاد پر ماہرین طب کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور حال ہی میں محکمہ نے 400 کے قریب خالی آسامیاں مشتہر کی تھیں جن میں سے بہت سے اسامیوں پر تعیناتیاں عمل میں لائی گئیں ہیں ۔ 

سبی ہسپتال کے دورے کے موقع پر وہاں مقامی گائنا کالوجسٹ کی موجودگی حکومت کے لیے باعث فخر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بہت سے اضلاع میں وہ خواتین جو شادی کے بعد دوسرے اضلاع میں نوکریاں نہیں کرسکتیں وہ حکومت کے اس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنی صلاحتیں بروے کار لائیں ۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے وزارتوں اور معاونین کی تقرریوں میں خواتین کو ترجیح نہیں دی بلکہ بلوچستان عوامی پارٹی یہ چاہتی ہے کہ خواتین مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے کی بجائے جنرل الیکشن میں حصہ لیکر اپنے صوبے کی نمائندگی کریں تاہم ملک میں ایسا نظام نہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک سے تین خواتین جنرل انتخابات میں کامیاب ہوکر آئی ہیں ۔

بلوچستان عوامی پارٹی نے چار اراکین قومی اسمبلی میں سے وفاقی کابینہ کیلئے جنرل الیکشن جیت کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والی زبیدہ جلال کا انتخاب کیا اور ہمیں خوشی ہے کہ وفاق کابینہ میں بلوچستان کی نمائندگی ایک خاتون رکن کررہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تقریب میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت اپنے حقوق کے حوالے سے انکے باشعور ہونے کا مظہر اور ہمارے لیے باعث اطمینان ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین سیاست سماجی اور معاشی شعبوں میں نہ صرف اپنی بھر پور صلاحیتوں کا اظہار کررہی ہے بلکہ اپنا بہترین کردار بھی ادا کررہی ہیں تعلیم ،صحت اور انتظامی شعبوں میں خواتین شاندار کاکردگی پر مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین کی شرح خواندگی کو 40 فیصدظاہر کرنا درست نہیں شرح خواندگی کے تعین کا مقصد یہ نہیں کہ اردوبولنا سمجھ سکو یا پڑھ لو اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔ 

میرے اندازے میں طویل رقبہ پر محیط صوبے کے اکثر علاقوں میں یا تو انفراسٹرکیچرموجود نہیں یا لوگوں کو تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے شرح خواندگی 40 فیصد سے زیادہ ہے صوبے میں شرح خواندگی کا جائزہ لینے کیلئے بلوچستان میں سروے کرنے کی ضرور ت ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ تربیت اور سماجی انصاف کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتاہم لاکھ قانون سازی کریں جب تک معاشرے کے لوگ اچھے اور برے میں تفریق نہیں کرینگے، قانون سازی کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ اس موقع پر سیکرٹری ترقی نسواں سائرہ عطاء ناہید بابر، رخسانہ بلوچ، ثریا علاالدین اور نیشنل کمیشن فار ویمن کی رکن رخسانہ امن علی اور ثناء درانی بھی موجود تھیں