تبدیلی کسی نعرہ بازی کا نام نہیں ہے بلکے یہ عمل سے ممکن ہوتی ہے مگر یہاں تو لوگوں پر آج کل تبدیلی کا کچھ ایسا نشہ چڑھا ہو اہے کہ ان سے کچھ بھی بات کریں تو وہ صرف یہی جواب دیتے ہیں تبدیلی آ گئی ہے، یہ سب سن کر سر پکڑ نے کو دل چاہتا ہے کہ عمران خان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے جو وہ آتے ہی سب ٹھیک کر دے گا کہ وہ چھڑی گھمائیگا اور پورا پاکستان نیا بن جائے گا اور سب کچھ بدل جائے گا مگر لوگوں کی باتیں سن کر تو یہی لگتا ہے۔
جس سے بات کی جائے تو وہ یہی کہتا ہے تبدلی آ گئی ہے یا نیا پاکستان ہے عمران خان سب ٹھیک کر دے گا۔ بھئی صحیح ہے کہ عمران خان آگیا ہے اور وہ کچھ کرنا بھی چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ پر عزم بھی ہے مگر پہلے اسے قدم تو اٹھانے دیں اور دوسرا آپ ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سوچئے کہ وہ مسائل جن کو پروان چڑھے ہوئے عرصہ لگا ہے وہ چٹکیوں میں کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔
اس میں وقت لگے گا اور کافی وقت لگے گا۔ ایک مشہور کہاوت بھی ہے کہ چیزیں بگاڑنے میں تو سیکنڈ لگتا اور صحیح کرنے میں عرصہ درکار ہوتا۔ جن خرابیوں کے پھلنے پھولنے میں سالوں لگے ہوں وہ فوراً کیسے صحیح ہو سکتی ہیں ،اس کے لیے وقت چاہیے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا تعاون بھی چاہیے .ہم عجیب لوگ ہیں چاہتے ہیں کہ ہمارے حکمران دیانت دار ہوں مگر خود ہیر پھیر کرنے سے بعض نہیں آتے ، چاہتے کہ ہمارے حکمران کرپشن سے پاک ہوں اور خود ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور خود اپنا کام پورا نہیں کرتے ہیں۔چاہتے ہیں کہ کہیں ٹریفک جام نہ ہو مگر خود ٹریفک قوانین کا پالن نہیں کرتے۔
بحیثیت قوم ہمیں اپنے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے ،ہمیں اپنے معاملات صحیح کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام کسی حکومت نے نہیں کرنا، ہم نے کرنا ہے۔ اگر ہمیں کرپشن کا صفایا کرنا ہے تو انٹی کرپشن کی گھٹی ہم سب کو پینی ہوگی ، ہمیں اپنے معاملات کو صاف شفاف کرنا ہوگا جب تک ہر فرد اپنے حصے کا کردار ادا نہیں کرے گا ۔
بہتری ممکن نہیں .ہم سب ملک سے تو ہر طرح کی کرپشن اور ہیرا پھیری کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں مگر ہم خود چاہے دودھ سبزی یا سودا سلف بیچنے والے ہوں یا مشینری کا کاروبار کرنے والے یا وکیل ڈاکٹر ہوں ہم ہیرا پھیری سے باز نہیں آتے ، ہم کو جہاں موقع ملتا ہے ہم اس سے فائدہ ضرور اٹھاتے ہیں ، جب تک ہم اپنی اس عادت کو نہیں بدلتے ، تبدیلی نہیں آ سکتی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں قانون نافذ ہو مگر جو قانون بنے ہوئے ہیں ۔
ان پر ہم عمل پیرا نہیں ہوتے ، ٹریفک کے قانون پر تو ہم کبھی نہیں عمل کرتے شاید ہی ہم میں سے کوئی ہو جو ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہوتا ہو ، جس وجہ سے آئے دن حادثے ہوتے رہتے ہیں اور ٹریفک بھی عموماً جام رہتا ہے ، اور ہر کوئی آگے نکلنے کی دھن میں ہوتا ہے ، بیوجہ ہارن بجانا تو ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے اور ذرا سی بات پر ہم گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں ، ہم عام حالات میں کتنا بھی مہذب بننے کی کوشش کیوں نہ کرتے ہوں مگر یہاں ہمارا مہذب پن جواب دے جاتا ہے۔
ایک طرف تو ہم پاکستان کو صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف جگہ جگہ کچرا پھیلا کر مزید گندا کرتے ہیں ، ہم کار میں ہوں یا رکشے میں، یا سائیکل میں اگر ہمارے ہاتھ میں کوئی کاغذ یا ریپر ہے تو ہم اسے ضرور نیچے پھینکیں گے ، ہمارے تعلیمی ادارے اور ہسپتال سب سے زیادہ گندے ہوتے ہیں جنہیں سب سے زیادہ صاف ہونا چاہئے ،افسوس کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی ان سرگرمیوں میں خاص طور پرشامل ہے ۔
ہم پارک میں جائیں یا کسی اور جگہ ہم گند ضرور ڈالتے ہیں حالانکہ تھوڑے فاصلے پر کچرادان رکھا ہوتا ہے مگر ہم اس تک جانے کی زحمت نہیں کرتے اور وہیں کھا پی کر ریپر پھینک دیتے ہیں اور یہاں تک جگہ جگہ تھوکنے کا عمل بھی کثرت سے کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے کتنے جراثیم پھیل سکتے ہیں مگر ہم بعض نہیں آتے۔ابھی حال ہی میں پارکوں کا حال ملاحظہ فرمائیں اور بتائیں کہ یہاں قصور وار کون ہے ،ایک طرح تو آپ کو موقع مل رہا کہ آپ گھومیں اور خاندان کے ساتھ مل کر محظوظ ہوں مگر دوسری طرف آپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے اور اسے بہتر بنانے کے بجائے آپ اسے اپنے رویوں سے خراب کر آتے ہیں ایسے میں تبدیلی کیسے آئے گی۔
بحیثیت قوم ہم بہت سی اخلاقی برائیوں کا شکار ہیں جو ہماری سالمیت کے لئے خطرناک ہیں اور ہماری پستی کا سبب بن سکتی ہیں ، جہاں ہم ایوانوں میں اعلیٰ شخصیات کو دیکھنا چاہتے ہیں وہی ہمیں ایوانوں سے باہر بھی اعلیٰ کرداروں کو پروان چڑھانا ہو گا تب ہی بہتری ممکن ہے وگرنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے پاس اپنی حالت پر ماتم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ ذرا سوچئے!