اسلام آباد: کل منگل کے روز سینیٹ میں حکومت کے حریف اور حلیف دونوں ہی عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے پر برس پڑے، جبکہ عسکریت پسندوں کے سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف حملے مسلسل جاری ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربّانی نے چارسدّہ اور پشاور میں پولیس پر حالیہ حملوں پر حکومتی ردّعمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے ایک نمائندے نے دعویٰ کیا تھا کہ جب تک ان حملوں کی کوئی ذمہ داری نہ قبول کرلے، اس وقت تک کوئی باضابطہ کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
رضا ربّانی نے سینیٹ کے ایوان میں کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ حکومت اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے، جس کا اعلان فروری میں خاصے زور و شور کے ساتھ کیا گیا تھا۔
سینیٹ کے اجلاس کے بعد ڈان سے بات کرتے ہوئے رضا ربّانی نے کہا ’’اس سے حکومت کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے کہ بجائے خود حقائق کی تفتیش کرنے کے، اسے غیر ریاستی عناصر کے دعووں کا انتظار ہے۔‘‘
زیرو آور کے دوران جب کہ اس ایوان میں سینیٹرز کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ بجائے اس روز کے ایجنڈے کے، اپنی دلچسپی کے معاملات پر تبادلۂ خیال کرسکتے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک نے کہا ’’ایک جانب ’مذاکرات کا سرکس‘ جاری ہے، اور دوسری جانب ہماری سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔‘‘
افراسیاب خٹک نے سوال کیا کہ ’’یہ کس قسم کے مذاکرات ہیں، جس سے عسکریت پسندوں کو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملے کی آزادی مل گئی ہے؟‘‘
انہوں نے حکومت کو یاد دلایا کہ اس نے عہد کیا تھا کہ اگر عسکریت پسندوں نے پاکستان کی سرزمین پر مزید حملے کیے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
حزبِ اختلاف کی جانب سے حکومت کی اس دلیل پر سوالات اُٹھائے گئے کہ پولیس اہلکاروں پر حملوں کے تسلسل کے باوجود وہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔اس موقع پر حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے ایک سینئر رکن محمد حمزہ نے بھی حزبِ اختلاف کے مؤقف کی حمایت کی۔
مسلم لیگ نون کے سینیٹر نے اس حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے اغوا شدہ بیٹوں کی بازیابی میں یہ جاننے کے باوجود ناکام رہی ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔
اے این پی کے حاجی عدیل نے کہا کہ یہ محض سیکیورٹی اہلکار ہی نہیں ہیں، جنہیں قتل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میری پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو خیبر پختونخوا میں اغوا اور قتل کیا جارہا ہے۔‘‘
حزبِ اختلاف کے اراکین نے اے این پی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ سینئر صحافی حامد میر کی جانب سے خود پر حملے کے الزام پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا دفاع کرے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی ایک فوجی ادارہ نہیں تھا، اور اس کو سویلین کنٹرول میں دے دیا گیا تھا۔
اس سے قبل وقفۂ سوالات کے دوران وفاقی وزیر برائے پٹرولیم اور قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے ایوان کو بتایا کہ حکومت ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
سابق وزیرِ خزانہ سلیم مانڈوی والا کی جانب سے اُٹھائے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے سبب پاکستان اس پائپ لائن کی تعمیر نہیں کرسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس منصوبے کو ترک کرنے کی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔ مختلف امکانی صورتوں کے لیے اس تجارتی معاہدے میں ایک واضح طریقہ کار دیا گیا ہے، جس میں فریقین کے درمیان مذاکرات، ثالثی، جرمانے، معطلی اور قدرتی آفات شامل ہیں۔
بعد میں سینیٹ میں سروے اور میپنگ کا بل 2014ء متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ جو سروے آف پاکستان کے لیے آئین اور قانون فراہم کرتا ہے۔ یہ بل جسے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر زید حامد نے پیش کیا، قومی اسمبلی میں اکتیس مارچ کو پہلے ہی منظور کیا جاچکا ہے۔