|

وقتِ اشاعت :   March 26 – 2019

کوئٹہ :  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا حکومتی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں میں نظر انداز کئے جانے کیخلاف سپیکر ڈائس کے سامنے کھڑے ہو کر احتجاج علامتی واک آؤٹ کیا حکومت اور اپوزیشن اراکین میں تندوتیز جملوں کے تبادلے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دی پی ایس ڈی پی سے متعلق حزب اختلاف کی جماعتوں سے مذاکرات کیلئے قائم کمیٹی کے سربراہ کاترقیاتی منصوبوں سے متعلق فنڈز کے اجراء سے لاعلمی کا اظہار اسپیکر نے متعلقہ محکمہ کو پی ایس ڈی پی سے میں شامل منصوبوں کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی رولنگ دی۔ 

تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے زیرصدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے بلوچستان حکومت پر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ مہینوں کے دوران صوبے کے سیاہ و سفید کی مالک حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے پی ایس ڈی پی کے اجراء میں حکومتی سرد مہری باعث افسوس ہے ۔

حکومت نے اپوزیشن اراکین کو صحت ، تعلیم ، انفراسٹرکچر سمیت صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لئے اقدامات کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا لہٰذا قول و فعل میں تضاد کے باعث حکومت صوبے میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کا آئینی جواز کھو چکی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اراکین نے صوبائی اسمبلی میں پی ایس ڈی پی ، این ایف سی ایوارڈ ، پینے کے صاف پانی ، خشک سالی سے متاثرہ تمام اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے سے متعلق متعدد قراردادیں ایوان میں پیش کرکے منظور کرائیں جن پر عملدرآمد کے لئے کمیٹیاں بھی قائم ہوئیں لیکن آٹھ ماہ میں کسی بھی کمیٹی کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا ہے نہ کہ حکومت اس ضمن میں ایک قدم بھی آگے بڑھی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں واٹر سپلائی ، میگا پراجیکٹ کے لئے مختص شدہ چھ ارب روپے کہاں خرچ ہوئے اس کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کی گئی تھی لیکن تحقیقاتی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی بلوچستان کے دیگر اضلاع تو درکنار کوئٹہ کے لوگ بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ۔ 

انہو ں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی سے متعلق بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں قرار داد بھی پاس ہوئی ہے جس پر عملدرآمد کے لئے حکومت اور اپوزیشن اراکین میں مذاکرات کے دو دور بھی ہوئے لیکن کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن اراکین سے مذاکرات کے لئے سردار صالح بھوتانی کی قیادت میں اسداللہ بلوچ ، ظہور بلیدی ، عبدالخالق ہزارہ ، زمرک اچکزئی اور نصیب اللہ مری پر مشتمل کمیٹی قائم کی تھی کمیٹی کے اراکین نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ جلد ازجلد پی ایس ڈی پی کے اجراء کو یقینی بنایا جائے گا۔

تاہم تین سے چار مہینے گزرنے کے باوجود حکومت مسلسل لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اور اب خدشہ ہے کہ جس طرح سابق حکومتوں نے پی ایس ڈی پی کے فنڈز لیپس کئے موجودہ حکومت بھی اسی روش پر چل رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت 33ارب روپے ریلیز کرنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اپوزیشن اراکین کے حلقوں کے لئے ایک روپیہ بھی ریلیز نہیں ہوا نہ ہی کسی رکن کو اس بابت علم ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقم کہاں اور کس مد میں خرچ ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاق سے فنڈز کے حصول کے لئے ہم نے بلوچستان اسمبلی میں قرار داد منظور کرکے حکومت کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی کہ ہم اپوزیشن اراکین وفاق میں بلوچستان حکومت کے ساتھ مل کر صوبے کا مقدمہ لڑیں گے لیکن حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ تک نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن کے24اراکین بھی عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں اور ترقی کے عمل میں جتنا حق میر جام کمال کے حلقے کے لوگوں کا ہے اتنا ہی حق اپوزیشن حلقوں کے عوام کا بھی ہے ۔

اس موقع پر نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ اپوزیشن اراکین کے فنڈ ز کو روک کربلوچستان کے آدھے حصے میں ترقی کے عمل کو روک دیا گیا ہے اپوزیشن اراکین اور ان کے حلقہ انتخاب میں موجود لوگ صوبے میں ترقی عمل کو جاری رکھنا چاہتے ہیں حکومت اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے حلقوں کو یکساں فنڈز کا اجراء یقینی بنائے بصورت دیگر اپوزیشن اراکین آج پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں کل ہم سپیکر ڈائس کے آگے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ سپیکر کی سربراہی میں پی ایس ڈی پی سے متعلق کمیٹی تشکیل دی جائے اور حکومتی و اپوزیشن اراکین کو اس کمیٹی کا حصہ بنایا جائے بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے بھی پی ایس ڈی پی سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابق دور حکومت میں بلوچستان کے 154ارب روپے لیپس ہوئے اور موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔

تین مہینے قبل اپوزیشن اراکین نے ایوان میں قرار داد پیش کی تھی کہ پی ایس ڈی پی پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے جس پر اس وقت حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔

بعدازاں سردار صالح بھوتانی کی قیادت میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے اپوزیشن اراکین سے مذاکرات کرکے تحفظات کے ازالے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن تاحال ہمیں کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی جارہیں انہوں نے کہا کہ وفاق کی ناانصافیاں اپنی جگہ جب وفاق سے کچھ آتا ہے تو ہماری حکومت کی نااہلی آڑے آجاتی ہے ہمیں پی ایس ڈی پی میں حصہ زکواۃ اور خیرات کی بنیاد پرنہیں بلکہ اپنے حق کی بنیاد پر چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم عدالت میں نہیں جائیں گے بلکہ جس عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے ہم ان کی عدالت میں جائیں گے اور انہیں باور کرائیں گے کہ ہم ان کے حقوق سے غداری نہیں کریں گے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہرسڑکوں پر بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں گندم کی نو لاکھ بوریاں ضائع ہوگئی ہیں اگر حکومت کی رفتار یہی رہی تو نہ صرف بلوچستا ن کی غربت کی شرح بڑھے گی بلکہ بے روزگار ی ، غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوجائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرکے توہین عدالت کی مرتکب ہورہی ہے عدالت نے واضح احکامات جاری کئے ہیں کہ پی ایس ڈی پی میں شامل450کے قریب منصوبوں کو نکال دیا جائے جبکہ حکومت نے آن گوئنگ کی مد میں ان کے لئے رقم مختص کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سپیکر پی ایس ڈی پی پر عملدرآمد کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کی رولنگ دیں ہم عدالت سے رجوع کریں گے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے کے لئے کابینہ کے بارہ گھنٹوں کے اجلاس کی ضرورت نہیں حکومت مفلوک الحال عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ محسوس کرے کہ انہیں کیا چاہئے تو فیصلے منٹوں میں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حقوق پر کسی کو بھی سودے بازی نہیں کرنے دیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ صوبے کے ترقیاتی فنڈز کو ہڑپ کر جاتے ہیں ہم یہ دھبہ خود پر نہیں لگنے دیں گے۔صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی نے کہا کہ سپیکر نے مجھے سینئر وزیر کہہ کر مخاطب کیا ہے لہٰذا واضح کرتا ہوں کہ میرے نام پر سینئر وزارت ابھی تک الاٹ نہیں ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ پانچ نومبر کو بلوچستان کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے میری سربراہی میں حکومتی اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ہم نے اپوزیشن اراکین سے ملاقات کی جس میں انہوں نے شکوہ کیا کہ ہم عوام سے ووٹ لے کر آئے ہیں پی ایس ڈی پی میں ہمارے حلقوں کے لئے خاطرخواہ رقم نہیں رکھی گئی اس ضمن میں ہمارے تحفظات ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیراعلیٰ کو اپوزیشن اراکین کے تحفظات سے آگاہ کیا اور وزیراعلیٰ نے کہا کہ 17سے18فیصد آن گوئنگ منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے رقم مختص کی گئی ہے آئندہ پی ایس ڈی پی میں ہر رکن اسمبلی کے حلقے کے لئے دس کروڑ روپے کے فنڈز مختص کئے جائیں گے انہوں نے کہا کہ موجودہ پی ایس ڈی پی میں رقم کس مد میں جاری ہوئی مجھے کوئی علم نہیں جس پر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ سردار صالح بھوتانی حکومتی کمیٹی کے سربراہ تھے جب انہیں اور نہ ہی سپیکر کو اس ضمن میں کوئی علم ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عوام کے ساتھ دھوکہ کررہی ہے ۔

جبکہ نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ پی اینڈ ڈی کا محکمہ جس کے پاس ہے وہ آکر ہمارے سوالوں کے جواب دیں صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی سابق دور حکومت میں بنی تھی ہمارے دور حکومت میں یہ پی ایس ڈی پی نہیں بنی اس پی ایس ڈی پی میں ایسے بھی منصوبے شامل تھے جن کے لئے گزشتہ پندرہ سالوں سے رقم مختص ہوتی چلی آرہی ہے اس کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ہے ۔

پی ایس ڈی پی سے متعلق عدالت کا فیصلہ واضح ہے کسی کی خواہش پر پی ایس ڈی پی میں منصوبے شامل نہیں کئے جائیں گے انہوں نے کہا کہ متعلقہ محکمہ عدالتی احکامات کی روشنی میں طے شدہ طریقہ کار کے تحت پی ایس ڈی پی کو ترتیب دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکثر فنڈز آن گوئنگ سکیمات کی تکمیل کے لئے مختص کئے گئے ہیں اپوزیشن اراکین آج احتجاج کررہے ہیں لیکن یہ نہیں بتارہے کہ آن گوئنگ سکیمات کس کی ہیں ان میں میرے حلقے کی ایک بھی سکیم شامل نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ وزارت ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی جہاں بلوچستان کے حقوق کے دفاع کی بات آئے گی تو ہم اپنی وزارتیں چھوڑ دیں گے ، این ایف سی ایوارڈ اور مغربی روٹ کی تعمیر سے متعلق بلوچستان حکومت کا موقف واضح ہے ہم ایوان کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ جتنے فنڈز وزیراعلیٰ کے حلقے کے لئے مختص ہوں گے اتنے ہی فنڈز اپوزیشن کے حلقوں میں بھی خرچ ہوں گے تاہم یہ کسی قانون میں نہیں کہ اراکین کی مرضی کے تحت ہی منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کئے جائیں ۔

بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ ہم نے کسی سے اپنے لئے فنڈز نہیں مانگے بلکہ عوامی مسائل کے حل اور انہیں سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں سابق دور حکومت میں کوئٹہ میں دو سو سے زائد ٹیوب ویلز کے لئے بورنگ کی گئی مگر مزید مشینری نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں میرے توجہ دلانے پر صوبائی وزیر خزانہ اور وزیر پی ایچ ای نے جلد فنڈز فراہم کرکے ٹیوب ویلز کو فعال کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر آج تک ایسا نہ ہوسکا اسی طرح شیلٹرلیس سکولوں کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے ۔

سابق صوبائی وزیر سید احسان شاہ نے کہا کہ ماضی میں پی ایف سی کے تحت مختلف حلقوں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر ترقیاتی منصوبوں کا تعین کیا جاتا تھا جس میں پورے صوبے میں انصاف کی بنیاد پر منصوبے بنتے تھے یہ بہتر طریقہ تھا اسے اختیار کیا جائے ۔

مشیر تعلیم محمدخان لہڑی نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے ایک سکول کی نشاندہی کے جواب میں کہا کہ آج جو اپوزیشن میں لوگ موجود ہیں کل وزارت تعلیم ان کے پاس تھی وہ پانچ سال تک مذکورہ سکول کے مسائل حل نہ کرسکے اور ہم سے چھ مہینے میں سب کچھ کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔

اس موقع پر اپوزیشن رکن اصغرخان ترین اور محمدخان لہڑی کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا دونوں ارکان مسلسل بولتے رہے صوبائی وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے محکمہ صحت کے حوالے سے اٹھائے گئے ۔

نکات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے آتے ساتھ پانچ سو ڈاکٹرز ، سٹاف نرسز سمیت دیگر سٹاف صوبے کے تمام اضلاع میں ضرورت کے مطابق تعینات کیا اور اس حوالے سے کسی علاقے سے کوئی ناانصافی نہیں کی گئی ماضی میں اندرون صوبہ جہاں آپریشن نہیں ہوتے تھے ۔

آج وہاں بھی آپریشن کا سلسلہ جاری ہے اپوزیشن کے ارکان یہاں بیٹھ کر ہم پر تنقید کررہے ہیں وہ بتائیں کہ کیا ان کی شکایات پر محکمہ صحت نے ان کے حلقوں میں ڈاکٹروں و ادویات کی کمی کے مسائل حل نہیں کئے ۔ 

جس پر جمعیت کے میر زابد ریکی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میں بارہا صحت اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں کے مسائل کے حل کے لئے وزراء کے پاس گیا مگر آج تک میرا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا گیا ۔

انہوں نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس محکمہ صحت اور تعلیم میں کرپشن کے ثبوت موجود ہیں جو میں پیش بھی کرسکتا ہوں جمعیت العلماء اسلام کے میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ میں گزشتہ کئی ماہ سے خضدار سول ہسپتال کو ایمبولینس کی فراہمی کے لئے اپیلیں کرتا آرہا ہوں مگر کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی گزشتہ روز خضدار سول ہسپتال کے باہر بنائی جانے والی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں ایک میت اور ایک مریض کو رکشے میں لایا جارہا ہے ۔

اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال کیا ہوسکتی ہے صوبائی وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ مسئلے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ذمہ دار افسر کو معطل کردیا گیا ہے نئے ایمبولینسز کے ٹینڈرکردیئے گئے ہیں آتے ہی تمام علاقوں کوضرورت کے مطابق ایمبولینس فراہم کردیئے جائیں گے اندرون صوبہ ٹراما سینٹرز بھی بنائے جارہے ہیں ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ اندرون صوبہ تو دور کی بات کوئٹہ شہر میں موجود شیخ زید ہسپتال کی جانب توجہ نہیں دی جارہی افسوسناک امر تو یہ ہے کہ وہاں پر رات کو ایمرجنسی کی سہولت ہی نہیں ۔ وزیراعلیٰ اور وزیر صحت کو بارہا ہسپتال کے دورے کی دعوت دے چکا ہوں مگر کوئی دورہ کرنے کے لئے تیار نہیں ۔

سپیکر نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے آئندہ اجلاس میں رپورٹ آنے پر بات ہوگی تاہم ملک نصیر شاہوانی مسلسل بولتے رہے جس پر سپیکر نے ان کا مائیک بند کرادیا اس موقع پر اپوزیشن اراکین نے سپیکر ڈائس کے سامنے کھڑے ہو کر سخت احتجاج کیا جس کان پڑی آواز سنائی نہ دی اس موقع پر سپیکر نے اجلاس میں آدھے گھنٹے کے وقفے کا اعلان کیا قبل ازیں اپوزیشن اراکین نے اجلاس کا علامتی واک آؤٹ کیا جس کے دوران اپوزیشن اراکین ایوان کے ایک دروازے سے نکلے اور دوسرے دروازے سے واپس ایوان میں آئے ۔

وقفے کے بعد اجلاس شروع ہوا تو سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ترقیات) کو خط لکھیں کہ رواں مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں جتنے منصوبوں کے لئے فنڈز جاری ہوئے ہیں ان کی تفصیل آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے ۔