|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے ایک بار پھر ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کرنے اور تحفظات دور نہ کرنے پر احتجاج کیا۔ سیاہ پٹیاں بازؤں پر باندھ کر اجلاس میں شرکت کی۔ 

اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جس کے بعد ایوان شور شرابے کے باعث مچھلی بازار بن گیا۔ تفصیل کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت پچاس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا ۔

اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حز ب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کی جانب سے فراہم کی گئی پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کی تفصیلات پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ 25مارچ کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں منصوبوں کی مد میں جاری ہونے والے پیسوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں تاہم محکمے کی جانب سے محض دو صفحات پر مشتمل تفصیلات ایوان میں پیش کی گئی ہیں جس سے ہم بالکل بھی مطمئن نہیں ۔

انہو ں نے کہا کہ گزشتہ روز تک حکومتی اراکین کا موقف تھا کہ پی ایس ڈی پی میں کوئی نیا منصوبہ شامل نہیں کیا گیا اور آن گوئنگ منصوبوں کی مد میں رقم مختص کی گئی ہے اور آج محکمے کی جانب سے جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں آیا اگر حکومتی اراکین کو منصوبوں کے اجراء سے متعلق علم نہیں تھا تو فراہم کی جانے والی تفصیلات میں نئے منصوبوں کہاں سے آئے ؟

انہو ں نے کہا کہ آئے روز اخبارات میںآسامیوں اور منصوبوں کے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں اور پھر بعدازاں انہیں منسوخ کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے اپنی ذات کے لئے کچھ نہیں مانگ رہے جس طرح وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء کے حلقوں میں لوگوں کو صحت ، تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے ۔

اسی طرح اپوزیشن اراکین کے حلقوں کے عوام کو بھی ان سہولیات کی ضرورت ہے ہم کہتے ہیں کہ حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے حلقوں کو یکساں ترقی دی جائے انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز سردار عبدالرحمان کھیتران ہمارے تحفظات کے ازالے کے لئے ہمارے پاس آئے تھے وہ ایوان کو بتائیں کہ ہم نے ان کے سامنے جو مطالبات رکھے اور جن خدشات کااظہار کیا تھا وہ درست ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ہمیںیقین دہانی کرائی گئی کہ ترقیاتی منصوبوں کی مد میں ہر حلقے کو پندرہ پندرہ کروڑ روپے جاری کئے جائیں گے ہم نے ان سے مطالبہ کیاتھا ہمیں بتایاجائے کہ ترقیاتی مد میں کتنی رقم جاری ہوچکی ہے اور حکومتی اراکین کو اس مد میں کتنے پیسے ریلیز کئے جاچکے ہیں تاہم اس کا جواب ہمیں اب تک نہیں ملا ۔

انہوں نے کہا کہ یہ کونسی برابر ہے کہ قلعہ عبداللہ گلستان سے منتخب ایم پی اے کے منصوبوں کو تبدیل کیا گیا ہے اگر برابری یہی ہے تو ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔رکن اسمبلی و سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم خان رئیسانی نے کہا کہ 25تاریخ کو ہونے والے اجلاس میں سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ترقیاتی منصوبوں اور آنے والی پی ایس ڈی پی پر بات چیت ہوگی ۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ بات چیت کا خوبصورت راستہ نکال کر سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کی سربراہی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس حوالے سے تمام معاملات کو دیکھے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم صرف حکومت سے پی ایس ڈی پی یا ترقیاتی منصوبوں پر نہیں بلکہ ریکوڈک ، گوادر پورٹ ، لینڈ ایکوزیشن ، سی پیک کے مغربی روٹ سمیت ہر مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے پی اینڈ ڈی کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت اپنے وعدوں سے انحراف کرکے اسمبلی کی توہین کررہی ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان غربت ، جہالت ، بھوک ، افلاس ، بدانتظامی اور امن وامان کی ابتر صورتحال کے باوجود کرپشن میں سب سے زیادہ بدنام ہے اس کا راستہ روکنے کے لئے ہم نے گزشتہ سال اکتوبر میں اسمبلی کے منعقدہ ۔

اجلاس کے دوران پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کو زیر بحث لا کرعدالت کے فیصلے کی روشنی میں حکومت کو تجاویز دیں تاہم افسوس کہ حکومت اس ضمن میں خود سنجیدہ نہیں ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ترقی کا عمل جمود کا شکار ہے ہمیں پیسے نہیں ہم عوام کے لئے ژوب سے گوادر ، چمن سے جعفرآباداور گوادر سے رود ملازئی تک یکساں طورپر صحت ، تعلیم ، انفراسٹرکچرسمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی چاہتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ ترقیاتی فنڈز کی مد میں28ارب روپے جاری ہوئے ہیں ہم اپوزیشن اراکین حلفاً کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہمارے حلقوں میں ایک روپیہ کا بھی ترقیاتی کام شروع نہیں ہوا ۔انہوں نے کہا کہ بے روزگاری کے خاتمے ، وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے ہم حکومتی رویے کے خلاف ہر فورم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ اگر اپوزیشن محکمے کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات سے مطمئن نہیں تووہ مطالبہ کرے ہم انہیں تمام تر تفصیلات فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں جن سے وہ مطمئن ہون حکومت انہیں ہر طرح سے مطمئن کرے گی مل بیٹھ کر صوبے کی بھلائی کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت میں ہم اپوزیشن میں اوراس وقت جو لوگ اپوزیشن بینچوں پر ہیں وہ حکومت کا حصہ تھے میں اللہ تعالیٰ کو حاضرو ناظر جان کر کہتا ہوں کہ حکومت نہ صرف موجودہ پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے منتخب نمائندو ں کے حلقوں کو یکساں بنیادوں پر ترقیاتی منصوبے دے گی بلکہ آئندہ پانچ سالوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گابلوچستان کے احساس محرومی کے خاتمے کے لئے ہم اپوزیشن کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں ۔

جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے کہا کہ اپوزیشن بلوچستان اسمبلی کو اس کی روایات کے مطابق چلاکر مثالی اسمبلی بنانا چاہتی ہے تاہم حکومت نے ہمیں ہر معاملے میں نظر انداز کرکے آج احتجاج پر مجبور کیا ہے گزشتہ آٹھ مہینوں کے دوران اپوزیشن کے تحفظات کے ازالے کے لئے تین سے چار کمیٹیاں بنی ہیں جنہوں نے ہمیں یقین دہانیاں کرائیں لیکن عملدرآمد تاحال نہیں ہوا ۔

ہم سے بلوچستان کے معاملات کو چھپا کر ہماری عوام دوستی اور نمائندگی پر شک کیا جارہا ہے ہمارا ستحقاق ہے کہ حکومت ہمیں بلوچستان کے معاملات پر اعتماد میں لیتے ہوئے ہمارے حلقوں کو بھی ترقی دے ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پی ایس ڈی پی ایک حساس مسئلہ ہے ترقیاتی عمل اپوزیشن اور حکومتی حلقوں دونوں کے عوام کی ضرورت ہے ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں لیکن گزشتہ روز اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اور جس طرح کے الفاظ کی ادائیگی کی گئی وہ ہمارے صوبے کی روایات سے مطابقت نہیں رکھتا اپوزیشن اراکین کھڑے ہو کر جو تقاریر کررہے ہیں ۔

ان میں ہر مسئلے کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پی ایس ڈی پی سمیت جتنے بھی مسائل ہیں وہ سب سابق دور حکومت میں پیدا ہونے والے مسائل ہیں انہو ں نے کہا کہ اگر اپوزیشن اراکین پی ایس ڈی پی کے حوالے سے مطمئن نہیں تو ہمیں بتائیں ہم انہیں مطمئن کریں گے ۔

لیکن اپوزیشن کے دوستوں کو یہ بھی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں انہوں نے کہاکہ ہمارے اپوزیشن کے دوست جتنا احتجاج یہاں کررہے ہیں مرکز میں بھی کریں انہوں نے کہا کہ ہمارے بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھی جس قدر احتجاج یہاں کررہے ہیں اگر اس کا پندرہ فیصد احتجاج بھی وہ وفاق میں کریں تو وہ صوبے کے لئے زیادہ منصوبے لاسکتے ہیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبوں میں بلوچستان کو نظر انداز کرنے کی قصور وار موجودہ حکومت نہیں بلکہ اس کے قصور کل کی حکومت ، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے اتحادی ہیں سی پیک کے حوالے سے ہمیں کیا کیا دھوکے نہیں دیئے گئے گزشتہ روز اپوزیشن اراکین نے جس طرح کے الفاظ کا چناؤ کیا اگر حکومت صبر و تحمل کا مظاہرہ نہ کرتی توایوان مچھلی بازار بن چکا ہوتا ۔ 

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے ذاتی وضاحت کے نکتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز حکومتی اراکین نے بھی الفاظ کا درست چناؤ نہیں کیا انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں پٹ فیڈر منصوبہ ختم کرنے کی بات نہیں کی ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈرملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اپوزیشن کی ریکوزیشن پر جو اجلاس بلایا گیا تھا اس میں پی ایس ڈی پی کے حوالے سے ہر پہلو پر بحث ہوئی اور اس وقت مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کی بات کی گئی لیکن آج پی ایس ڈی پی لیپس ہونے جارہی ہے توبڑی عجلت میں 42ارب میں سے33ارب جاری کرنے کی بات کی گئی ہم پوچھتے ہیں کہ ہمیں تفصیل دی جائے کہ یہ 33ارب کس طرح جاری ہوئے وزراء اس کی تفصیل بتائیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن اراکین بھی منتخب ہو کر آئے ہیں ہم سے ہمارے عوام پوچھتے ہیں اسی لئے ہم حکومت سے پوچھتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ ہمیں پوری تفصیل دے سپیکر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جائے ورنہ ہم نے طے کیا ہے کہ ہم اس مسئلے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے ہم اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر ہر فورم پر احتجاج کریں گے ہم روڈوں پر آئیں گے اور عوام کو ساری صورتحال بتائیں گے۔

جے یوآئی اصغرخان ترین نے کہا کہ اضلاع میں تعلیم اور ڈویلپمنٹ کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ز کو بنایا گیا ہے جو نہ تو کوئی انجینئر نہ ہی ماہر ہوتا ہے جبکہ محکموں میں گریڈ ایک سے سیکرٹری تک کے ملازمین تعینات ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ فراہم کی جانے والی فہرست میں عدالت کی جانب سے جن چار شعبوں کو اولیت دینے کا حکم دیا گیا تھا ان کے علاوہ دیگر منصوبے بھی شامل کئے گئے ہیں انہو ں نے پی ایس ڈی پی سے متعلق کمیٹی قائم کرنے کی استدعا کی ۔

جے یوآئی کے میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ میں نے اپنے حلقے میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ سے متعلق قائد ایوان کو آگاہ کرتے ہوئے ڈھائی ارب روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی تھی جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ میرے حلقے کا دورہ کریں گے جبکہ سپیکر اور وزیر بلدیات نے کمیٹی بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم اب تک نہ تو کمیٹی کا کہیں وجود ہے اور نہ ہی ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے ۔ 

جمعیت علماء اسلام کے زابد ریکی نے کہا کہ بلوچستان کے کچھ حلقوں میں ساٹھ سے اسی کروڑ روپے کے منصوبے جاری ہوئے ہیں جن سے متعلق میں نے وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور اس ایوان میں موجود اراکین میرے حلقے ماشکیل اورواشک کا دورہ کریں کہ آیا اس حلقے میں لوگوں کو صحت ، تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں فنڈزکی ضرورت ہے یا نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں آج بھی مداخلت ہورہی ہے جو وہاں کے مظلوم عوام پر ظلم کے مترادف ہے ۔صوبائی مشیر عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی بلوچستان ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اپوزیشن اراکین تسلی رکھیں ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی ۔

جے یوآئی کے عبدالواحد صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن کا رد عمل حکومتی بینچز کے رویے پر منحصر ہے اپوزیشن اراکین کے حلقوں میں انتخابات میں شکست خوردہ اراکین کی ہدایات پر معاملات کو چلایا جارہا ہے جو وہاں کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے ۔

انہو ں نے کہا کہ ہم نے پی ایس ڈی پی سے متعلق حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ منی بجٹ پیش کیا جائے تاہم ہمارے اس مطالبے پر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پیسوں کی ضرورت نہیں عوام کے حقوق پر کسی صورت مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے ضرورت پڑنے پر حکومت کے خلاف سخت سے سخت احتجاج کریں گے ۔پاکستان نیشنل پارٹی ( عوامی ) کے سیدا حسان شاہ نے ایوان میں تجویز پیش کی کہ پی ایف سی کے تحت بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کا اجراء یقینی بنایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن بینچز پر بیٹھے لوگ تو اپنی جگہ خود میں حکومتی بینچز پر بیٹھا ہوں مگرمیری بھی پی اینڈ ڈی حکام سے میٹنگ نہیں ہوئی ۔صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے اپوزیشن اراکین کے رویے کوافسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایجنڈے میں شامل نکات جوں کے توں پڑے ہیں اور اپوزیشن اراکین پی ایس ڈی پی پر مسلسل دوسرے روز بھی بحث کررہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں امن وامان ، تعلیم ، صحت ، پینے کے صاف پانی سے متعلق منصوبوں کو اپوزیشن کی مشاورت سے شامل کیا جائے گا لیکن کسی کے ذاتی منصوبوں کو شامل نہیں کریں گے اس دوران اپوزیشن اراکین نے شدید نعرے بازی شروع کی اور حکومتی و اپوزیشن اراکین بیک وقت بولتے رہے جنہیں ڈپٹی سپیکر نے خاموش کرایا اور مغرب کی اذان کے بعد نماز کا وقفہ کیا گیا ۔

بعدازاں اجلاس شروع ہوا توجمعیت العلماء اسلام کے مولانا نورا للہ نے کہا کہ صوبائی مشیر عبدالخالق ہزارہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ عدالت کی ہدایت کے مطابق چار سیکٹرز میں منصوبوں پر عمل کیا جارہا ہے ساتھ ہی وہ جوش خطابت میں کہہ گئے کہ انہیں اپنے حلقے میں سکول نہیں کرکٹ اور فٹبال کے گراؤنڈ چاہئیں معلوم نہیں کہ وہ اپنے حلقے کے عوام کو ناخواندہ رکھنا چاہتے ہیں یا پھر ان کے حلقے میں تعلیمی مسائل ہی نہیں مگر میرے حلقے میں تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔

یہاں بیٹھ کر وفاق سے رقبہ ، پسماندگی اور کثیر الجہتی غربت کی بنیاد پر فنڈز مانگے جاتے ہیں تو میرا حلقہ طویل رقبے پر محیط ، پسماندہ اور غربت کا شکار ہے تمام ارکان کو یکساں فنڈز فراہم کئے جانے چاہئیں ۔

انہوں نے بھاگ ناڑی میں پانی کی قلت کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو پانی جانوروں کے پینے کے لئے نہیں ہوتا وہاں کے عوام وہ پانی پینے پر مجبور ہیں جمعیت العلماء اسلام کے شام لعل نے کہا کہ ہم اپنے لئے نہیں اپنے عوام کے لئے بات کررہے ہیں مگر ایک وزیر نے یہاں جس رویے کا اظہار کیا اس سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی بینچ پر بیٹھے وزراء نہیں چاہتے کہ ایوان کا ماحول بہتر رہے ۔

انہوں نے زور دیا کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر آنے والے بھی ایوان کا حصہ ہیں انہیں بھی دیگر ارکان کی طرح یکساں فنڈز اور ترقیاتی منصوبے دیئے جائیں جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ یقینی طو رپر تمام ارکان برابر ہیں اور سب کو یکساں اہمیت ملنی چاہئے ۔

صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے کہا کہ گزشتہ دو اجلاسوں سے اپوزیشن کی جانب سے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے باتیں کی جارہی ہیں جبکہ سب آگاہ ہیں کہ پی ایس ڈی پی عدالت میں ہے۔

ہمارے لئے حکومتی اور اپوزیشن ارکان برابر ہیں ہم ایوان میں پارلیمانی جمہوری ماحول قائم رکھنا چاہتے ہیں مگر اپوزیشن نے جس طرح جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ درست نہیں ، مولانا نوراللہ صاحب نے اپنے حلقے کے مسائل بیان کئے نہ صرف ان کا حلقہ بلکہ پورا صوبہ ان مسائل سے دوچار ہے لیکن یہ بھی بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ماضی میں سب سے زیادہ فنڈز قلعہ سیف اللہ میں جاتے رہے ہیں معلوم کیا جائے کہ یہ فنڈز کہاں گئے ماضی میں پی ایس ڈی پی کے ساتھ جو کچھ کیا جاتا رہا اس کی ذمہ دار وہ جماعتیں ہیں جو بار بار اقتدار میںآ تی رہیں ہمیں تو اقتدار میں آئے صرف آٹھ ماہ ہوئے ہیں تاہم ہمارے لئے تمام ارکان برابر ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بھاگ ناڑی میں پانی کی قلت کے مسئلے کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو بار بار اقتدار میں آتے رہے مگر عوام کو پانی فراہم نہیں کیا ۔ ہماری حکومت ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہے ۔

پشتونخوامیپ کے رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہا کہ بلوچستان کی نصف آبادی کو ترقی کے عمل سے محروم رکھنا درست نہیں ہے ا پوزیشن میں شامل جماعتیں بلوچستان کے حقیقی نمائندے ہیں ہر فورم پر عوام کے حقوق کا دفاع کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی سے متعلق کمیٹی قائم کی جائے بصورت دیگر بلوچستان اسمبلی کے اندر اور باہر شدید احتجاج کرینگے اس موقع پر بی اے پی کے سردار عبدالرحمن کھیتران اور نصراللہ زہرے کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ 

اے این پی کے رکن زمرک اچکزئی نے کہا کہ موجودہ حکومت میں تمام راکین اسمبلی کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ سابق دور حکومت میں اپوزیشن کیساتھ اپنائے گئے رویہ کوہم نہیں دوہرائیں گے ایڈیشنل سیکرٹری ترقیات و منصوبہ بندی قانون کے مطابق عدالتی احکامات کی روشنی میں فنڈز ریلیز کررہے ہیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے کوئٹہ شہر اور بلوچستان کو جام کرنے کی باتیں جمہوری طرز عمل نہیں اس ایوان میں موجودہ منتخب نمائندؤں اور سیاسی جماعتوں کے منشور اور پروگرام میں بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے اقدامات شامل ہیں ۔ بلوچستان کے تمام اضلاع میں برابری کی بنیادپر ترقیاتی منصوبوں شروع کئے جائیں گے ۔ 

انہوں نے کہا کہ موجودہ پی ایس ڈی کے تحت جاری منصوبوں میں قائد ایوان سمیت حکومت میں شامل کسی بھی رکن کا کوئی ذاتی منصوبہ شامل نہیں ہے ، حکومت کے درست فیصلوں کے نتائج جلد عوام کے سامنے آشکار ہوں گے ۔

اس موقع پر ثناء بلوچ نے کہا کہ اپوزیشن بلوچستان کی تعمیر وترقی میں حکومت کیساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہے پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کا جائزہ لینے کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے ۔ پی ایس ڈی پی سے متعلق حکومت کو عدالت سے ہم ریلف دلوائیں گے ۔

بی اے پی کے میٹھا خان کاکڑ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت حکومتی اراکین اپنے ہمراہ فنڈز بٹور کر نہیں لے گی ہے۔ اس موقع پر نصیب اللہ مری اور اپویشن اراکین میں تلخ کلامی کے بعد ایوان میں شورشرابہ سے کان پڑی آواز بھی سناہی نہیں دے رہی تھی ۔