کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر کام کررہے ہیں، پی ایس ڈی پی سمیت کوئی چیز جام نہیں ،کرپشن کرنے والے عناصر کی بہت سی چیزیں جام اورٹھیکیداروں کی دکانیں بند ہوئی ہیں، فنڈز کی برابری کی بنیاد پر تقسیم کا فارمولہ بنایا جارہا ہے ۔
وزیراعظم عمران خان آج سی پیک کے مغربی روٹ اور کوئٹہ کارڈک سینٹر کے ان منصوبوں کا افتتاح کرینگے جن پر ماضی میں تختیاں نصب ہوئیں لولوگوں نے مبارکباد وصول کئے ۔ یہ بات انہوں نے جمعرات کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اٹھائے گئے نکات اور اعتراضا ت کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
وزیراعلیٰ میر جام کمال خان نے کہا کہ قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلی اس میں اپوزیشن کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے حکومت جتنا بھی اچھا کام کرے اپوزیشن کا مزاج ہی ایسا نہیں کہ وہ تنقید نہ کرے یہاں بلوچستان اسمبلی میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے اگر ہم یہ توقع کررہے ہیں کہ اپوزیشن اپنے اپوزیشن کے اس کردار کو چھوڑے گی تو ایسا کبھی نہیں ہوگا بھلے ہم جتنا بھی اچھا کام کریں اپوزیشن اس کی تائید نہیں کرے گی ۔
اپوزیشن ہمیشہ چاہتی ہے کہ وہ اپوزیشن کی بجائے حکومتی بینچوں پر بیٹھے اور حکومتی بنچوں پر بیٹھے اراکین چاہتے ہیں کہ حکومت کریں حکومت شروع ہی یہیں سے ہوتی ہے یہاں بلوچستان اسمبلی میں گزشتہ دو دنوں سے پی ایس ڈی پی کو لے کر کافی باتیں ہوئیں یہ ایک مقدس ایوان ہے جہاں بیٹھ کر ہم صوبے کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں قانون سازی کرتے ہیں ۔
یہاں اپوزیشن کا اپنا کردار ہے اپوزیشن کے احتجاج کی توقع تو ہم کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ اپوزیشن یہاں اس ایوان میں بینراور چارٹ اٹھا کر لائے گی اور اس طرح احتجاج کرے گی اپوزیشن کو یہاں بینر اور چارٹ اٹھا کر احتجاج نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہاں ان کی آواز ہی کافی تھی انہیں آواز اٹھانی چاہئے ۔
انہوں نے کسی رکن کا نام لئے بغیر کہا کہ یہاں ایوان میں جہاز کے پائلٹ اور ٹرک ڈرائیور کی بات ہوئی میں چونکہ زمینی حقائق سے واقف ہوں اس لئے مجھے ٹرک ڈرائیور ہونا قبول ہے کیونکہ جو لوگ زمین پر چلتے ہیں انہیں زمینی حقائق کا پتہ ہوتا ہے ہم صوبے کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں ۔
ہمارے مستقبل کا فیصلہ بھی عوام نے ہی کرنا ہے عوام اپنا فیصلہ الیکشن میں کرتے ہیں ہماری محنت بلوچستان کے لئے جاری ہے اور جاری رہے گی انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اپوزیشن رکن نے عدالتی فیصلے کا صرف ایک پیرا پڑھا اس کے ساتھ جو پیرا ہے وہ انہوں ین نہیں پڑھا عدالت میں ایڈووکیٹ جنرل ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ترقیات)وزراء اور اراکین اسمبلی جاتے رہے ہیں ۔
معزز رکن نے یہ تو بتایا کہ عدالت نے کنفیوژن کا لفظ کہا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیوں کہا ،وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے عدالتی احکامات کی کبھی بھی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ عدالت نے جو گائیڈ لائن دی اس کے مطابق چل رہے ہیں ۔
سب سے بڑا سوال تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ پی ایس ڈی پی میں ہم نے کیا بہتری کی لائی ہے پی ایس ڈی پی جام ہونے کی باتیں کی گئیں جو بالکل درست نہیں اور یہ بات بھی غلط ہے کہ پی ایس ڈی پی خرچ نہیں ہورہی سب کچھ قانون کے مطابق چل رہا ہے اتھارائزیشن ہو یا ریلیزز سب کچھ درست طریقے سے ہورہا ہے 450اسکیمات ہیں جنہیں ہم مکمل کریں گے پی ایس ڈی پی میں شامل یہ 450اسکیمات ہم نے نہیں بنائیں نہ ہماری ہیں لیکن یہ اس صوبے کی اسکیمات ہیں اور ہم انہیں مکمل کرنا ہے ۔
اس حوالے سے ہم نے ایک بڑا زبردست فارمولا بنایا ہے جو یہ ہے کہ وہ اسکیمات جن پر70فیصد سے اوپر خرچ ہوچکا ہے اور جن کی فزیکل پراگریس بھی 70فیصد سے اوپر ہے ہم ان کو مکمل کریں گے۔
ان میں ہمارا کوئی منصوبہ شامل نہیں یہ اس صوبے کے منصوبے ہیں اور ان میں ایسے بھی منصوبے ہیں جو 2005ء کے ہیں یہ ہوتا ہے ایک ذمہ دار حکومت کا طریق کارجس کے تحت ہم چل رہے ہیں گزشتہ پچیس تیس سال میں کسی حکومت نے ایسا نہیں کیا ہم کررہے ہیں ہم پہلی بار پی ایس ڈی پی کو کھول رہے ہیں کچھ بھی جام نہیں البتہ ان عناصر کے لئے ضرور بہت کچھ جام ہے جو کرپشن کرتے تھے ۔
پہلے وزیراعلیٰ ، محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات اور محکمہ خزانہ سب کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا تھا اب ایسا نہیں ہے کوئی بحران نہیں ہے کرپشن والے ضرور بحران میں ہیں اب کم از کم محکمہ خزانہ کو ریلیز کے لئے پیسے نہیں دیئے جاتے نہ ہی پی اینڈ ڈی کو اتھارائزیشن کے لئے پیسے دیئے جاتے ہیں صرف ٹھیکیداروں کی دکانیں بند ہوئی ہیں ۔
پی ایس ڈی پی جام نہیں ہوئی پی ایس ڈی پی چل رہی ہے موجودہ حکومت جو بھی اسکیمات شروع کرے گی اور جو بھی تعمیراتی کام کرے گی اس میں معیار کو اولیت دی جائے گی اور یہ حکومت کوئی دو نمبر کام نہیں کرے گی ۔
انہوں نے پی ایس ڈی پی بک کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس کتاب کو 80فیصد صحیح کردیا ہے اور جس روز یہ 100فیصد صحیح ہوگا اس دن سے بلوچستان کی تقدیر بدلنے میں اس کا اہم کردار ہوگا ۔
موجودہ حکومت صوبے کے عرصہ دراز سے چلے آرہے مسائل کے حل کے لئے کئی کئی گھنٹوں تک بیٹھ کر کام کرتی ہے ہم اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی کررہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ مقامی سطح کے کام مقامی سطح پر ہوں ۔
اس کے بعد صوبائی پی ایس ڈی پی پھر وفاقی پی ایس ڈی پی اور جہاں ضرورت ہو وہاں وفاق اور صوبائی حکومت مل کر سکیمات شروع کریں اور مکمل کریں ہم چاہتے ہیں کہ پہلی ترجیح میں عوام کو درپیش چھوٹے موٹے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں ۔
اس کے بعد صوبائی سطح پھر وفاقی سطح پر کام ہوہم نے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں انتہائی اہم اقدامات اٹھائے جن کا پہلے تصور بھی نہیں تھا پہلی بار ہم ایسے ایسے قوانین بنارہے ہیں جن کے بارے میں پہلے کسی نے سوچا تک نہیں ہمارے ہاں ریکروٹمنٹ پالیسی تیس سال قبل کی چلی آرہی ہے ہم اس میں تبدیلی لارہے ہیں ہم نے ہر ضلع میں دو ہائی سکول تین سے چار مڈل اور چار سے سات پرائمری سکول ہر سال بنانے کا پروگرام رکھا ہے ۔
ہر ضلع میں دوہائی سکول ماڈل سکول ہوں گے جنہیں انٹر کالج کا درجہ دیں گے اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی بہت کام ہورہا ہے ہم تمام ہائی ویز پر ایمرجنسی مراکز بنائیں گے بلوچستان حکومت اپنا کیس خود لڑنا جانتی ہے ہم بلوچستان کے مفاد میں کام کررہے ہیں اور بلوچستان کے مفاد میں کام کرتے رہیں گے ۔
بلوچستان کے مسائل صرف پی ایس ڈی پی کی چار سڑکوں سے حل نہیں ہوں گے اس کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے ہم تمام امور کو دیکھ رہے ہیں صوبے کی تاریخ میں صوبے کے وسائل کے حوالے سے پہلا عملی کام اس موجودہ حکومت نے کیا حکومت بلوچستان کے عوام کو سرزمین کا تحفظ دے رہی ہے زمین کی ملکیت ہمارے اپنے لوگوں کی ہوگی ۔
بلوچستان حکومت بلوچستان کے عوام کی ذمہ دار حکومت ہے قدرتی وسائل اور زمین پر ہم بلوچستان کے عوام کو حق دے رہے ہیں گوادر میں ایک بھی عام آدمی کو زمین الاٹ نہیں ہوئی میں ضمانت دیتا ہوں کہ بلوچستان کے کسی ضلع یا حلقے کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا سب کے ساتھ انصاف ہوگا اور سب کچھ مساوی ہوگا ہم نے سارا ریکارڈ نکالا ہے ماضی میں کسی ضلع کو اٹھارہ ارب اور کسی ضلع کو چند کروڑ جاری ہوئے اب ایسا نہیں ہوگا۔
بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ پورے صوبے میں جو بھی خرچ ہوگا اضلاع او ر حلقوں میں متوازی اور انصاف کے ساتھ خرچ ہوگا ترقیاتی عمل میں اضلاع کی ضروریات کو مد نظر رکھیں گے بلوچستان کے مفاد کو ہر چیز میں مقدم رکھ رہے ہیں ۔
انہوں نے ایوان میں اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان سی پیک کے مغربی روٹ کا افتتاح کرنے آرہے ہیں یہ وہ مغربی روٹ ہے جس کی ماضی میں مبارکبادیں لی گئیں تختیاں بھی لگائی گئیں مگر عملی کام ہم کررہے ہیں دورویہ سڑک بنارہے ہیں کچلاک سے ژوب تک اسی طرح کوئٹہ کارڈیک سینٹر کا افتتا ح بھی وزیراعظم کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے ہماری پارٹی لوگ منتخب نہیں ہوئے مگر ہم کام کررہے ہیں کیونکہ کوئٹہ ہمارا شہر ہے پورا صوبہ ہمارا ہے اور ہم پورے صوبے میں یکساں توجہ کے ساتھ کام کررہے ہیں اپوزیشن کا اپنا کردار ہے وہ اپنا کردار نبھائے ہمیں ان پر کوئی اعتراض نہیں ۔
انہو ں نے کہا کہ ایوان کی قائمہ کمیٹیوں کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے ہم نے قائمہ کمیٹیوں کے حوالے سے اپوزیشن کی تمام باتیں مان لی ہیں اورفراخدلی کا ثبوت دیا ہے ہم بلوچستان کے مفادمیں مل کر جائیں گے اور عوام کے مسائل حل کریں گے ۔
دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ نظام کی تبدیلی آسان نہیں، اچھی طرز حکمرانی کے ذریعہ ہی نظام میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، مصنوعی اور دکھاوے کی سیاست نے ملک کو تباہ کیا صوابدیدی اختیارات نظام کے لئے خطرناک ثابت ہوئے، پی ایس ڈی پی سماجی ترقی کا ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے ماضی میں جس طریقے سے پی ایس ڈی پی بنتی رہی ہیں ان کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ سکا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پائیدار ترقی کے اہداف کی پارلیمینٹرین ٹاسک فورس کے اراکین سے بات چیت کرتے ہوئے کیا جنہوں نے کمیٹی کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی اور لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کے سربراہ ریاض احمد فتیانہ کی قیادت میں ان سے ملاقات کی، وفد میں اراکین قومی اسمبلی روبینہ عرفان، منورہ منیر، آغا حسن بلوچ ودیگر شامل تھے، ملاقات کے دوران اقوام متحدہ کے ایجنڈا میں شامل پائیدار ترقی کے اہداف کے مختلف نکات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے عوامی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، عوام کو بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لئے موجودہ نظام میں بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔
خاص طور سے اختیارات کی مرکزیت کا خاتمہ اور انہیں نچلی سطح تک منتقل کرکے فیصلہ سازی کا اختیار ڈویژن اور ضلع کی سطح تک لے جانے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی، قواعد وضوابط اور فریم ورک کو بہتر بنانا ہوگا۔
انہوں نے بلوچستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان وسیع وعریض صوبہ ہے جہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں غربت زیادہ ہے اور عوام کی مقتدر ایوانوں تک رسائی نہیں ہے، اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ صوبائی حکومت نے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی پالیسی اختیار کی ہے، بھرتیوں سے لے کر ترقیاتی عمل تک تمام فیصلے نچلی سطح پر ہونے سے عوام میں بااختیار ہونے اور شراکت داری کا احساس اجاگر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اختیارات کی مرکزیت عوام کو درپیش مسائل کے تیزرفتار حل میں رکاوٹ رہی ہے، محکمے اور ادارے بڑے امور کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں الجھے رہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت تعلیم، صحت، انفراسٹریکچر اور گورننس کی بہتری پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، عوام باشعورہورہے ہیں، اب انہیں نعروں اور دکھاوے کی سیاست سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں کے بڑے بڑے کیمپس معیاری تعلیم کے لئے ضروری نہیں بلکہ تعداد اور معیار بڑھا کر چھوٹے کیمپس کے ذریعہ بھی تعلیم کو فروغ دیا جاسکتا ہے، کمیٹی کے چیئرمین نے وزیراعلیٰ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اپنے وسائل کے حوالے سے اہم صوبہ ہے جو وزیراعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں جلد ترقی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کے اندر غربت کا خاتمہ، نکاسی آب کے نظام کی بہتری، صحت وتعلیم اور دیگر سماجی سہولیات میں اضافہ، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور انصاف تک رسائی سمیت دیگر عوامل شامل ہیں، حکومت اور عوام کے درمیان سماجی تعلق ہے، سماجی اور سیاسی انصاف عوام کا حق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کو 2030تک حاصل کیا جائے گا جس کے لئے قائم پارلیمانی ٹاسک فورس اپنا کام موثر طریقے سے کررہی ہے اور اس میں صوبائی حکومتوں کی شراکت داری اور تعاون بھی شامل ہے۔