سریاب کے مکین اس شہر کے قدیم ترین باشندے ہیں بلکہ اس شہر کو آبادہی ان لوگوں نے کیا تھا ۔آج بھی کوئٹہ شہر کی سب سے بڑی آبادی ہے جو تمام سہولیات سے محروم ہے ۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے ان کو دوسرے درجے کا شہری گردانا جارہا ہے ۔ ان علاقوں کے رائے عامہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ پانی ‘ بجلی ‘ گیس اور سیوریج کے نظام سے محروم ہیں سب سے اہم ترین معاملہ نکاسی آب کا ہے ۔ اور تمام حکومتوں نے آج تک ان تمام علاقوں کو سیوریج کا نظام نہیں دیا ۔ یعنی صحت مند اور آلودگی سے پاک زندگی گزارنے کا حق چھین لیا ہے ۔ ان علاقوں میں ہر طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف صفائی کا فقدان ہے۔ نہ مقامی ادارے ان علاقوں سے کوڑا کرکٹ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی نکاسی آب کا کوئی منصوبہ آج تک بنایا گیا ہے آئندہ چند سالوں میں بھی اس کے آثار حکومتی سطح پر نظر نہیں آتے کہ سریاب اور اس کے گردونواح میں نکاسی آب کا کوئی بڑا منصوبہ بنے گا اور اس پر عمل درآمد بھی ہوگا ۔ سریاب کے کچھ علاقوں کے لئے ایک چھوٹاسا نالہ بنایا گیا ہے جو سیلابی ریلے‘ خصوصاً پہاڑی علاقوں سے سیلاب اور بارش کے پانی کو نشیبی علاقوں میں لے جاتا ہے ۔ بعض لوگ اور علاقوں میں اس کو سیوریج لائن کے طورپر استعمال کرتے ہیں جو آئے دن بند رہتا ہے اور گندہ پانی روڈ پر وسیع و عریض علاقوں میں زبردست آلودگی پھیلاتا ہے ۔ دنوں تک اس سیلابی نالے کی صفائی تک نہیں ہوتی بلکہ اس میں کسی کوکوئی دل چسپی نہیں کہ اگر ان علاقوں میں زبردست آلودگی کی وجہ سے بیماریاں پھیلتی ہیں تو ان کی بلا سے کیونکہ سریاب میں دوسرے درجے کے شہری رہتے ہیں اور جدید زندگی گزارنے کا ان کو کوئی حق نہیں ۔ پانی کی صورت حال انتہائی خراب ہے ۔ لوگوں کو پینے کا پانی یا گھریلواستعمال کے لئے پانی دستیاب نہیں اور احمق سیٹھ اور افسران یہاں صنعتیں لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکا ہے ۔ اور لوگوں کو ٹینکر مافیا کے رحم وم کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ زرعی ٹیوب ویل کے مالکان کیسکو کے 81ارب روپے کے نادہندہ ہیں ۔ مگر اس کی سزا زمینداروں کو نہیں عام آدمی کو دی جارہی ہے ۔ وہ بھی تیز الیکٹرک میٹر اور طویل لوڈشیڈنگ کی صورت میں ۔ گیس کمپنی نے بھی تیز میٹر لگائے ہیں اور پنجاب کے گیس چوری کابل ہم سے وصول کررہے ہیں بہر حال مقامی سطح پر حالات کو بہتر بنانے کے لئے حکومت ایک پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ بنائے اور سریاب کے تمام علاقوں میں سیوریج کا بہتر نظام قائم کرے بلکہ ہوسکے تو اس کو ’’ خوبصورت کوئٹہ ‘‘ کے منصوبے کا ایک حصہ بنایا جائے۔ اور سریاب کو تمام شہری سہولیات فراہم کریں ۔ سریاب روڈ پر ایک بڑا ٹرنک لائن سیوریج سسٹم کو چلانے کیلئے بنایا جائے اور تمام محلوں اور علاقوں کو اس مین ٹرنک لائن سے ملادیا جائے ۔ یہ ٹرنک لائن اتنا گہرا ہو کہ تمام نشیبی علاقوں کی ضروریات کو پورا کرسکے ۔ یہ انتہائی مناسب موقع ہے کہ نئے بجٹ میں اس کے لئے ایک خطیر رقم رکھی جائے ۔ اس کے ساتھ ہی مقامی انجینئرز یہ مربوط منصوبہ بندی کریں کہ ہر علاقے کے لوگوں کو یہ بنیادی سہولت ملے ۔ وزیراعلیٰ کو اس بات کا کریڈٹ لینا چائیے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں سریاب کے سیوریج نظام کو بنانے کے لئے رقم مختص کی جائے ۔ یہ رقم کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں ہونی چائیے اور یہ گریٹر کوئٹہ کی تعمیر کا ایک منصوبہ ہو اور اس کو تیز رفتاری سے مکمل کیاجائے ۔ سریاب میں سیوریج کے نظام کی تعمیر کے بعد دوسرے علاقوں ’’ دیبہ‘ ہدہ اور دیگر علاقوں کے لئے بھی اس قسم کے منصوبے بنائے جائیں ۔ کوئٹہ سے متعلق یہ مشہور ہے کہ دنیا کا دوسرا بڑا آلودہ شہر ہے اور ہم اس کے باسی ہیں جو اس آلودگی کو ختم کرنے کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔