|

وقتِ اشاعت :   April 2 – 2019

جب کسی معاشرے میں انصاف مہنگا ہوجاتا ہے اور معاشرہ ذہنی پسماندگی کی سارے حدیں عبور کرلیتا ہے، جب غلط کو غلط کہنے اور سچ کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں رہتی، تب ہمارے زوال کا سفر تیز تر ہوتا جاتا ہے۔اب تو شکر ہے کہ حا کمان وقت کسی بھی کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو سوشل میڈیا پر عوامی احتجاج سے اس سے اجتناب کرتے ہیں۔ 

لیکن پاکستان میں ایک ایسا صوبہ بھی پایا جاتا ہے جسے ملک کا تجربہ گاہ کہا جاسکتا ہے۔ تجربات کامیاب ہوں یا ناکام، ان کو سب سے پہلے یہیں اپلائی کیا جاتا ہے۔ اب کی بار بلوچستان حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ملازمین کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگانے کی سمری تیار کرلی ہے۔سن2000 کے بعد انٹرنیٹ کی دنیا میں کچھ ایسی سوشل میڈیا سائٹس سامنے آئیں جنہوں نے نا صرف لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب کردیا بلکہ ہزاروں کلومیٹرز کے فاصلوں کو بھی ختم کردیا۔ فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، ٹوئٹر اور سنیپ چیٹ جیسی سائٹس نے مردوخواتین، نوجوان، بوڑھوں، ملازمین، طلباء ، وزراء ، بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور یہاں تک کہ بچوں کو بھی اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔ 

فیس بک وٹس ایپ گروپ کے اشتراک نے اب سروس کو مزید بہتر بنایا اور اب لوگ فیس بک کے بعد وٹس ایپ پر بھی آگئے اور معلومات عامہ کو عام کرنے کے لئے اپنی طرف سے نئی صحافت کی ابتداء کردی۔ وٹس اپ گروپس اور فیس بک پیجز بن گئے جس میں معاشرتی مسائل پر ہر کسی کو بلا کسی روک ٹوک کے اظہار رائے کی آزادی حاصل ہوگئی لیکن بلوچستان حکومت کو ان گروپس اور پیجز سے خطرات لاحق ہیں اور وہ ان پر پابندی لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ملازمین کو ان گروپس اور پیجز سے خیر باد کہنے کا حکم صادر کیا جارہا ہے۔جدید جمہوری قومی نظام میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے۔ 

یہ معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ میڈیا نے لوگوں کو مختلف علاقائی، قومی، بین الاقوامی، سماجی، معاشی اور سیاسی موضوعات پر آگاہی، تربیت و رہنمائی فراہم کرکے معاشرے میں انقلاب برپا کردیا ہے۔اس کی اہمیت واچ ڈاگ کی سی ہے جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے، عوام کے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرتا ہے۔ اصلاح معاشرہ اور ملک کو مشکلات کی گرداب سے نکالنے کیلئے بھی میڈیا رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ حکومتی وزراء تنقید کو بالکل پسند نہیں کرتے وجہ یہ ہے کہ مقامی پرنٹ میڈیا پر ایسا ممکن نہیں لیکن سوشل میڈیا پر ایسا کرنا ان کے نزدیک ریاست اور حکومت کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے یعنی ہمارے حکمران مسائل کی نشاندہی، بیڈ گورننس کی خبروں اور عوامی غم و غصے سے آنکھیں بند کرکے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

جہاں تک میرا خیال ہے پرنٹ میڈیا بھی اس وقت مفادات کی جنگ میں اپنی ذمہ داریوں کو دیوار سے لگا رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام اب پرنٹ میڈیا پر انحصار نہیں کرتے۔سو ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا عوام ہو یا ملازم کیلئے ایک غیر جانبدار متبادل سہولت بن کر ابھر آیا ہے جہاں پر حکومتی کارکردگی پر نکتہ چینی کرنا بلوچستان حکومت کو گوارا نہیں۔ہاں البتہ رپورٹنگ میں توازن لازمی ہے۔
جناب عالی مقام!

سوشل میڈیا اس وقت انسانی زندگی کی ضرورت بن چکی ہے۔حقائق کا پرچار لازمی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ جمہوری بن کر دکھائے یہی اس قوم کی ضرورت ہے اور ملازمین کا مطالبہ ہے۔ عوام اور بلوچستان ملازمین سے مطالبہ ہے کہ شعور ہمارے معاشرے میں اس وقت ناپید ہوچکی ہے لہذا اس بہترین پلیٹ فارم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اخلاقیات، معاشرتی رواداری، بین المسالک ہم آہنگی اور معاشرتی میل ملاپ کیلئے عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جب تک ہمارے عوام ایک دوسرے کے قریب آکر مکالمہ نہیں کرتے معاشرتی مسائل کا حل مجھے کم از کم ناممکن نظر آتا ہے۔

لہذا عرض یہ ہے کہ دنیا اب پیپر سے نکل کر سافٹ اور الیکٹرانک کی دنیا میں داخل ہوچکی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سہولت کو مثبت انداز میں استعمال کرکے معاشرے کو کرپٹ عناصر کی حکمرانی سے چھٹکارہ دلانے کی کوشش کریں اور حکومت ایسی پابندی کا نہ سوچے۔