بلوچستان کے سرحدی حدود میں واقع گولڈ اینڈ کاپر کمپنی سیندک پراجیکٹ جوکہ بلوچستان اور ضلع چاغی کی ترقی سے تعبیر ہے مگر حقیقتاً یہ ایک استحصالی پراجیکٹ ہے جو کہ ہمسایہ ملک چین کی شراکت سے جاری ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان شرکت داری سے چلنے والے اس پراجیکٹ سے مقامی آبادی کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا ، منافع میں چین کو 48 فیصد،پاکستان کو 50 فیصد اور 2 فیصد بلوچستان کو دیا جاتا ہے اور یہ 2فیصد بھی چینی کمپنی کے سی ایس ار فنڈز کے مد میں دی جاتی ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے پچاس فیصد میں سے ایک بھی فیصد بلوچستان سمیت ضلع چاغی کی تعمیر وترقی پر خرچ نہیں کی گئی ہے جوکہ اہل بلوچستان کے ساتھ سفاکانہ ظلم اور ناانصافی کے مترادف ہے۔
سیندک کیساتھ جڑے ملحقہ کلیوں میں پراجیکٹ کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے بنیادی سہولیات کا فقدان ہے پراجیکٹ کی جانب سے ہسپتال میں مریضوں کیلئے صرف چیک اپ فری ہے ادویات اور دیگر ضروری ٹیسٹوں کے پیسے لیے جاتے ہیں،کلیوں میں بجلی اور پانی کی بھی سہولت میسر نہیں ہے سیندک کے آس پاس درجن سے زائد کلیوں جن میں کلی حمل آب ،خواستی میں ایک ایک سرکاری پرائمری سکول جبکہ ایک اسکول پراجیکٹ میں ہے جن کو بھی پراجیکٹ کی جانب سے کوئی سہولت نہیں دی جاتی ہے ۔
اس کے علاوہ کلی صمد،کلی سائیندک سرور،کلی ہرے نر و دیگر کلیوں میں نہ سرکاری سکول ہے اور نہ ہی پراجیکٹ کی جانب سے یہاں درس و تدریس کی سہولت دی گئی ہے سینکڑوں بچے سکول نہ ہونے کی وجہ سے جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں، سونے تابنے کی سرزمین کے باسیوں کو پختہ سڑکیں سمیت کسی بھی کلی میں علاج معالجے کیلئے کوئی ڈسپنسری کی سہولت نہیں دی گئی ہے ،مقامی باشندوں کیلئے روزگار کے ذرائع نہ ہونے سے کمپنی میں بھی روزگار کا کوئی کوٹہ نہیں ہے ۔
دوردراز کلیوں کے بچوں کو سکول پہچانے کیلئے کوئی بس نہیں ہے،ملازمین کیساتھ کمپنی منیجمنٹ کا رویہ تعصبانہ اور مزدورکش ہے ،یونین سازی پہ مکمل پابندی ہے کوئی ملازم اپنے جائز حقوق کیلئے آواز بلند نہیں کرسکتا، دوران ڈیوٹی اگر کوئی ملازم طبعی یا حادثی موت مرے تو کمپنی کی جانب سے کوئی انشورنس نہیں ہے۔
چند واقعات میں پراجیکٹ میں ایکسیڈنٹ یا ہارٹ اٹیک ہونے والے ملازمین کیلئے کمپنی کی جانب سے امداد یا تعاون کی عدم فراہمی کی صورت میں کمپنی ملازمین نے چندہ کرکے انہیں انکے گھر پہنچائے ہیں، ان تمام ستم ظریفیوں کے باوجود گزشتہ دنوں پراجیکٹ انتظامیہ نے دالبندین سے اپنے منظور نظر صحافیوں کو پراجیکٹ کا وزٹ کراکر صرف خود ملاقات کرکے سب ٹھیک ہونے کی ترجمانی کی۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان صحافیوں نے کسی بھی متاثرہ ملازمین سے ملاقات نہیں کی اور نہ ہی کمپنی کے ذمہ داروں کے سامنے علاقوں کے مسائل پیش کیے ۔
وہ صرف ان ملازمین سے ملے جو کمپنی کے چہیتے تھے جو افیسران اور انتظامیہ کی صرف چاپلوسی بیان کرتے رہے ۔ سیندک پراجیکٹ جوکہ ضلع چاغی خاص کر تفتان اور نوکنڈی تحصیلوں کے سنگم میں ہوتے ہوئے ان شہروں میں کوئی ترقی و خوشحالی نظر نہیں آتی ۔ تفتان میں تاحال کوئی معیاری کام نہیں ہوا ہے ایک ہیلتھ سینٹر اور ایک چورنگی پارک عوام کی دکھوں کا مدوا نہیں ہوسکتا، اسی طرح نوکنڈی میں اس وقت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کی ذاتی دلچسپیوں سے کچھ کام ہوئے، سابق عوامی نمائندے اور ایس ایم ایل کی ملی بھگت سے یہ واٹر سپلائی اسکیم کمیشن اور کرپشن کی نظر ہوئے۔
گھٹ واٹر سپلائی اسکیم سیندک پراجیکٹ کے سی ایس ار فنڈز سے جوکہ کم وبیش 39 کروڑ کے قریب 2014 کو شروع ہوا تھا جسے تین سالوں میں مکمل ہونا تھا لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود تاحال عوام کو پانی کی سہولت میسر نہیں ہے۔ ناقص پائپ لائن اورپمپنگ مشینز اور انتہائی سستے داموں کے سولر پلیٹس کی خریداری سپلائی اسکیم کی کرپشن اور کمیشن خوری کو ظاہر کرتا ہے اور اسکے ساتھ شہر بھر میں سولر اسٹریٹ لائٹس بغیر منصوبہ بندی کے لگائے گئے کیونکہ موسمی حوالے سے نوکنڈی میں دو سے تین مہینے طوفانی ہوائیں چلتی ہیں۔ لیکن ان تمام حالات میں سولر لائٹس کیلئے آئینی فریم نہ بنانا اس کام کو ناکامی کی طرف دھکیل دیا اور آدھے سے زیادہ سولر لائٹس طوفانی ہواؤں کی زد میں آگئے ۔
ان لائٹس پر بھی علاقے کے عوامی سماجی حلقوں نے کمیشن اور کرپشن کے الزامات لگائے کہ جان بوجھ کر ایسی اسکیمیں ڈائزن کی گئیں کہ زیادہ سے زیادہ کمیشن اور کرپشن کا بازار گرم ہو ۔سیندک جوکہ ضلع چاغی میں ایک زندہ پراجیکٹ ہے جبکہ سی ایس ار فنڈز یہاں پر خرچ نہیں ہورہے اور سی ایس ار فنڈز پہ کوئی تحریری معاہدہ بھی ہے کہ نہیں ؟ آیا کہ اس دو فیصد پہ حق کس کا بنتا ہے؟ضلع چاغی یا پورے بلوچستان! کیونکہ ہر دور کے وزیراعلیٰ نے یہ فنڈز اپنے اپنے علاقوں میں خرچ کیا ہے ماسوائے ڈاکٹر مالک بلوچ کے جنہوں نے اس فنڈز کو ضلع چاغی کے عوام کی ملکیت سمجھ کر دیا لیکن ایک طبقے نے ان ترقیاتی کاموں کو اپنے کارنامے ظاہرکرکے ضلع چاغی کے سادہ لوح عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دیا۔۔قسط نمبر1
سیندک !ترقیاتی یا استحصالی پراجیکٹ
وقتِ اشاعت : April 2 – 2019