اسلام آباد: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نےفوج اور دفاعی اداروں کے خلاف جاری میڈیا ٹرائل بند کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ آزاد میڈیا ، باعزت اور باوقار دفاعی ادارے ملک کی اہم ضرورت ہیں تاہم دفاعی اداروں کی عزت، وقار اور ان کے احترام کے تحفظ کو یقینی بنانا ہماری آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔
جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘کوئی بھی اس غلط فہمی یا ابہام میں نہ رہے کہ دفاعی اداروں کی عزت، وقار اور ان کے احترام کے تحفظ میں حکومت کہاں کھڑی ہے’۔
نثار نے کہا کہ یہ ہماری حکومتی ہی نہیں بلکہ آئینی اور قانونی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم اپنی افواج، دفاعی اور انٹیلی جنس اداروں کے عزت و وقار کا تحفط کریں اور یہ ذمہ داری ہمیں صرف قانون نے نہیں آئین نے سونپی ہے۔
انہوں نے حامد میر، ان کے خاندان اور ادارے سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بطور وزیر داخلہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے مگر بطور پاکستانی اور حکومتی وزیر کے میری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ ہم دفاعی اداروں کے آئینی اور قانونی تحفظ کو یقینی بنائیں۔
چوہدری نثار نے کہا کہ سندھ پولیس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں وفاق مکمل تعاون اور معاونت کر رہا ہے۔ دوسری طرف اعلیٰ ترین عدلیہ کا تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا ہے جو 21 دنوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا پابند ہے۔
‘اس پس منظر میں چاہیے تو یہ تھا کہ جو بھی ثبوت ہوں وہ پولیس یا عدالتی کمیشن کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ بامقصد تحقیقات آگے بڑھ سکیں مگر بدقسمتی سے ابھی تک یکطرفہ میڈیا ٹرائل جاری ہے اور اس کا ایک عکس کل شام سات بجے حامد میر کے بھائی کے ایک بیان سے سامنے آیا’۔
انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ یہ بیان اس طرح سامنے آنے کی بجائے پولیس یا عدالتی کمیشن کے سامنے آتا جہاں ثبوت اور شواہد بھی پیش کئے جاتے۔ نثار نے گزشتہ روز زخمی صحافی کے بھائی کی جانب سے جاری بیان میں اسلام آباد پولیس کو اطلاع دیے جانے کے باوجود ان کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کرنے کے الزام کو مسترد کردیا۔
‘اس بیان میں اسلام آباد پولیس کا بھی ذکر آیا اور اس کو بھی کارروائی نہ کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا گیا، میں نے گذشتہ رات ہی اس الزام کی تحقیقات کی ہدایت کر دی تھی، اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں، کل کے میڈیا بیان کے برعکس اول تو موجودہ حکومت کے دور میں نہ تو اسلام آباد میں حامد میر کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا اور نہ ہی انہوں نے اسلام آباد پولیس کو کوئی شکایت کی اور نہ ہی کوئی ٹیلی فون نمبر فراہم کیا گیا تھا’۔
چوہدری نثار نے کہا کہ میری ہدایات کے نتیجے میں حامد میر کی اہلیہ اور ان کے بھائی سے پولیس نے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ جن دو واقعات کا عامر میر کے تحریری بیان میں حوالہ دیا گیا ہے ان میں سے ایک 2012ء میں ہوا اور بچوں کے حوالے سے واقعہ پانچ سال قبل ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فوری طور پر دونوں واقعات کا اس پس منظر میں ریکارڈ نکلوایا اور تحقیقات کیں اور انکشاف کیا کہ سابقہ دور حکومت میں پولیس افسران کے مطابق بچوں کے حوالے سے واقعے کی کوئی رپورٹ کی گئی نہ اس کا کوئی ریکارڈ موجود ہے اور نہ ہی متعلقہ افسران نے اس کی تصدیق کی ہے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ حامد میر پر حملے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرانا ہماری ذمہ داری ہے مگر میڈیا ٹرائل بند ہونا چاہئے کیونکہ اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔
‘حامد میر کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس پر پوری قوم متفق ہے اور دوسرا بلا ثبوت اور شواہد کے میڈیا ٹرائل شروع کر دیا گیا۔ اس کا فائدہ ہندوستانی اور امریکی میڈیا چینل نے بھرپور اٹھایا ہے، ملک میں آزاد میڈیا کی بھی ضرورت ہے، باعزت اور باوقار دفاعی ادارے بھی اس ملک کی ضرورت ہے، ہم سب کو ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے معاملہ کو سلجھانے اور ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے’۔ اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اگر ایجنسیوں کی مدد ہمیں نہ ہوتی تو ہم اس حد تک نہ پہنچ سکتے۔
ایک اور سوال کے جواب میں نثار نے کہا کہ بطور وزیر داخلہ وہ موجودہ صورتحال میں فریقین کے درمیان صلح کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔