کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حذب اختلاف کی جماعتوں کا ترقیاتی منصوبوں سے متعلق اعتماد نہ لینے پر اسپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج ایوان سے ٹوکن واک آؤٹ کیا ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل چمن ، تحصیل قلعہ عبداللہ اور تحصیل گلستان کو سوئی گیس سے فراہمی اور دالبندین تا زیارت بالانوش ڈسٹرکٹ چاغی کی سڑک کی تعمیر سے متعلق قرار دادیں منظور کرلی گئیں۔
گزشتہ روز اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں لوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت بہت سے مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے اور بلوچستان اس وقت ایک بحرانی کیفیت سے گزررہا ہے ۔
صوبے میں پی ایس ڈی پی کے مسائل ہیں بلوچستان کی ترقی کا پہیہ پی ایس ڈی پی کے اجراء سے چلتا ہے 88ارب روپے میں سے 33ارب روپے ریلیز کئے گئے ہیں اب تک پی ایس ڈی پی کا30فیصد بھی ریلیز نہیں ہوا ۔
پی ایس ڈی پی پر عملدرآمد نہیں ہوا تو نئی اور پرانی سکیمات کو کس طرح سے مکمل کیا جاسکتا ہے ۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ یہاں صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل ہیں اور گزشتہ ستر سالوں سے بلوچستان کا پہیہ صحیح ٹریک پر نہیں چلا جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے جارہے ہیں اگربلوچستان کے مسائل کو منظم انداز سے حل کیا جاتا تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی ہرڈویژن اور ضلع کے اپنے مسائل ہیں یہاں زراعت کا شعبہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔
سرحدی تجارت نہیں ہورہی صوبائی حکومت کے دو سو پچاس دن گزرگئے اب تک کچھ نہیں کیا گیا صرف اور صرف 250دنوں میں 750ٹرانسفر پوسٹنگز کی گئیں ہمارا کسی سے اختلاف نہیں لیکن ہم صوبے میں اچھی طرز حکمرانی کے خواہاں ہیں اسمبلی میں ایسی کمیٹی بنائی جائے جس میں ٹیکنیکل لوگوں کو شامل کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت محکمہ تعلیم میں9ہزار جبکہ دیگر محکموں میں اٹھارہ ہزار آسامیاں خالی ہیں محکمہ تعلیم میں تعیناتیاں نہ ہونے سے بچوں کی تعلیم کا حرج ہورہا ہے بھاگ ناڑی کے لوگ صاف پانی کے لئے ہڑتال پر مجبور ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے فنڈز جاری کرنے میں رویہ ایسا ہے جیسے یہ رقم ان کی اپنی ہے پی ایس ڈی پی کی رقم بلوچستان کے لوگوں کی رقم ہے جو وہ ٹیکس کی صورت ادا کرتے ہیں بلوچستان کے حالات کو مد نظر رکھ کر ایسی کمیٹی بنائی جائے جس میں ٹیکنیکل لوگ شامل ہیں ۔
تاہم صوبے کے عوام کو ان کے حقوق دلائے جاسکیں انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال سے ہمارے حلقے میں دس لاکھ روپے پی ایچ ای کی مد میں جاری نہیں کئے گئے اور لوگ صاف پانی کے لئے ترس رہے ہیں ایوان میں این ایف سی ایوارڈ ، خشک سالی ، سیندک اور پی ایس ڈی پی پر قرار دادیں پیش ہوئیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔
انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ سے متعلق اجلاس میں بلوچستان کی جانب سے نمائندگی ہی نہیں ہوئی حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بلوچستان حکومت خصوصی طو رپر تیاری کرکے جاتی ۔
بلوچستان میں بہت زیادہ مسائل ہیں یہاں کثیر الجہتی غربت ہے جس سے نمٹنے کے لئے کلاسک اور مضبوط لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو جا کر بلوچستان کا کیس لڑے اس وقت فاٹاکے خیبرپشتونخوا میں انضمام کے بعد خیبر پشتونخوا مزید شیئرز کا مطالبہ کررہا ہے اورہم نے اب تک سمت ہی طے نہیں کی ہم بلوچستان کوا یک سمت دینا چاہتے تھے ۔
انہوں نے طلبہ تنظیموں پر پابندی سے متعلق اخباری بیانات کے حوالے دے کر بات آگے بڑھانی چاہئے تاہم صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے اس دوران سپیکر سے استفسار کیا کہ فاضل رکن کس نکتے پر بول رہے ہیں کیونکہ پوائنٹ آف آرڈر پر اتنی لمبی تقریر نہیں ہوسکتے ۔
جس پر سپیکر نے کہا کہ مسائل زیادہ ہیں اس موقع پر سردار کھیتران ، انجینئرزمرک اور ثناء بلوچ کے مابین مختلف جملوں کے تبادلے بھی ہوتے رہے ایک موقع پر سپیکر نے کہا کہ گورنمنٹ کے پاس کرنے کوکام نہیں ، سپیکر بار بار اپوزیشن اور حکومتی اراکین کو چپ رہنے کی تاکید بھی کرتے رہے ۔
سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے عوامی مفاد کے نکتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں مسلسل پانچویں بار اس مسئلے پر بات کررہا ہوں کہ سپیکر نے رولنگ دی تھی کہ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات سے پی ایس ڈی پی سکیمات کی تفصیل طلب کرکے ایوان کو مہیا کی جائے گی اور پی ایس ڈی پی پر کمیٹی کا اعلان کیا جائے گا مگر تاحال اس کمیٹی کا اعلان نہیں کیا جارہا جس پر ہم ٹوکن واک آؤٹ کرتے ہیں جس کے بعد اپوزیشن اراکین ایوان سے اٹھ کر چلے گئے ۔
صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ میں نے اپوزیشن رکن کی تقریر کے نکات نوٹ کئے انہوں نے پی ایس ڈی پی ، بلوچستان کی ترقی ، مسائل ، ٹرانسفر پوسٹنگ ، اٹھارہویں ترمیم اور طلبہ تنظیموں کے مسائل پر بات کی پوائنٹ آف آرڈر پر اتنی لمبی لمبی تقریروں کی اجازت نہ دی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ تنقید کرے اور یہ تنقید برائے تعمیر ہو اپوزیشن پی ایس ڈی پی پر جس کمیٹی کا مطالبہ کررہی ہے وہ ممکن ہی نہیں پی اینڈ ڈی کی قائمہ کمیٹی بن چکی ہے اس کے ہوتے ہوئے دوسری کمیٹی کیسے بنائی جاسکتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن یہاں مسائل کی نشاندہی کرے ہم ان کے اٹھائے گئے نکات اور دی گئی تجاویز کو نوٹ کرتے ہیں اور جہاں خامی یا کمزوری ہوتی ہے ہم بہتری کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں اپوزیشن کا رویہ درست نہیں ۔
جس پر نواب محمد اسلم رئیسانی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت صرف یہ بتائے کہ وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے یا نہیں ، ہم بلوچستان کے ہر مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں ہم پی ایس ڈی پی پر بھی بات کرنا چاہتے ہیں مسنگ پرسنز کے مسئلے پر بھی بولنا چاہتے ہیں ہم سی پیک پر بات کرنا چاہتے ہیں ہم صوبے میں زمینوں کی الاٹمنٹ کے معاملے پر بات کرنا چاہتے ہیں ۔
صوبائی وزیر انجینئر زمرک نے کہا کہ نواب ہمارے بڑے ہیں وہ خود وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں انہیں تمام چیزوں کا پتہ ہے کچھ روایات اور رولز ہیں جن کی پاسداری کرنی چاہئے ہم ان قواعد کو پامال نہیں کرنا چاہتے اس دوران ایک بار پھر اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے مابین تندوتیزجملوں کا تبادلہ شروع ہوا جووقفے تک مسلسل جاری رہا۔
اجلاس میں اپوزیشن کے شدید شور شرابے ، ڈیسک بجانے اورشدید نعرے بازی کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے سنجاوی واقعے سے متعلق تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ 20مارچ کو ضلع زیارت کے علاقے سنجاوی کے قریب لیویز چیک پوسٹ پر نامعلوم افراد کے حملے میں چھ اہلکار شہید ہوگئے زیارت جیسے پرامن علاقے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے چونکہ یہ ایک اہم نوعیت کاعوامی مسئلہ ہے ۔
اس لئے ایوان کی کارروائی روک کر اس اہم مسئلے کو زیر غور لایا جائے اس موقع پر سپیکر نے اسی معاملے پر پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے کی تحریک التواء ایوان میں سناتے ہوئے ایک ہی مسئلے پر لائی گئی دونوں تحاریک کو کلب کیا اور کلب شدہ تحریک التوا پر اجلاس کے آخر میں بحث کرانے کی رولنگ دی ۔
اجلاس میں صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی ، ملک نعیم خان بازئی ، اصغرخان اچکزئی اور شاہینہ کاکڑ کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل چمن ، تحصیل قلعہ عبداللہ اور تحصیل گلستان سوئی گیس جیسی قدرتی نعمت سے محروم ہیں جس کی وجہ سے علاقے کے عوام کوسخت مشکلات کا سامنا ہے ۔
لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ اس اہم عوامی مسئلے کے حل کے لئے تحصیل چمن ، تحصیل قلعہ عبداللہ اور تحصیل گلستان کے لئے سوئی گیس کی منظوری کے لئے اقدامات اٹھائے تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہو ۔
انہوں نے کہا کہ اس اہم مسئلے پر ہم نے سابق دور حکومت میں بھی ایک قرار داد پاس کی تھی مگر منصوبے کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہیں ہوا ہم چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت ضلع قلعہ عبداللہ کے عوام کے اس اہم مسئلے کو حل کرائے اس لئے ایوان اس قرار داد کی منظوری دے ۔
اس دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے مسلسل ڈیسک بجانے اور پی ایس ڈی پی کے معاملے پر شور شرابے کا سلسلہ جاری رہا اپوزیشن اراکین کے جاری احتجاج کے دوران صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہ نصیر آباد ڈویژن کے علاقے بھی گیس کی سہولت سے محروم ہیں قرار داد میں نصیر آباد سمیت پورے بلوچستان کو شامل کیا جائے ۔
انہوں نے اپوزیشن بینچز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے حلقوں کو بھی اس قرار داد میں شامل کیا جائے ان کے حلقوں کے لوگ بھی گیس کی سہولت سے محروم ہیں مگر یہ لوگ یہاں اس مسئلے پر بات نہیں کرتے بعد ازاں ایوان نے مشترکہ قرار داد کو ترمیم کے ساتھ منظور کرلیا ۔
اجلاس میں صوبائی وزیر میر عارف محمد حسنی اور بشریٰ رند کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کی مشیر بشریٰ رند نے کہا کہ یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ دالبندین تا زیارت بلا نوش ڈسٹرکٹ چاغی سڑکی تعمیر جو عرصہ دراز سے تعطل کا شکار ہے کی تعمیر کو فوری طو رپر ہنگامی بنیادوں پر اٹھائے اور نیشنل ہائی اتھارٹی کو تاکید کی جائے کہ وہ جلد ازجلد اس سڑک کی تعمیر کو یقینی بنائے تاکہ وہاں کے عوام کو مواصلات کی بہتر سہولیات میسر ہوسکیں ۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس منصوبے کے لئے فنڈز کی منظوری بھی دے دی ہے لیکن یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے اس قرار داد کو منظور کیا ائے تاکہ حائل رکاوٹوں کو دور کیا بعدازاں سپیکر نے مذکورہ مشترکہ قرار داد بھی ایوان کی رائے سے منظور کرنے کی رولنگ دی واضح رہے کہ قرار داد پیش ہونے سے لے کر اس کی موزونیت پر بات کرنے اور جس وقت اسے منظوری کے لئے ایوان کے سامنے رکھا جارہا تھا ۔
اس وقت بھی اپوزیشن اراکین کی جانب سے پی ایس ڈی پی کے معاملے پر شدید احتجاج کا عمل جاری رہا جس کے دوران اپوزیشن اراکین صوبائی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے رہے اور مسلسل ڈیسک بھی بجاتے رہے جس کے باعث ایوان میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دی۔
اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے اپوزیشن اراکین کے رویے اور طرز احتجاج کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے جب بھی سنجاوی کے واقعے پر ایوان میں بحث ہوتی ہے اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ کیاجاتا ہے یہ احتجاج کا کیسا طریقہ کار ہے جوسنجاوی واقعے پر بحث کے دوران استعمال کیا جاتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ عجیب سسٹم ہے ہم کہتے ہیں کہ خون بہا ہے اس خون پر بات کریں اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں ہمیں نالی، ڈانگہ اور ٹرانسفارمر پر بات کرنی ہے انہوں نے کہا کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اپوزیشن کو یہ کام سونپا گیا ہے مگر ہم انہیں اس ایجنڈے میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔
اس دوران اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے بیک وقت بولنے کے باعث ایوان میں شدید بدمزگی پیدا ہوئی تاہم سپیکر نے اجلاس میں وقفے کی رولنگ دے دی ۔
بعدازاں اجلاس دو گھنٹے کے وقفے کے بعد ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت دوبارہ شروع ہوا تو پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ موجودہ اجلاس اپوزیشن احتجاج اور حکومت کی بے حسی کی وجہ سے شور شرابے کا شکار ہوا ہے ہماری کوشش ہے کہ اجلاس افہام و تفہیم سے چلے ہمیں بتایاگیا کہ پہلے کی طرح روایات پر عمل کریں لیکن اسمبلی روایات میں یہ بھی نہیں ہوتا کہ علاقے کے منتخب نمائندے کو نظر انداز کرکے کسی ہارے ہوئے شخص سے علاقے سے کام کروائے جارہے ہوں۔
ہم نے پی ایس ڈی پی پر بارہ دن بحث کی اور یہی مطالبہ کیا کہ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں اپوزیشن اور حکومت مل کر پی ایس ڈی پی کا جائزہ لیں پچھلے اجلاس میں امید تھی کہ قائد ایوان پی ایس ڈی پی پر بات کریں گے لیکن انہوں نے انتہائی جارحانہ تقریر کی جب تک ہمارے حلقوں میں مداخلت اور پی ایس ڈی پی سے متعلق کمیٹی نہیں بنتی ہم اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے عوام بے چین ہیں ہم ان کی خدمت نہیں کرسکتے ۔
اپوزیشن کے حلقو ں میں بلوچستان عوامی پارٹی کے منظورنظر افراد اپنی مرضی کے افراد کو تعینات کرکے ان سے کام کروارہے ہیں اگر حکومت ہمیں منتخب نمائندہ تسلیم کرتی ہے تو ہمارے حلقوں میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے حقوق مزید سلب کئے گئے تو اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج کریں گے حکومت اگر ہم آہنگی سے ایوان کو چلانا چاہتی ہے تو پی ایس ڈی پی اور اپوزیشن حلقوں کو نظر انداز کرنے اور ان میں مداخلت کی روک تھام کے لئے کمیٹی بنائے لیکن حکومت کے رویے سے یہی لگ رہا ہے کہ ان کے اپنے وزراء میں بھی ہم آہنگی نہیں ہے کیونکہ وہ ہمیں کوئی بھی یقین دہانی کرانے سے قاصر ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں وزارت نہیں حقوق چاہئیں ۔
سنجاوی میں پیش آنے والا دہشت گردی کا واقعہ افسوسناک ہے اور اس میں ضائع ہونے والی جانوں پر دکھ ہے لوگ احتجاج کررہے ہیں حکومت ان کی داد رسی کرے ۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ عوام نے اپوزیشن کے 24ارکان اسمبلی کو منتخب کرکے اس ایوان میں بھیجا ہے لیکن حکومت ہمیں مسلسل نظر انداز کررہی ہے جس کی وجہ سے صوبے کے پچاس لاکھ لوگوں کی حق تلفی ہورہی ہے حکومت کاکام ٹھپ ہے ۔
صوبے میں امن وامان کی صورتحال خراب ہورہی ہے کوئٹہ شہر میں 83دکانیں لوٹ لی گئیں اور پولیس غلط بیانی کرتے ہوئے 20دکانیں لوٹے جانے کا دعویٰ کرتی ہے سپیکر ایک کمیٹی تشکیل دیں جو پی ایس ڈی پی پر بات کرے اگر ہمیں حقوق نہ ملے تو اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج کریں گے اور اسمبلی کے باہر اسمبلی لگائیں گے۔
صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ گزشتہ روز محکمہ خوراک میں گندم کی بوریاں خراب ہونے کی خبر کی سختی سے تردید کرتا ہوں اور متعلقہ ادارے کے خلاف عدالت سے رجوع کروں گا ۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے گندم کی تین لاکھ بوریاں سبسیڈائز ریٹ پر مارکیٹ میں دی ہیں جس سے آج گندم کا اسٹاک ختم ہے اور کسی بھی قسم کی گندم خراب نہیں ہوئی جس گندم کی بات کی جارہی ہے وہ2016ء کی کیس پراپرٹی ہے جس پر بھی متعلقہ حکام سے بات چیت کی جارہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایوان میں ہر محکمے کی کمیٹی بنی ہوئی ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے نمائندے شامل ہیں اگر کسی نے بات کرنی ہے تو وہ کمیٹی میں بات کرے اور اگر کمیٹی سمجھے گی تو وہ ضرور ایوان کو آگاہ کرے گی کہ اس حوالے سے مزید بات کی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہماری حکومت نے این ایف سی ، مسنگ پرسنز ، میرٹ کے برخلاف کام ہوئے ہیں تو ہم اس پر بات کرنے کو تیار ہیں اور جو بھی اپوزیشن کی تشویش ہے اسے دور کریں گے لیکن جب قانون ہی علیحدہ کمیٹی بنانے کی اجازت نہیں دیتا تو ہم کیسے کمیٹی بنا سکتے ہیں ۔
ڈپٹی سپیکر بابر موسیٰ خیل نے سردار عبدالرحمان کھیتران سے استفسار کیا کہ آخر کمیٹی بنانے میں مسئلہ ہی کیا ہے حکومت کیوں ہچکچارہی ہے ؟ جس پر سردار عبدالرحمان کھیتران نے جواب دیا کہ اسمبلی قواعد اس بات کی اجازت نہیں دیتے لہٰذا اس پر مزید بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
جمعیت علمائے اسلام کے اصغرخان ترین نے کہا کہ مسلسل چار اجلاسوں سے ہم یہاں پر اپنا موقف بیان کررہے ہیں اپوزیشن کے کچھ مطالبات اور کچھ تحفظات ہیں مگر حیرت ہے کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور وزیراعلیٰ کو خود اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی چاہئے لیکن اس کے برعکس اپوزیشن کو حکومت احتجاج پر مجبور کررہی ہے ہم عوام کے حقوق کی بات کررہے ہیں پی ایس ڈی پی پر ایک خصوصی کمیٹی بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔
انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے قواعد وضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپیکر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سپیشل کمیٹی بناسکتے ہیں اگر حکومت نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی تو یہ صوبے کے لئے بہتر نہ ہوگا۔
صوبائی وزیر انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں جب سٹینڈنگ کمیٹیاں بنائی جارہی تھیں تو اپوزیشن نے بھی ان کمیٹیوں کے قیام کی منظوری دی جو قواعدوضوابط کے مطابق ایک عمل تھااگر ان کمیٹیوں سے اپوزیشن کو اتفاق نہ تھا تو ان کے قیام کی منظوری میں حصہ ہی کیوں لیا اب اپوزیشن سٹینڈنگ کمیٹیوں کی موجودگی میں سپیشل کمیٹی کا مطالبہ کررہی ہے جو کسی طرح درست نہیں ۔
اس موقع پر جمعیت کے اصغرترین نے سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انجینئر زمرک خان ایسی باتیں کرکے ایوان کو بہتر انداز میں چلنے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں انجینئرز مرک خان نے کہا کہ ہم تمام ارکان سے بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں لیکن خلاف قاعدہ کوئی بات نہیں ہوگی ۔
اس موقع پر انجینئرزمرک خان اور اصغرخان ترین کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا دونوں ارکان مسلسل بولتے رہے جس سے کان پڑی آواز سنائی نہ دی عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ ایوان کو اس طرح سے نہیں چلایا جاتا اگر اپوزیشن کے ایک رکن نے ایک ایک گھنٹہ بولنا ہے تو پھر اس ایوان کو اپوزیشن کے حوالے کردیا جائے ۔
اپوزیشن گزشتہ کئی دنوں سے سنجاوی کے واقعے پر اہم تحریک التواء پر بات کرنے نہیں دے رہی جس پر اصغرخان اچکزئی اور ثناء بلوچ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ڈپٹی سپیکر دونوں ارکان کو مسلسل خاموش رہنے اور بیٹھنے کی ہدایت کرتے رہے تاہم دونوں ارکان مسلسل بولتے رہے ۔
ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ پندرہ سال کے دوران سنجاوی جیسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن کی روک تھام ضروری ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کثیر الجہتی بحران ہے جو غلط حکمرانی سے پیدا ہوا ہم چاہتے ہیں کہ ایسی کمیٹی بنے جو پی ایس ڈی پی کے 28سیکٹرز کا جائزہ لے پندرہ مئی تک ایکسس سرینڈر ہوجائے گا ہم یہاں جھگڑنے کے لئے نہیں آئے معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہئے ۔
ڈپٹی سپیکر بابر موسیٰ خیل نے رولنگ دی کہ اپوزیشن اراکین اپنے تحفظات پی اینڈ ڈی کمیٹی میں رکھیں اگر وہاں ان کی شنوائی نہیں ہوتی تو وہ اگلے سیشن میں سپیشل کمیٹی کی تشکیل کے لئے تحریک لائیں ۔
اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکومت نے تین بار پہلے بھی کمیٹی بنائی لیکن اس کا نتیجہ صفر رہا دنیا بھر میں کمٹمنٹ کی جاتی ہے لیکن ہمارے حقوق سلب کرکے ہمیں دیوار سے لگایا جارہا ہے ہمارے پاس ایوان آواز اٹھانے کا بہترین فورم ہے اے سی ایس سے ملاقات میں تفصیل مانگی تو انہوں نے کہا کہ سپیکر کو درخواست لکھ کر دیں نئی درخواست دینے کے بعد انہوں نے کہا کہ فی الحال تفصیل نہیں ہے بعد میں تفصیل دی جائے گی ہمیں جب تک یقین دہانی نہیں کرائی جاتی ہم اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اپوزیشن کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات اٹھائے تاکہ ہمارا اعتماد بحال ہوسکے ۔بعدازاں اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا ۔
بلوچستان اسمبلی اجلاس ، اپوزیشن کا ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کرنے پر احتجاج ، اجلاس سے واک آؤٹ
وقتِ اشاعت : April 3 – 2019