میرانشاہ: ایک جانب حکومت کی مذاکراتی ٹیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ایک اور ملاقات کے لیے تیار ہے، تو دوسری جانب شمالی وزیرستان میں اور اس کے اردگرد موجودبہت سے غیرملکی عسکریت پسند اپنے مستقبل کو غیر محفوظ خیال کررہے ہیں اور ناصرف وہ اپنے میزبانوں سے اس حوالے سے یقین دہانی چاہتے ہیں، بلکہ دیگر مقامات خصوصاً شام کی جانب منتقلی کے آپشن کا بھی جائزہ لے رہے ہیں، جہاں وہ اپنے ’جہاد‘ کو جاری رکھ سکیں۔
یہ صورتحال ڈان کے اس نامہ نگار کی جانب سے کیے گئے غیرملکی عسکریت پسندوں کے ذرائع کے ساتھ انٹریو کے ایک سلسلے کے ذریعے سامنے آئی۔ یہ عسکریت پسند خاص طور پر شمالی وزیرستان کے اردگرد مقیم ہیں، یہاں مختلف گروپس اور ملک کو سب سے زیادہ مطلوب مفروروں کے ساتھ خصوصی رسائی حاصل کی گئی۔
اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کے ایک سینئر رکن عظام نے بتایا ’’ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ لیکن دونوں فریقین کچھ لو اور دو پر رضامند ہوجاتے ہیں تو پھر ہمیں خوف ہے کہ حکومت ہمیں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرے گی۔ہمارے میزبانوں نے مذاکرات شروع کرنے سے قبل ہمیں اعتماد میں نہیں لیا تھا، اب ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت انہیں ایسی تنگ گلی میں لے جائے گی، جہاں ان کے اختیارات محدود ہوجائیں گے۔‘‘
لیکن کچھ غیرملکی عسکریت پسند اس پیش رفت کو ایک مناسب موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہاں مقیم ایک سعودی شہری شیخ عبدالسلام کا کہنا تھا ’’جہاد کسی ایک سرزمین پر محدود نہیں ہے۔ ہمیں جہاد کے لیے کہیں بھی جانے کی آزادی ہے۔ زیادہ تر بھائیوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت شام اعلیٰ ترین جہادی محاذوں میں سے ایک ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’شام کی مقدس سرزمین پر جنگ میں مصروف گروہوں میں سے ایک ایران ہے، اور اس کا اگلا قدم پاکستان ہے۔‘‘ انہوں نے ایران کو پاکستان کے ساتھ براہ راست تصادم میں گھسیٹنے کی اہمیت پر زور دیا۔
ایک اور عرب جنگجو میر علی بازار نے کہا کہ وہ شام منتقل ہونے میں دلچسپی رکھتےتھے، لیکن وہ اپنے بڑے خاندان کے ساتھ منتقلی کے انتظامات نہیں کرپائے۔
انہوں نے بتایا کہ ’’میری والدہ کی حالتنے میرے لیے دشوار زمین راستے سے سفر کرنا مشکل بنادیاہے۔ شاید مذاکرات کے ایک حصے کے طور پر پاکستان کی حکومت ہمیں محفوظ راستہ فراہم کردے، تب میری جیسی صورتحال سے دوچار لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں سے پرواز کرجائے گی۔‘‘
اسی وقت ٹی ٹی پی کی شوریٰ کے ایک رکن نے دعویٰ کیا کہ غیرملکی عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد پہلے یہاں سے جاچکی ہے۔ ’’میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ آٹھ ہزار مجاہدین، جن میں زیادہ تر عرب، چیچن اور ازبک تھے، شام منتقل ہوچکے ہیں۔‘‘
جب اس قدر بڑی تعداد پر ان سے جرح کی گئی، تو انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ پوری معلومات اور اتھارٹی کے ساتھ بات کررہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ ان میں سے زیادہ تر عسکریت پسندوں نے زمینی راستے کو اختیار کیا تھا، جبکہ ایران کے راستے فرار ہونے والوں میں سے ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ان اعدادوشمار کی تصدیق کرنا مشکل ہے، اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس وقت غیرملکی عسکریت پسند شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں کے دیگر حصوں میں کس قدر تعداد میں موجود ہیں۔
جب غیرملکی جنگجوؤں کے بارے میں ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد سے پوچھا گیا تو وہ اس پر بات کرنے سے گریزاں نظر آئے۔
انہوں نے کہا ’’ہم پورے خلوص کے ساتھ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں، اور ہمیں امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے جو اسلام اور پاکستان کے لیے مفید ہوں گے۔‘‘
اس وقت منتقلی کے لیے افغانستان کہیں زیادہ موزوں مقام دکھائی دے گا، جبکہ بہت سے غیرملکی جنگجو اپنی نگاہ شام کی جانب مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ کے سربراہ خالد سیف المہاجر کا کہنا تھا ’’حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بہت سی احادیث میں شام کے حوالے سے فضائل بیان ہوئے ہیں، چنانچہ فطری طور پر زیادہ تر مجاہد اس جانب دیکھ رہے ہیں۔‘‘
لیکن سعودی شہری شیخ عبدالسلام نے ایک اور پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ’’وہ کس سرزمین کے بارے میں کہا گیا یہ دریافت کرنا ہمارے لیے آسان نہیں۔ ہمیں اس کی جانب حکمت عملی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی بہت سی سرزمینوں پر اگلی بڑی جنگ ہمارے اور روافض کے درمیان ہوگی۔‘‘ انہوں نے ایک اشتعال انگیز اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے شیعوں کی جانب اشارہ کیا۔
اسی دوران ان غیرملکی جنگجوؤں کے لیے پاکستان میں قیام کے فیصلے پر انہیں سخت گیر فرقہ پرست لشکرِ جھنگوی کی پیشکش سے مدد مل سکتی ہے۔
لشکرِ جھنگوی کے ایک رکن جو پاکستان میں سب سے زیادہ مطلوب عسکریت پسندوں میں سرِفہرست ہیں،کہتے ہیں کہ ’’ان تمام ہی لوگوں نے اپنی سرزمین کو جہاد کے لیے چھوڑا ہے۔ ہم ان کے ساتھ بدعہدی نہیں کرسکتے۔ اگر حکومت ان مجاہدین کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کرے گی تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘‘