|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2019

کوئٹہ: بلوچستا ن اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین کا پی ایس ڈی پی پر بحث اپوزیشن نے اسپیکر سے پی ایس ڈی پی کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایوان سے ٹوکن واک آؤٹ کیا ، حزب اختلاف کے اراکین کا بیان پر وزیراعلیٰ سے وضاحت طلب پی ایس ڈی پی پر تحفظات کے خاتمے تک احتجاج بدستور جاری رکھنے کا اعلان۔ 

پیر کے روز سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت سو ا دوگھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلا س میں پی ایس ڈی پی 2018۔19پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے آزاد رکن بلوچستان اسمبلی نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ آج کے اجلاس میں کوئی دوسرا موضوع نہیں بلکہ سپیکر اسمبلی اپوزیشن اور حکومت دونوں بینچز سے اراکین لے کر پی ایس ڈی پی کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی قائم کریں تاکہ یہ کمیٹی پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کا جائزہ لے سکے ۔

انہوں نے کہا کہ میں بارہا یہ مطالبہ ایوان میں دہراتا رہا ہوں کہ سپیکر اگر کمیٹی قائم کرسکتے ہیں تو کہہ دیں اور اگر کمیٹی قائم نہیں کرسکتے تو بھی ہمیں واضح کہہ دیں۔ آج کے اخبارات میں وزیراعلیٰ کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پی ایس ڈی پی کا راگ الاپنے والے اپنے مفادات کی سیاست کررہے ہیں ۔

وزیراعلیٰ کو ایوان میں بلایا جائے تاکہ ان سے پوچھا جاسکے کہ مفاد پرست کون ہے کون مفادات کی سیاست کررہا ہے اپوزیشن اراکین مفادپرست ہیں یا وزیراعلیٰ خود مفادات کی سیاست کررہے ہیں۔

انہو ں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے مجھے دو مرتبہ فون کیا ہے مگر میں نے ان کا فون اٹینڈنہیں کیا میں ایک منتخب نمائندہ ہوں اگر وزیراعلیٰ نے بات کرنی ہے تو وہ اس جرگے میں آکر مجھ سے فلور پر بات کریں۔انہوں نے کہاکہ اس ایوان میں بیٹھے ہوئے ہم سب عزیز و اقارب ہیں اور ایک سیال وطن میں رہ رہے ہیں قائد ایوان کو اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں جس پر سپیکر نے کہا کہ آپ وزیراعلیٰ کے بیان کوایوان کی پراپرٹی بنانے کے لئے تحریک لائیں۔ 

انہوں نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ اسمبلی کی کارروائی کو آپ نے اراکین اسمبلی میں پندرہ منٹ دس منٹ اور ڈھائی منٹ میں تقسیم کیا ہے اسی طرح بلوچستان میں ترقی کے عمل کو بھی تقسیم کیا گیا ہے میں گزشتہ تینتیس سالوں سے اس ایوان میں آتا جاتا رہا ہوں اور اس لئے محسوس کررہا ہوں کہ پہلے طاقت کا سرچشمہ عوام ہوا کرتے تھے اور آج آپ لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں محسوس کررہا ہوں کہ پی ایس ڈی پی پر ہم بارہ سال بھی بحث کریں یہ لاحاصل رہے گی لہٰذا پی ایس ڈی پی سے متعلق کمیٹی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

قائد حزب اختلاف ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے بھی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کئے جانے پراپنے تحفظات کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس معزز ایوان میں استدعا کی تھی کہ پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کی تفصیلات ایوان میں لائی جائیں جس پرسیشن کے اختتام تک عملدرآمد نہیں ہواہم نے پی ایس ڈی پی کی تفصیلات اس لئے ایوان میں پیش کرنے کی استدعا کی تاکہ اگر اس میں کوئی کمزوری یا کمی بیشی ہے تو اپوزیشن اس ضمن میں اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے حکومت کی رہنمائی کرے۔

انہوں نے کہا کہ دس مہینے کا طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک بلوچستان میں ترقی کا پہیہ رکاہوا ہے گیارہ گھنٹے اور تاخیر کے طویل ترین کابینہ اجلاسوں کا نتیجہ صفر ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خامیوں کی ذمہ دار سابق حکومت کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ریکروٹمنٹ پالیسی اوردیگر قوانین لارہی ہے یا لاچکی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سابق حکومتوں کی کارکردگی موجودہ حکومت سے بہتر رہی ہے موجودہ دور حکومت میں میرٹ پر تعیناتیاں ، شفافیت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اس عرصے میں حکومت نے سپیشل اسسٹنٹس کی تعیناتیوں کے لئے ایوان سے قانون پاس کرایاجبکہ ترقی کے دعوے صرف لفاظی جمع خرچ کی حد تک ہی موجود ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ صوبے میں سپیشل اسسٹنٹس کو تعینات کرنے کی ضرورت نہیں تھی تمام محکموں میں افسران موجود ہیں حکومت کو متعلقہ محکموں کے افسران و عملے سے کام لینا چاہئے اگر ایسی حکومت چلے گی اور حالات یہی رہیں گے تو بلوچستان کبھی ترقی نہیں کرسکے گا۔جمہوری حکومتوں میں حکومت اور اپوزیشن دوایسے پہیے ہیں جوایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے حکومت اپوزیشن کے بغیرلوگوں کی خدمت نہیں کرسکتی ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن تہیہ کررکھا ہے کہ حکومت کے ہر مثبت کام میں ان کی معاونت کریں گے مگر غلط کاموں میں حکومت کا محاسبہ کرنا بھی ہماری آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے اپوزیشن اراکین کا استحقاق ہے کہ ان کے حلقوں میں بھی حکومتی اراکین کے حلقوں کے مساوی ترقی ہونی چاہئے۔

پی ایس ڈی پی میں شامل ترقیاتی منصوبوں میں ردوبدل کا اختیار حکومت کو نہیں ایوان کو آگاہ کیا جائے کہ پی ایس ڈی پی میں کتنے آن گوئنگ اور نئے منصوبے شامل کئے گئے ہیں اور کتنے منصوبے پی ایس ڈی پی سے نکالے گئے ہیں۔

پی ایس ڈی پی پر اپوزیشن اراکین کے تحفظات کے خاتمے تک ہمارا احتجاج بدستور جاری رہے گا۔اس موقع پر اپوزیشن اراکین نے ایوان سے ٹوکن واک آؤٹ بھی کیا۔ 

ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ قائد حزب اختلاف اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی انتہائی سینئر پارلیمنٹرینز ہیں پھر وہ کیونکر حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود پی ایس ڈی پی کو ایوان میں زیر بحث لارہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اراکین کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ بلوچستان کے تمام حلقوں کو یکساں ترقی کے عمل میں شامل کیا جائے گا اورگارنٹی دیتا ہوں کہ کسی معزز رکن کے حلقے کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی پی ایس ڈی پی کی جان چھوڑ کر بارشوں سے ہونے والے نقصانا ت اور ایجنڈے میں شامل امن وامان کی صورتحال پر بحث آگے بڑھائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے قواعد وضوابط اور آئین کے تحت پی ایس ڈی پی پر کام کیا ہے اپوزیشن پی ایس ڈی پی کو چھوڑ کر دیگر امور پر بات کرے۔ پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ پی ایس ڈی سے متعلق تفصیلات ایوان میں پیش کی جائیں تاکہ اراکین کو معلوم ہوسکے کہ نئے منصوبوں کی نوعیت کیا ہے اور پہلے سے شامل منصوبوں کی نوعیت کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے جام ہونے سے بلوچستان میں ترقی نہیں ہورہی اور ترقی کا عمل رکا ہوا ہے تبدیلی سرکار نے آج ملک کو کس نہج پر پہنچایا ہے جی ڈی پی کی رپورٹ سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے آج نیپا ل ، مالدیپ ، بنگلہ دیش جیسے ممالک کی معیشت ہم سے بہتر ہے موجودہ حکومت میں پاکستان تیس ارب ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے ۔

حکومت کہہ رہی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق کا دیوالیہ ہوگیا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ صوبوں کو منتقل ہونے والے اختیارات ان سے چھینے جائیں اوراین ایف سی میں صوبوں کا حصہ مزید کم کیا جائے جو آئین کی خلاف ورزی ہے آئندہ چند ماہ بعد حکومت تنخواہیں ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہوگی ۔

انہوں نے سبی ہرنائی ریلوے لائن کے التواء پر بھی اپنے تحفظات کااظہار کیا۔ بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ سابق حکومت میں واسا ، پی ایچ ای اور بی ڈی اے کے محکموں کے ذریعے لگائے جانے والے ٹیوب ویلز کو ری وزٹ کرکے جہاں عملے یا مشینری کی ضرورت ہے ہنگامی بنیادوں پر انہیں فراہم کرتے ہوئے حکومت آئندہ پی ایس ڈی پی میں کوئٹہ کے پانی کے لئے میگا منصوبہ رکھے۔ 

بی این پی کے میر اکبر مینگل نے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر حالیہ ٹریفک حادثے میں چھ افراد کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ این ایچ کو پابند کیا جائے کہ قومی شاہراہوں کو ڈبل ٹریک کیا جائے ہم نے صوبائی وزیر صحت سے اسمبلی فلور پر استدعا کی تھی کہ عوام کو ہنگامی صورتحال میں علاج معالجے کے لئے ایمرجنسی سینٹر ز فعال کئے جائیں قومی شاہراہ پر قریب طبی مراکز نہ ہونے سے حادثات میں زخمی ہونے والے افراد بروقت علاج نہ ملنے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پی ایس ڈی پی جمود کا شکار ہے روزگار نہ ہونے سے مزدور طبقہ نان شبینہ کا محتاج ہے یہاں تقریریں کرنے اور اجلاس منعقد کرنے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا صوبے کے لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ہم اگر ان کو کچھ نہیں دے سکتے تو ہمیں اس ایوان میں بیٹھنے کا حق ہی حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حلقوں میں ایک غیر منتخب سپیشل اسسٹنٹ جس کا نام کرپشن کرنے والوں میں شامل ہے اس کی ایماء پر افسران کے ٹرانسفر پوسٹنگ کئے جارہے ہیں یہ ناقابل برداشت ہے جام کمال بزرگ آدمی ہیں انہیں ان جیسے لوگوں سے دور رہنا چاہئے۔

صوبائی وزیر صحت نصیب اللہ مری نے میر اکبر مینگل کے نکتے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں مختلف قومی شاہراہوں پر اٹھارہ ٹراما سینٹربنارہے ہیں پہلے بھی ڈاکٹر تعینات کئے گئے مزید ڈاکٹرز بھیج رہے ہیں جس روز ڈاکٹر کے ساتھ واقعہ پیش آیا میں اس روز بھی ان سے ملا تھا اور اب ڈاکٹروں نے ہڑتال ختم کردی ہے اور کام شروع ہوگیا ہے ہم صوبے کے تمام ہسپتالوں کو فعال کررہے ہیں۔ 

جمعیت علماء اسلام کے میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ میرے حلقہ انتخاب میں بھی غیر منتخب نمائندہ مداخلت کررہا ہے حکومت کرپشن کے خاتمے کے دعوے کرتی نہیں تھکتی میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کرپشن کی تحقیقات کے لئے لوکل گورنمنٹ کی جانب سے کمشنر کی سربراہی میں بنائی جانے والی کمیٹی کو کیوں غیر فعال کیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا موقف ہے کہ پی ایس ڈی پی میں عدالت نے چار شعبوں کو ترجیح دینے کی ہدایت کی ہے مگر میرے حلقے میں جہاں 66سکول بند تھے اب ان کی تعداد161سکولوں تک جا پہنچی ہے اگر پی ایس ڈی پی کی صورتحال یہی رہی تو ضلع کے نصف سکول بند ہوجائیں گے۔

صوبائی مشیر محمدخان لہڑی نے اپوزیشن رکن یونس عزیز زہری کی جانب سے اٹھائے گئے نکا ت کے جواب میں کہا کہ خضدار کے چالیس سکولوں کے لئے فنڈز جاری کردیئے گئے ہیں بارہ شیلٹرلیس سکولوں کے لئے بھی ٹینڈر ہوگئے ہیں جہاں تک سکولوں کے بند ہونے کی بات کی گئی ہے ان کی نشاندہی کریں اگر واقعی ایسا کچھ ہوا تو سخت کارروائی کریں گے۔ا نہوں نے خضدار میں اساتذہ کی کمی دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ 

بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر لانگو نے وزیر اعلیٰ کے گزشتہ روز شائع ہونے والے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ جب بھی کسی موضوع پر بیان دیں اس سے قبل بلوچستان کی تاریخ کو ضرور مد نظر رکھیں وزیراعلیٰ کا یہ دوسرا تیسرا بیان ہے اور مختلف تقاریر میں کہہ چکے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کی نااہلی کے باعث بلوچستان کی ترقی سست رہی ہے ۔

انہوں نے ماضی میں برسراقتدار آنے والی صوبائی حکومتوں کی تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ سردار عطاء اللہ مینگل ، سردار اختر مینگل اور نواب اکبرخان بگٹی کی حکومت کے سوا جتنی حکومتیں برسراقتدار آئیں وہ یا ان کے حمایتی آج بھی صوبائی حکومتوں کا حصہ ہیں معلوم نہیں وزیراعلیٰ بار بار کن حکومتوں کو مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔

جس پر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ آج کی اپوزیشن جماعت جمعیت ہر دور میں حکومت میں شامل رہی ہے اختر حسین لانگو نے کہا کہ یہاں پر گڈ گورننس کی باتیں ہوتی ہیں صورتحال یہ ہے کہ گڈ گورننس کے لئے پولیس کا کردار اہم ہوتا ہے مگر ہماری پولیس زمینوں پہ قبضے کرنے میں مصروف ہے نواب نوروز سپورٹس کمپلیکس میں زمین پر قبضہ کرنے کی ماضی میں جب کوشش ہوئی تو ہم نے اس پر احتجاج کیا ۔

اس کے بعد وہاں پر دو کوارٹرز تعمیر کئے گئے جو سپورٹس ملازمین کو الاٹ کئے گئے مگر پولیس اہلکار سپورٹس اہلکاروں کو مکانوں کا قبضہ لینے سے روک رہے ہیں انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی پر جب بھی بات ہوتی ہے تو عدلیہ کا حوالیہ دیا جاتا ہے لیکن عدالت نے جن سیکٹرز کی اجازت دی ہے۔

ان سے ہٹ کر مختلف شعبوں کے لئے منصوبے مختص اور فنڈز جاری کئے گئے ہیں ہمیں اس ایوان میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ماضی میں لگائے جانے والے دو سو ٹیوب ویلز جن پر اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں کو فعال کرنے کے لئے فنڈز جاری کئے جائیں گے لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے زور دیا کہ اس ایوان میں حکومتی اراکین صرف وہی بات کریں جس پر عمل کرسکتے ہوں۔

صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ اراکین ایوان میں کسی بھی ادارے سے متعلق بات کرتے ہوئے مناسب الفاظ کا استعمال کریں اختر حسین لانگو نے جس زمین کا ذکر کیا وہ ہائیکورٹ کے حکم پر محکمہ ریونیو نے پولیس کو الاٹ کی ہے اختر حسین لانگو اور ڈی آئی جی پولیس کو بٹھا کر مسئلہ حل کردیاہے۔

جمعیت علماء اسلام کے اصغرخان ترین نے کہا کہ پی ایس ڈی پی پر ہمارا احتجاج کافی عرصے سے جاری ہے مگر حکومت اس کا نوٹس لے رہی ہے اور نہ ہی اپوزیشن سے بات کرنے کے لئے تیار ہے انہوں نے اپنے حلقے کے تعلیمی اداروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اکثر تعلیمی اداروں کی حالت انتہائی خستہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بارشوں سے میرے حلقے میں تین ہزار خاندان متاثر ہوئے ڈپٹی کمشنر نے صوبائی حکومت سے ان کی امداد کے لئے مدد مانگی مگر اس میں بھی دو ہزار خاندانوں کو نظر انداز کردیاگیا انہوں نے زور دیا کہ متاثرین کی امداد کے لئے پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور اسے جدید دور کے مطابق بنایا جائے۔

انہوں نے اصغرخان اچکزئی کی جانب سے جمعیت کے ہر حکومت میں شامل ہونے کے جواب میں کہا کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمیں ہمارے عوام بار بار منتخب کرتے رہے ہیں ان کی جماعت کو ایک بار اقتدار ملنے کے بعد خیبرپشتونخوا کے عوام نے مسترد کردیا اور یہاں بھی آگے چل کر یہی کچھ ہوگا۔ 

بی این پی کے میر حمل کلمتی نے کہا کہ موجودہ پی ایس ڈی پی میر عبدالقدوس بزنجو کے وزارت اعلیٰ کے دور میں بنائی گئی اور آج بھی ان کی ہی حکومت ہے اگر میں ان کی جگہ پر ہوتا توسپیکر شپ سے استعفیٰ دے چکے ہوتے انہوں نے کہا کہ 1972ء سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے اپنے ضلع کو ترقی نہیں دے سکے باقی بلوچستان کو کیا ترقی دیں گے بلوچستان میں صفائی کی سب سے زیادہ ابتر صورتحال حب کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ نااہل ہیں میں نے پہلی مرتبہ پندرہ ہزار ، دوسری مرتبہ تیرہ اور تیسری مرتبہ 32ہزار ووٹ لے کر منتخب ہوا ہوں جو اس بات کی عکاسی ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کو ترقی کے عمل میں شامل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 88ارب روپے میں سے صرف40ارب روپے کی منظوری ہوئی ہے جبکہ صرف گیارہ سے بارہ ارب روپے جاری ہوئے ہیں پی ایس ڈی پی میں عوام کے پیسے ہیں انہیں ضائع کرنے کی بجائے انہیں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ 

اس دوران حکومتی اراکین کی جانب سے دو مرتبہ کورم کی نشاندہی کی گئی جس پر سیکرٹری اسمبلی نے ایوان میں موجود اراکین کی تعداد کو گناتاہم کورم پورا ہونے پرپینل آف چیئر مین اسمبلی کی کاررورائی برقرار رکھی، بعدازاں اجلاس آج چار بجے تک کے لئے ملتوی کردیاگیا ہے۔