|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2019

موجودہ صوبائی حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ان کی بہتری کے لیے ہر ضلع سے ہرسال چار مڈل اور چھ ہائی اسکولز کو تمام سہولیات کی فراہمی کا اعلان کیا ہے جبکہ چار ماڈل ہائی اسکولز کا قیام عمل میں لانے کابھی فیصلہ کیاہے جن میں فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر کی کلاسیں ہوں گی۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں محکمہ تعلیم میں بیس ہزار خالی آسامیوں پر بہت جلد بھرتی کا عمل شروع کیا جائے گا۔ گزشتہ حکومت کے دوران تعلیم کے شعبہ میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے پانچ بجٹوں کے دوران سب سے زیادہ رقم تعلیم کیلئے مختص کی گئی تھی جس کا مقصد بلوچستان کے نوجوانوں کو بہترین تعلیمی ماحول اور سہولیات کی فراہمی تھی جس میں تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی تعمیراور ان میں ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنا، اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانا،گھوسٹ ملازمین کے خلاف کارروائی کرنا، مفت کتب فراہم کرنے سمیت تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا شامل تھایہ تمام فیصلے اس لئے کئے گئے تھے تاکہ بلوچستان میں تعلیم کی ابتر صورتحال میں بہتری آسکے ۔ 

گزشتہ حکومت کے دوران سب سے زیادہ اس بات پر زور دیا گیا کہ تعلیمی اداروں میں جو گھوسٹ ملازمین یا غیر حاضر اساتذہ ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے، بعض حد تک کوشش بھی کی گئی کہ اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنائی جائے تاکہ وہ اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے انجام دیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں ان کے داخلہ کیلئے مہم چلائی جائے۔ 

تاہم بعض گھوسٹ ملازمین اور غیر حاضر اساتذہ نے گزشتہ حکومت کے اس اقدام کارخ موڑتے ہوئے بلیک میلنگ شروع کی اور سڑکوں پر نکل آئے، کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہوگئے اور اس طرح ان کے خلاف مکمل کارروائی نہیں ہوسکی اور آج تک یہ مافیانہ صرف بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں بلکہ غریب صوبہ کے خزانہ پر بوجھ بن کر بیٹھے ہیں ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے تعلیم جیسے مقدس پیشہ کو بھی نہیں بخشا جہاں بہترین اساتذہ کی بھرتی عمل میں لانی چاہئے تھی مگر سیاسی بنیادوں پر تعلیم کے شعبے میں ٹیچرزکے نام پر اپنے من پسند سیاسی ورکرز یا تو پیسے لیکر مڈل پاس لوگوں کو بھرتی کیاگیا۔

اب کس طرح سے یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ صوبہ میں تعلیمی معیار بہتر ہوگا ، اگر موجودہ حکومت صرف کوئٹہ کے سرکاری اسکولوں کا دورہ کرکے جائزہ لے تواسکولوں کی حالت زار سمیت اساتذہ کے معیار کا اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح سے صوبہ کے بچوں کو تعلیم فراہم کی جارہی ہے اور کیا سہولیات ان کو میسر ہیں ، سیاسی اقرباء پروری اور غلط فیصلوں کا خمیازہ آج صوبہ کے غریب شہری بھگت رہے ہیں ۔

کیونکہ بیشتر تعلیمی اداروں میں اساتذہ ڈیوٹی نہیں دیتے صرف تنخواہیں وصول کرتے ہیں جبکہ اسکول کھنڈرات کا منظر پیش کررہے ہیں،اسکولوں کی چھتیں خستہ حالت میں ہیں،باتھ روم ، صاف پانی کے فلٹر، کرسیاں، ڈیسک کچھ بھی میسر نہیں ۔

اب ایسے حالات میں کس طرح بچے تعلیم حاصل کرپائینگے ، معیاری تعلیم کیلئے بہترین ماحول کی فراہمی ضروری ہے جس کے بغیر تعلیمی اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے لہٰذا ترجیحات میں پہلے سے موجود اسکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں جبکہ گھوسٹ اور غیر حاضر اساتذہ کے خلاف بلاتفریق کارروائی کا آغاز کیاجائے تاکہ کوئٹہ سمیت اندرون بلوچستان میں تعلیم کے شعبہ میں بہتری آئے۔ 

دوسری جانب بیس ہزار خالی آسامیوں پر میرٹ کی بنیاد پر ایماندار اور پڑھے لکھے لوگوں کی بھرتی کو ترجیح دی جائے کم ازکم تعلیم کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے کیونکہ اس سے ہمارا مستقبل جڑا ہوا ہے۔