اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اینٹی منی لانڈرنگ قوانین میں نیب کے اختیارات مانگ لیے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈی جی بشارت محمود نے ادارے کی کارکردگی پر بریفنگ دی اور انسداد منی لانڈرنگ قوانین میں نیب کو حاصل اختیارات مانگ لیے۔
ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے نے بریفنگ میں بتایا کہ اینٹی منی لانڈرنگ قانون میں بہت خامیاں ہیں جس وجہ سے نتائج نہیں مل پاتے، ریکارڈ بروقت نہیں ملتا اس لیے تحقیقات التوا میں پڑجاتی ہیں لہٰذا ایف آئی اے کو سرکاری ریکارڈ تک رسائی کا وہی اختیار ملنا چاہیے جو نیب کو ہے۔
بشارت محمود کا کہنا تھا کہ نیب کو کسی بھی ادارے سے ریکارڈ لینے کا اختیار ہے، ایف آئی اے نے اگر بینک سے رکارڈ لینا ہے تو سیشن جج کی اجازت درکار ہے، سیشن جج سے اجازت ملنے میں کئی کئی مہینے لگ جاتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیشن جج اجازت ہی نہیں دیتا، جو ریکارڈ 6 ماہ بعد ملتا ہے وہ 6 روز میں مل جائے توتحقیقات تیز ہو سکتی ہیں۔
دورانِ اجلاس ایف آئی اے حکام نے بے نامی و جعلی بینک اکاؤنٹس کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت میں کوئی اکاؤنٹ بے نامی نہیں ہوتا، کوئی نہ کوئی نام تو ہوتا ہے، اس حوالے سے 2 طرح کے اکاؤنٹس ہیں، ایک جعلی اور دوسرا بے نامی، جعلی اکاؤنٹ یہ ہے کہ بندہ فوت ہوگیا اور اکاؤنٹ چل رہا ہے، دوسرا بےنامی اکاؤنٹ ہے، اس اکاؤنٹ ہولڈر کی ٹرانزیکشنز سے آمدنی مطابقت نہیں رکھتی، بے نامی اکاؤنٹ میں جس کے نام اکاؤنٹ ہے وہ نہ اس کا بینیفشری ہوتا نہ خود آپریٹ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیکھنا تو یہ ہے کہ جس بینک مینیجر یا عملے نے یہ کام کیا، اس کو قانون کیا سزا دے رہا ہے، ایک چائے والا یا فالودے والا ہے، وہ کبھی بینک گیا ہی نہیں، اس کا اکاؤنٹ کیسے کھل گیا، ایسے اکاؤنٹ کھولنے میں بینکر کا ملوث ہونا یقینی ہے۔