|

وقتِ اشاعت :   April 29 – 2014

بغداد: عراق میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد ہونے والے پہلے پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو گیا جہاں فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تاہم اس دوران ہونے والے خودکش بم دھماکوں میں کم از کم 57 افراد ہلاک ہو گئے۔ بغداد، مغرب اور شمال میں ہونے والے ان بم دھماکوں سے سیکورٹی فورسز کی اہلت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے کہ آیا وہ عام ووٹرز کی حفاظت کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ یاد رہے کہ بدھ کو ملک بھر کے دو کروڑ اہل عوام اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ خود جیکٹ پہنے نو خود کش بمباروں نے بغداد اور شمالی شہروں کے پولنگ اسٹیشنز کو نشانہ بنایا جبکہ اس دوران فوجی قافلوں اور الیکشن کی کوریج کے لیے موجود صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرناک حملہ ایران کی سرحد سے متصل شمال مشرقی علاقے خانا کن میں کیا گیا جہاں زیادہ تر کُرد رہائش پذیر ہیں۔ ایک مقام پر لوگ جرمنی میں اسٹروک کے علاج کے لیے موجود صدر جلال طالبانی کے ووٹ ڈالنے کی جاری کی گئی ویڈیو دیکھتے ہوئے جشن منا رہے تھے کہ اسی دوران ایک خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے کم از کم 30 افراد ہلاک ہو گئے۔ طالبانی کی پارٹی پیٹریاٹک یونین آف کردستان کے دفتر کے قریب کیے گئے حملے میں 50 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ دارالحکومت میں بھی دو خود کش حملے ہوئے۔ پہلا حملہ مغربی بغداد میں پولنگ اسٹیشن کے پاس کیا گیا جہاں خودکش جیکٹ سے لیس بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے۔ شہر کے شمال میں واقع پولنگ اسٹیشن پر کیے گئے حملے سیکورٹی فورسز کے پانچ ارکان ہلاک ہو گئے۔ حکام کے مطابق ملک کے دیگر علاقوں میں کیے گئے حملوں میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور 120 سے زائد زخمی ہو گئے۔ ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی لیکن سیاسی نظام کو پٹری کو درہم برہم کرنے کی غرض سے کیے گئے گزشتہ خود کش حملوں کا الزام سینی شدت پسند گروپوں پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بدھ کو ہونے والے انتخابات کے لیے وزیر اعظم نوری المالکی کو سب سے مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے جہاں کامیابی کی صورت میں وہ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیں گے۔