|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں امن و امان پر بحث کے دوران وزیر داخلہ اور محکمہ داخلہ کے اعلیٰ حکام کی عدم موجودگی پر اپوزیشن کا احتجاج، حکومتی و اپوزیشن ارکان کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے مسلسل جاری رہے۔ 

تفصیلات کے مطابق منگل کے روز پینل آف چیئرمین کے رکن قادر علی نائل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے حالیہ بارشوں سے ہونے والے نقصانات اور امن وامان سے متعلق بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ بارشوں سے متعدد علاقوں میں ڈیمز ٹوٹ گئے کئی علاقے زیر آب آگئے بارشوں اور برفباری سے ہونے والے نقصانات کا مکمل جائزہ لے کر رپورٹ ایوان میں پیش کی جانی چاہئے تھی جو تاحال پیش نہیں ہوئی اور نہ ہی متاثرین کی داد رسی کی گئی ہے۔

ہاں البتہ ایک دو لوگوں کو کچھ ریلیف فراہم کیا گیا ہے تاہم مکمل تفصیلات اب تک سامنے نہیں آئیں پورے صوبے میں قدرتی آفات سے نمٹنے اور نقصانات کی رپورٹ مرتب کرنے کے لئے انتظامیہ موجود ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سے تفصیلات طلب کرکے ایوان کو آگاہ کرتی اور مستقبل میں ایسے واقعات کے لئے پیشگی اقدامات اٹھاتی ۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اس وقت تک استحکام نہیں آسکتا جب تک اس میں عدل وا نصاف اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہو مگر بلوچستان میں ان چیزوں کا فقدان ہے اگر قانون استعمال ہوتا ہے تو بھی مخصوص لوگوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والے جرائم اور ڈکیتی کی واردتیں باعث تشویش ہیں چند روز قبل 83دکانوں کا صفایا کیا گیا جب چور جتھے بنا کر لوگوں کو لوٹنا شروع کردیں تو اس حکمرانی کا کیا فائدہ جو عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہ بنائے حالیہ واقعے سے حکومت کی امن وامان سے متعلق ناکامی کو صوبے کے عوام کے سامنے آشکار کردیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی مداخلت کی وجہ سے ایک عرصے سے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکومت پولیس کو جدید خطوط پراستوار کرے۔بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ آج امن وامان سے متعلق اپوزیشن کی ریکوزیشن پر اجلاس منعقد ہورہا ہے مگر افسوس ہے کہ انتہائی اہم مسئلے پر بلائے گئے ۔

اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان ، صوبائی وزیر داخلہ ، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس موجود نہیں اگر خالی کرسیاں صوبے میں امن وامان بحال کرسکتی ہیں تو ہم ضرور بحث میں حصہ لیں گے ورنہ اجلاس کو موخر کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت امن وامان سے متعلق کام شعبہ صحت جبکہ صحت کا کام پی ایچ ای سے لے رہی ہے جس پر مبین خلجی نے حکومتی موقف پیش کرنے کی کوشش کی تاہم اپوزیشن اراکین نے انہیں روک کرموقف اختیار کیا کہ اگر ان کے پاس وزارت داخلہ کاقلمدان ہے یا انہوں نے اس ضمن میں متعلقہ محکمے سے بریفنگ لی ہے تو وہ حکومت کا موقف پیش کریں اس دوران حکومت اور اپوزیشن اراکین میں تند وتیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جس سے کان پڑی آواز سنائی نہ دی۔

مبین خلجی نے حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں پیش آنے والا ڈکیتی کا واقعہ یقیناًتکلیف دہ ہے واقعے سے لوگوں کو نقصان پہنچا ہے واقعے کے روز میں نے وہاں کا دورہ کرکے وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے بریفنگ دی جس پر دو ایس ایچ اوز کو معطل کرکے تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے ۔

متاثرہ دکاندار واقعے کا مقدمہ درج نہیں کرارہے تھے جس پر ہم نے گزشتہ روز ان سے رابطہ کرکے ان سے ایف آئی آر درج کرنے کی استدعا کی انہوں نے کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے پولیس کی ٹیمیں کراچی تک گئی ہیں اور وزیراعلیٰ خود ساری صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں ایوان کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ جلد ہی ملزمان قانون کے کٹہرے میں ہوں گے ۔

جس پراخترحسین لانگو نے کہا کہ معزز رکن نے چند الفاظ میں امن وامان سے متعلق بحث سمیٹ دی ہے ہم صوبے میں امن وامان کی مجموعی صورتحال پر بحث کرنے آئے ہیں حکومتی رکن کے اپنے اس موقف سے عوام کو کس طرح سے مطمئن کریں گے انہوں نے استدعا کی کہ اجلاس میں وزراء او رمحکموں کے سیکرٹریز سمیت متعلقہ حکام کو اپنی حاضری یقینی بنانی چاہیے ۔ 

صوبائی وزیر انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان ایک وسیع و عریض صوبہ ہے جہاں گزشتہ پندرہ سالوں سے دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں گزشتہ دور حکومت میں سانحہ 8اگست میں ہمارے 65وکلاء شہید ہوئے پی ٹی سی ٹریننگ سینٹر کا واقعہ رونماہوا اس وقت دشمن کی نظریں بلوچستان پر لگی ہوئی ہیں سنجاوی میں پیش آنے والے حالیہ واقعے میں چھ لیویز اہلکاروں کو شہید کیا گیا جس کے بعد گزشتہ اٹھارہ روز سے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن وہاں دھرنا دے کر بیٹھے تھے ۔

گزشتہ روز میں ، ہماری پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی ، وزیر داخلہ ضیاء لانگو ، نور محمد دمڑ ، کمشنر اور ڈپٹی کمشنرکے ہمراہ دھرنے کے شرکاء کے پاس گئے ان سے مذاکرات کئے اور ان کے مطالبے پر تحصیلدار اور ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا ہے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر کو پندرہ روز کی مہلت دی گئی ہے دھرنے کے شرکاء کا مطالبہ ہے کہ واقعے سے متعلق تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن بنایا جائے ہم نے انہیں ڈی جی لیویز اور ایڈیشنل سیکرٹری کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کی تجویز دی ہے اور واقعے میں شہید ہونے والے اہلکاروں کے لئے فی کس چالیس لاکھ روپے امداد اور متاثرہ خاندانوں کو ایک ایک نوکری دی جائے گی ۔ 

انہوں نے کہا کہ چمن میں جہاں ماضی میں ہر ہفتے اغواء کے واقعات رونما ہوتے تھے اب گزشتہ روز پیش آنے والے ایک واقعے میں پولیس نے فوراً مغوی کو بازیاب کراکے اغواء کار کو گرفتار کرلیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت امن وامان پر بھرپور توجہ دے رہی ہے اگر اس ضمن میں اپوزیشن اراکین کو متعلقہ اداروں کی کوتاہی یالاپرواہی سے متعلق کوئی ثبوت ہے تو وہ ہمیں پیش کریں اس پر ضرور کارروائی ہوگی امن وامان سے متعلق اپوزیشن اراکین کی ہر تجویز کا خیر مقدم کریں گے۔

جے یوآئی کے اصغرعلی ترین نے کہا کہ حکومت نے سنجاوی واقعے پربروقت اقدام نہ کرکے لوگوں کو دھرنا دینے پر مجبور کیاحکومت کی ذمہ داری ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کو یقینی بنائے ۔ 

جے یو آئی کے شام لعل نے کہا کہ اوتھل میں آئے روز لوگوں سے موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں چھینی جارہی ہیں جب وہ ایف آئی آر درج کرنے کے لئے متعلقہ تھانے جاتے ہیں توا ن کی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی مذکورہ ضلع وزیراعلیٰ کا ہوم ڈسٹرکٹ ہے حکومت وہاں امن وامان پر توجہ دے ۔

بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ہماری مائیں اور بہنیں کئی سالوں سے لاپتہ بیٹوں اور بھائیوں کی آمد کی راہ دیکھ رہی ہیں اور اس انتظار میں کئی لوگوں کی شادیاں رکی ہوئی ہیں بلوچستان نیشنل پارٹی نے لاپتہ افراد کے مسئلے کوقومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ میں اٹھایا ہے انہوں نے کہا کہ قانون سے کوئی مبرا نہیں ہے اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لا کر ملکی آئین و قانون کے تحت سزا دی جائے ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو گزشتہ نو سے دس سالوں سے لاپتہ ہیں اور ان کے لواحقین کوئٹہ پریس کلب کے باہر سراپا احتجاج ہیں جن پر موجودہ اور سابقہ حکومتوں میں لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل بھی برسائے گئے ۔

انہوں نے کہا کہ ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ آج کے اجلاس میں قائد ایوان اور وزیر داخلہ موجود ہوتے تاکہ ان خاندانوں کو تسلی دی جاسکتی کہ ان کے پیارے جلد لوٹیں گے ۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ آج اس ایوان میں امن وامان جیسے اہم مسئلے پر بحث ہورہی ہے مگر آفیشل گیلری میں محکمہ داخلہ کا کوئی ذمہ دار افسر موجود نہیں ہے اس وقت ملک سمیت صوبے میں بھی امن وامان کی صورتحال مخدوش ہے ۔

2018ء میں کراچی میں نقیب اللہ محسود کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا جس پر پورے ملک میں عوام نے احتجاج کیا اسلام آباد میں تاریخی دھرنا دیا گیاموجودہ وزیراعظم نے بھی اس دھرنے میں شرکت کی ان کے مطالبات بہت ہی سادہ اور آئین کے اندر تھے ۔

انہوں نے کہا کہ پہلے خیبرپشتونخوا میں دہشت گردی ہوئی جس میں ہزاروں انسان لقمہ اجل بنے پھر وہاں سے یہ دہشت گردی ہمارے صوبے کے پشتون اضلاع میں منتقل ہوئی چمن پشین قلعہ سیف اللہ لورالائی سنجاوی میں پے درپے دہشت گردی کے واقعات ہوئے لورالائی میں دہشت گردی کے ایک واقعے کے خلاف پرامن دھرنے کے اختتام پر لاٹھی چارج سے پروفیسر ارمان لونی شہید ہوئے مگر واقعے کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی جارہی تھی شدید احتجاج کے بعد دو مہینے کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی اب حال ہی میں لال کٹائی میں لیویز چیک پوسٹ پر حملہ ہوا جس میں لیویز اہلکار شہید ہوئے واقعے سے متعلق شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔

اس کی تحقیقات ہونی چاہئے انہوں نے کہا کہ محسوس ہوتا ہے کہ پشتون علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات منصوبے کے تحت ہورہے ہیں سنجاوی واقعے کے بعد وہاں کے عوام نے دھرنا دیا اور ان کا مطالبہ تھا کہ واقعے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا اور اسسٹنٹ کمشنر و تحصیلدار سمیت دیگر کو معطل اور ان کا تبادلہ کیا جائے مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے پر وہاں پر طویل دھرنا دیا گیا دوسری جانب کوئٹہ میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے مگر پولیس کرپشن میں ملوث ہے ۔

پشتون آباد میں ایک ہی رات میں ڈاکوؤں کی بارات آتی ہے اور83دکانو ں کو لوٹ کر چلی جاتی ہے کہیں حکومت کی رٹ نہیں انہوں نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کیا جائے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ جب آگ لگی تھی تو اپوزیشن کے دوست خاموش تھے اب جب آگ بجھ گئی تو انہیں سنجاوی کا واقعہ یاد آیاان کے ریمارکس پر نصراللہ زیرئے نے شدیداحتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ بات کی اور آج بھی یہ آگ نہیں بجھی ہے ۔

اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ صوبے کی تاریخ میں 2013ء سے2018ء جو حکومت رہی ایسی حکومت تو نہ کبھی آئی نہ آسکتی ہے جس کے دور میں سانحہ8اگست ، سانحہ کھڈ کوچہ ، پی ٹی سی ٹریننگ سینٹر سمیت بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات ہوئے مگر اس وقت کوئی کسی کے پاس فاتحہ خوانی کے لئے جانے پر بھی تیار نہیں تھا ۔

سنجاوی واقعے کے بعد حکومتی وفد نے وہاں جا کر تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کئے اور دھرنا پرامن طریقے سے ختم کرایا ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ آج امن وامان کی صورتحال آئیڈیل ہے مگر سابق دور کے مقابلے میں حالات آج بہت بہتر ہیں پشتون آباد میں جس طرح سے ایک رات میں اسی دکانیں لوٹی گئیں ہم بھی اسے بڑا واقعہ کہتے ہیں اس کا فوری نوٹس لیا گیا ہم اپنی دھرتی سے محبت کرتے ہیں اور ہماری لیویز اور پولیس امن وامان قائم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہئے ہمیں واقعات رونما ہونے سے پہلے انہیں روکنا ہوگا ۔

اگر آج ہم نے اقدامات نہ کئے تو کل کوئی ہماری بات بھی سننے کو تیار نہیں ہوگا ہم نے سنجاوی دھرنے کے شرکاء سے جو کمٹنٹ کی اسے ہر حال میں پورا کریں گے انہوں نے کہا کہ سانحہ8اگست کے شہید وکلاء کے خاندانوں سے کیاگیا کوئی وعدہ سابق حکومت نے پورا نہیں کیاہم سیاست سے بالا تر ہو کر امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا ورنہ یہاں کل کوئی محفوظ نہیں ہوگا ۔

جمعیت علماء اسلام کے حاجی محمد نواز خان نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال یقیناًبہت اہمیت کی حامل ہے مگر دوسری جانب بارشو ں سے ہونے والی تباہی کے باعث صورتحال گھمبیر ہوگئی ہے بارشوں سے لوگوں کے گھر متاثر ہوئے انسانی جانیں ضائع اورباغات تباہ ہوگئے ہیں مگر حکومت کی جانب سے کسی کی کوئی مدد نہیں کی گئی گلستان میں 700گھروں کو نقصان پہنچا لوگ بے سرومانی کے عالم میں امداد کے منتظر ہیں ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طو رپر نقصانات کا سروے کرکے متاثرین کی امداد کو یقینی بنائے۔جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے کہا کہ بلوچستان میں افغان انقلاب کے بعد سے امن وامان کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی آس پاس کے ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرکے اسے ترقی کے عمل سے روکنا چاہتے ہیں اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بلوچستان میں بیرونی قوتیں کارفرما ہیں ملک میں ستر ہزار کے لگ بھگ سیکورٹی اہلکار ، قبائلی و سیاسی عمائدین،عام لوگ شہید ہوئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا ہے یہ تاقیامت قائم رہے گا ہمیں ملک اور صوبے کی ترقی کے لئے بحیثیت قوم متحد ہو کر جدوجہد کرنی چاہئے انہوں نے کہا کہ ستر سالوں سے اختیار کئے جانے والے رویے میں تبدیلی لا کر چاروں صوبوں کو یکساں ترقی دینے کی ضرورت ہے ۔

انہو ں نے کہا کہ بلوچستان گزشتہ ستر سالوں سے پاکستان کو گیس فراہم کررہا ہے ہمارے کنویں خشک ہونے کو ہیں اور بلوچستان آج بھی گیس سے محروم ہے انہوں نے کہا کہ سیاسی مداخلت سے اداروں کا سٹرکچر تباہ ہوچکا ہے ۔

حکومت اداروں سے سیاسی مداخلت کے خاتمے سمیت عوام کو روزگار کی فراہمی کے لئے عملی اقدامات اٹھائے ۔بلوچستان نیشنل پارٹی کی شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ آج کے اجلاس میں امن وامان اور بارشوں کی صورتحال سے متعلق بحث ہونی تھی مگر میں ان خالی کرسیوں سے بات نہیں کرسکتی ۔

آج کے اجلاس میں ذمہ دار لوگوں کی عدم موجودگی باعث افسوس ہے جہاں سینڈیکیٹ کے منٹس کو تبدیل کیا گیا ہے اس پر ہم کس سے وضاحت طلب کریں ۔

صوبائی وزیر انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ آج کے ایوان میں بلا شبہ حکومتی اراکین کی تعداد کم ہے یہ ایوان پانچ سال چلے گا اور ہم ساتھ رہیں گے اگر حکومت ڈیلیور نہیں کرسکی تو عوام خود ہمیں مسترد کردیں گے اپوزیشن ہمیں کام کرنے کا موقع دے انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی سے متعلق عدالت کے واضح احکامات ہیں کہ کسی ایم پی اے ، ایم این اے کی ذاتی خواہش پر منصوبے شامل نہیں کئے جاسکتے ۔

اس موقع پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے مابین ایک بار پھر تند وتیز جملوں کا تبادلہ ہوا اور اپوزیشن اراکین نے اجلاس میں توسیع کا مطالبہ کیا تاہم پینل آف چیئر مین کے رکن قادر علی نائل نے سپیکر کا حکمنامہ پڑھ کر سناتے ہوئے اجلاس غیر معینہ مد ت کے لئے ملتوی کردیا ۔

دریں اثناء بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے اراکین نے کہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کو فیس نہیں کرسکتی ہمیں اسمبلی میں بولنے نہیں دیا گیا تو باہر اسمبلی لگائیں گے چیئرمین آف پینل نے حکومت کے پیغام پر اسمبلی اجلاس کو بلڈوز کیا حکومت کو بھاگنے نہیں دینگے دوبارہ اجلاس بلائیں گے ۔حزب اختلاف کے اراکین سے حکومت کا رویہ غیر جمہوری اور اخلاقی روایات کیخلاف ہے ۔

پی ایس ڈی پی ،امن وامان ،بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں پر حکومت کو راہ فرار اختیار کرنے نہیں دینگے ۔ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز اپوزیشن چیمبر میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اختر حسین لانگو، پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ زیرے اور اصغر ترین نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

اس موقع پر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ حذب اختلاف کا آئینی اور بنیادی حق ہے وہ اسمبلی اجلاس طلب کرکے اپنا ایجنڈہ پیش کرے ہم نے وہی کیا کیونکہ 2 اپریل تک جاری رہنے والے اجلاس میں صوبے کے بہت سے معاملات پر بحث تکمیل تک نہیں پہنچی تھی جس پر حزب اختلاف کے اراکین نے ان معاملات کو دوبارہ زیر بحث لانے کیلئے ریکوزیشن جمع کرائی تاکہ پی ایس ڈی پی ، حالیہ بارشوں سے صوبے میں ہونے والے نقصات اور امن وامان سے متعلق بات ہوسکے ۔ 

انہوں نے کہا کہ 8 اپریل کو ہونے والے اجلاس میں پی ایس ڈی پی پر بحث مکمل ہونے کے بعد آج ہونے والے اجلاس میں امن وامان اور سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں پر اپوزیشن اراکین نے بات کرنا شروع ہی کی تھی کہ اجلاس کو غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کیا گیا ۔ پوائنٹ آف آرڈر پر ظاہر ہے دونوں اطراف سے اراکین اسمبلی بات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے اجلاس طلب کرنا حکومت کیلئے باعث پریشانی ہونی چاہے کہ آیا ان سے وہ کون سی کوتاہیاں سرزد ہوہی ہیں جس پر اپوزیشن نے اجلاس بلایا ہے تاہم موجودہ حکومت جمہوری اور اخلاقی اقدارسے ناواقف ہے انہیں بلوچستا ن کے مسائل کا ادراک نہیں ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ آج ہونے والے اجلاس میں اسپیکر ڈپٹی اسپیکر نے شرکت نہیں کی ایک حکومتی رکن کو پینل آف چیئرمین بناکر اپوزیشن سے جان چھڑائی گئی حالانکہ پینل آف چیئرمین کیلئے احمد نواز بلوچ اور یونس عزیز زہری کا بھی انتخاب کیا گیا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اپوزیشن کو فیس نہیں کرسکتی حکومتی اراکین ایوان سے باہر جاکر بیانات دیتے پھر رہے ہیں ۔ گزشتہ اجلاس میں وزیراعلیٰ تشریف لانے کے باوجود اپوزیشن کے اراکین کے تحفظات اور خدشات پر اپنا موقف بیان کرنے کی بجائے ایسے ہی لوٹ گئے جبکہ حکومتی اراکین نے ایوان میں کورم توڑنے میں ناکامی پر زبردستی اجلاس ملتوی کرایا ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کب تک دروازے بند کرکے اند بیٹھیں گی ہم دوبارہ اجلاس طلب کرکے اپنے مطالبات ایوان میں رکھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ انتہائی تکلیف دہ ہے کہ دہشتگردی پر بات کرنے کی بجائے حکومت اراکین بدامنی کے واقعات پر اپنا موقف بیان کرتے رہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ امن وامان سے متعلق طلب کئے گئے اجلاس میں قائد ایوان ، وزیرداخلہ اور متعلقہ محکمہ کے ذمہ داروں نے اس لیے شرکت نہیں کی کہ انہیں احساس ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کے تحفظ میں ناکام ہوچکے ہیں ۔

نصراللہ زیرے نے کہا کہ آج ہونے والے اجلاس میں امن وامان اور بارشوں سے ہونے والے نقصانات سے متعلق سیر حاصل بحث ہونی تھی ہمارے دوستوں کی اکثریت نے ان موضوعات پر بات نہیں کی وہ اب بات کرنے والے تھے کہ اجلاس ملتوی کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ امن وامان سے متعلق اجلاس میں سوائے ایک دو حکومتی اراکین کے وزیر داخلہ ، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس نے شرکت نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عوام کے مفادات کیخلاف جارہی ہے جس پر انہیں صوبے میں مزید حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے اس لیے ہم اسمبلی میں عوام کی بات کرینگے ہمارے لیے فلور نہ چھوڑ کر حکومت نے اپنے فیصلہ کو بلڈوز کیا اجلاس کو عجلت میں ختم کرنے کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔ اگر ہمیں اسمبلی کے فلور پر نہیں چھوڑا جائیگا تو ہم اسمبلی کے باہر اسمبلی لگائیں گے ۔

اختر حسین لانگو نے کہا کہ حکومت سے زیادہ میڈیا کے نمائندوں کا رویہ اپوزیشن کے ساتھ مثبت ہے جب سے حکومت بنی ہے حکومتی اراکین سابق حکومتوں کو موردوالزام ٹھراتے ہیں کل ہم نے اسمبلی فلور پر بھی کہاتھا کہ سابق حکومتوں میں شامل لوگ موجودہ حکومت کا حصہ ہیں ۔

گزشتہ نو ماہ کے دوران ہر اجلاس میں حکومت اپنی جان چھڑاکر بھاگ جاتی ہے انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کی بجائے حکومت متاثرین میں پسند و ناپسند کی بنیاد پر امدادی اشیاء تقسیم کررہی ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ سیلاب سے مکران کے بلیدی زمران دشت کے علاقوں میں سینکڑوں لوگوں کے گھر منہدم ہوئے ہیں پشین کی زمین میں دراڑیں پڑچکی ہیں قلعہ عبداللہ کوئٹہ کے علاقے سریاب میں لوگوں کے املاک کو نقصان پہنچا ہے جنہیں ایک پیسہ بھی ابھی تک نہیں ملا۔ حکومت 2002ء میں ہونے والے ناکام تجربہ دوبارہ دوراکر لیویز کو پولیس میں ضمن کرنا چاہتی ہے جس کی بھر پور مخالفت کرینگے ۔

انہوں نے کہا کہ پینل آف چیئرمین نے حکومت کے ایک مسیج پر اسمبلی کا اجلاس بلڈوز کیا ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پی ایس ڈی پی امن وامان سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہونے والے نقصانات پر حکومت کو راہ فرار اختیار کرنے نہیں دینگے ۔ 

اس موقع پر اصغر ترین نے کہا کہ حالیہ بارشوں سے ڈسٹرکٹ پشین کے علاقے لمڑان میں چھت گرنے سے چار بچوں کی شہادت ہوئی ہے میں نے ڈی سی کوخط لکھا تاہم اب تک متاثرہ خاندان کی کوئی مالی معاونت نہیں کی گئی ہے ۔ سیکرٹریٹ کے چکر لگا کر ہمارے جوتے گھس گئے ہیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اور ہمارے اتحادی جماعتوں کے ممبران کو اسمبلی میں نہیں بولنے دیا جائے گا ہمارے منہ بند کئے جائیں گے تو ہم سڑکوں پر اپنے کارکنوں کے ساتھ آئیں گے پھر حکومت ہم سے گلا نہیں کرے ۔