کینسر سے متاثرہ افراد کے لئے اکثر ہم ایسے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں جس سے وہ ہمت پکڑے اور موت سے پہلے موت کے منہ میں نہ جائے۔ لیکن ہم اِن الفاظ کا چناؤ کرکے اپنا حق ادا کرتے ہیں اور کینسر زدہ شخص صر ف مسکرا کر رہ جاتا ہے ، اُس کی مسکراہٹ کو دیکھ کر ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے الفاظ کارگر ثابت ہوگئے ہیں لیکن اُ س بیمار شخص کو پتا ہوتا ہے کہ وہ روز بہ روز زندگی کی خاتمے کی طرف جارہا ہے ۔
ہوسکتا ہے کچھ افرادکے لیے یہ الفاظ واقع سود مند ثابت ہوں لیکن کچھ کے لیے سوائے لفاظی کے اور کچھ نہیں ہوتے ۔ کیونکہ وہ اندر سے جذباتی اور صدمے کار شکار ہوجاتے ہیں ، اور جب اُن کے اپنے خاندان اور دوست اُن کے اِس کیفیت کو سمجھ نہیں پاتے ہیں تو اُس کی زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ وہ الفاظ نہیں مدد چاہتے ہیں اِس درد سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں ، زندگی چاہتے ہیں۔
اپنے لئے بہتر نگہداشت چاہتے ہیں ، اپنا علاج چاہتے ہیں جو ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں تاخیر برتی جارہی ہے ۔ حمل ظفر کی وہ مسکراہٹ جس کے پیچھے زندگی کی صدا ہے ۔ ایک ایسی مسکراہٹ جس کے پیچھے درد ، تکلیف ، خواہشات اور اُمید کی ملی جلی کیفیت چھپی ہوئی ہے۔ اُس کی موثّر مسکراہٹ یہ تقاضہ کرتی ہے کہ اُس کو زندگی چاہیے ۔اُن کی اُمید ہم سے ہے ۔ اُن کی مسکراہٹ بلوچستان کے ہر اس شخص کی نشاندہی ہے جو کینسر سے لڑ رہاہے ۔
ایسے بہت سے حمل ہیں جو ہمارا راستہ دیکھ رہے ہیں ۔ ہمیں پکار رہے ہیں ۔ اُن کی چیخیں ہماری روحوں میں آرپار ہورہی ہیں لیکن ہم چھپ کا لبادہ اُوڑھ کر بیٹھے ہیں ۔ اور ایک اور پھول کے مرجھانے کا انتظار کررہے ہیں ۔ خدارا آواز اُٹھائیں یہ ہمارے اپنے بچے ہیں ۔ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں ۔ اِن کے درد کو محسوس کریں ۔ اِس سے پہلے کہ حمل کی مسکراہٹ مدہم پڑجائے اپنے اپنے حصے کا کام کریں ۔ اِن ننھے ہاتھوں کو ہماری ضرورت ہے۔
اِن بوڑھے لرزتے ہوئے کندھوں کو تھامنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں سرطان کے مریضوں کے علاج کے لیے باقاعدہ اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے علاج کے منتظرلوگوں کی زندگی کے چراغ گل ہوتے جارہے ہیں ۔اور ہم بے بسی کی مورت لیے کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں اور کینسر کا مرض اپنی فوری قوت کے ساتھ بلوچستان کے ہر گھر کے دروازے پہ کھڑا دستک دے ر ہا ہے ۔اور جیسے ہی ہم دروازہ کھولیں گے وہ ہمیں دبوچ لے گا۔
اور ہم دھیرے دھیرے زندگی سے دور اور موت سے نزیک ہوجائینگے اور بلاآخر دائمی نیند سوجائیں گے لیکن کبھی اپنے حق کے لیے آواز نہیں اُٹھائینگے ایوانوں میں بیٹھے اپنے نمائندوں تک کبھی اپنی بات نہیں پہچائینگے ، کینسر اسپتال بنانے کے مقصد کو کبھی آگے نہیں لے کر جائینگے۔
کیونکہ ہمارے مفادات ہمارے ہاتھ روکتے ہیں ، ہمارا دامن گیر ہوتے ہیں ، ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم کچھ کریں تو کیا پتہ کریڈٹ کسی اور کو ملے گا اور ہم کریڈٹ سے محروم ہوجائینگے، شاہد ہمارا نام فاؤنڈر لسٹ میں نہ ہو ، اصل میں ہم متحد ہی نہیں ہیں ہم موقع پرست اور مفاد پرست ہوگئے ہیں ، ہمارے اتنے دھڑے اور جماعت بن چکے ہیں کہ شاہد ہمیں خود ہی یاد نہ ہو کہ ہم کس گروپ کے بچھڑے ہوئے دھڑ ے کا حصّہ ہیں؟ ہم کولہوکی بیل کی طرح پیچھے پیچھے چلتے جاتے ہیں ، گروپ پہ گروپ بن رہے ہیں ۔
جماعت کے اوپر جماعت بن رہے ہیں ، انسانوں کی تعدا د زیادہ ہورہی ہے لیکن انسانیت دب رہی ہے، کریڈٹ، لائکس ، مفاد اِن سب کے بیچ انسانیت کو سانس لینے میں بھی دشواری ہورہی ہے ۔
بہت افسوس ہوا جب ایک بندہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ’’ آؤ ساتھ چلو احتجاج کریں کینسر اسپتال کا تضاضہ کریں‘‘ ۔ لیکن اُس کے جواب میں لوگوں نے پوچھا بھئی جان کس گروپ سے ہو؟ کس پارٹی سے ہو؟ عجب طرزِ تکلم ہے کہ اُس مقصد کو نہیں دیکھا گیا صرف اُس بندے کو دیکھا گیا اگر ہم اُس کے ساتھ گئے تو کریڈٹ اُس کو ملے گا تو پھر بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ والی بات ہوجائے گی ۔ کیا ہوا اگر کریڈٹ نہ ملا؟ ضمیر کو سکون تو ملے گا۔
انسان کا خود مطمئن تو ہوگا ، اگر کوئی کینسر سے مرے گا تو آپ کا ضمیر تو شرمندہ نہیں ہوگا۔ لیکن اِ س سے پہلے کوئی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکر دائمی سفر کو روانہ ہوجائے خدارا خود میں آواز پیدا کرو ، اپنے اندر کی چیخ کو باہر نکالو، کیونکہ کینسرکی آنکھیں نہیں ہیں جو یہ دیکھ سکے کہ فلاں کو بخشنا ہے اور فلاں کو شکار بنانا ہے ، و ہ تو نگلتا جاتا ہے ۔ اپنی چیخ کو اتنا بلند کرو کہ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے نمائندوں کے کانوں کے پردوں سے ٹکرا کر اُن کو اُن کے فرض یا د دلادیں ۔
اگرچہ سرطان کے اسپتال کے قیام کے لیے موجودہ صوبائی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) میں 2ارب روپے رکھے گئے لیکن بات اِس سے آگے نہ جاسکی اورا بھی تک یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے بلکہ ابھی تک تو جگہ کا بھی تعین نہیں ہوسکا۔ اتنی سست روی کیو ں؟کیا ہمیں مزید لاشیں درکار ہیں ؟ کیونکہ پتہ نہیں ایک سال میں کتنے لوگ لقمہ اجل بن جائیں گے ۔ اب کس چیز کا انتظار ہے؟
بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں خواتین ، مرد اور نوجوانوں سمیت ننے معصوم بچے بھی سرطان میں مبتلا ہورہے ہیں ،لیکن شومئی قسمت کہ اِس خطرناک مرض کے علاج کے لیے بلوچستان میں مناسب سہولت موجود نہیں ، اور صوبے میں اب تک سرطان کے علاج کے
لیے باقاعدہ کوئی اسپتال تک قائم نہیں کیا گیا۔کوئٹہ بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال میں 40بستروں پہ مشتمل کینسر کا یہ عارضی وارڈ کینسر کے اُن بیماروں کے لیے ناکافی ہے جو اپنے دل میں علاج کی امیدلے کر دور دور سے آتے ہیں لیکن محدود وسائل اور ناقص علاج سے اکثر مریض اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ دنیاکے نقشے میں سنہرے حروف سے چمکنے والا امیر شہر کے باسیوں کی زندگی رینگ رہی ہے ، سسک رہی ہے ۔
لیکن اِس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا ، ہمارے نمائندوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ کم از کم کینسر کے ایک اسپتال کے لیے اپنی کوششیں تیز کردیں ۔ لیکن وہ ایسا کیوں کرینگے کیوں کہ اُن کا علاج تو بیرونی ممالک میں بڑے اور مہنگے اسپتالوں میں سرکاری خرچ پہ ہوتے ہیں۔
تو پھروہ عام عوام کے لیے اتنی جتن کیوں کرینگے ۔ ابھی حال ہی میں کسی منجھے ہوئے سیاست دان کو سینے میں درد اُٹھنے کے باعث کراچی لے جایا گیا جہاں کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص ہوئی اور جہاں اس کی کیموتھراپی چل رہی ہے ، شاہد وہ جلد صحت یاب ہو جائیں کیونکہ وہ علاج کی استطاعت رکھتے ہیں لیکن عام غریب انسان جسے اپنی کسی نہ کسی ضرورت کو مار کر بخار کاعلاج کرناپڑتا ہے تو وہ کینسر جیسے مہنگے مرض کا مہنگا علاج کیسے کرسکتا ہے ۔
لگتا ہے اِس صوبے کے وسائل کے سوا اِ ن کے باسیوں سے کسی کوبھی کوئی غرض نہیں ہے ۔ ابھی حال ہی میں کراچی میں ایک واقعہ ہوا کہ ایک ہی خاندان کے6افراد لقمہ اجل بن گئے جس میں پانچ بچے اور ایک عورت شامل تھی ۔
اِن افراد کا تعلق بلوچستان کے صوبے پشین سے تھا جو شاید سیرو تفریح کے لیے کراچی گئے تھے جن کی موت کی وجہ کھٹمل مار دوا ’’ ایلمونیم فاسفائیڈ‘‘سے جاری ہونے والی گیس فاسفین بتائی جارہی ہے ۔ لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ دوا اِس ہوٹل میں پہلی بار ڈالی گئی تھی ؟ کیا صرف یہی وجہ تھی؟یا کیا صرف اِسی ایک کمرے میں دوا ڈالی گئی تھی؟ یا واقعہ کو صرف ایک وجہ میں لپیٹ کر کلوز کرنا مقصد تھا؟ ۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان نے کراچی آنے سے قبل خضدارمیں بھی کھانا کایا تھا تاہم رات گئے 5بچوں ، والدہ اور پھوپھی کی حالت خراب ہوگئی اور اِن کو نجی اسپتال منتقل کیا گیا ۔ اِس میں کتنی صداقت ہے یہ خدا ہی جانے ۔ لیکن کیا ہمارے نمائندے اِس رپورٹ پہ مطمئن ہوجائینگے؟ اگر وجہ کوئی اور ہوگئی تو اِ ن معصوم بچوں اور دیگر افراد جو اِس واقعہ میں موت کے منہ میں چلے گئے اِ ن کی روحیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرینگے۔
پتہ نہیں ہمارے ہمارے نمائندوں کو کیسے نیند آتی ہوگی جب ہمارے قوم کے معصوم بچے اور معصوم لوگ درد اور تکلیف سے کراہتے ہیں ، وہ اپنے قیمتی ڈائنگ ٹیبل پہ بیٹھ کر کیسے کھانا نوش فرماتے ہیں جب قوم کے معصوم بچے بھوک سے بلک بلک کر روتے ہیں ۔ پتہ نہیں وہ کیسے سرد موسم میں گرم لحاف میں خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں جب میرے قوم کے لوگ سردی سے ٹھٹرتے ہیں ۔ میرے اِن نمائندوں کو نہیں خبر کہ یہ ساری آسائشیں اِنھی دہقان اور مزدوروں کی مرہون منت ہے۔
میرے عہد کے ناشناس پگدار
وقتِ اشاعت : April 10 – 2019