فٹبال کی دنیا کے تقریباً 90 فیصد مینیجرز کا اپنی ٹیم کی ہار جیت میں عمل دخل بہت کم ہوتا ہے۔ ٹیموں کی فتح اور شکست کا دارومدار ان کے کلب کی معاشی حالت پہ ہوتا ہے۔ جتنا اچھا کلب اتنے اچھے کھلاڑی اور جتنے بہتر کھلاڑی جیت کے امکانات اتنے ہی روشن۔ لیکن باقی 10 فیصد کا کیا؟ باقی 10 فیصد مینیجرز وہ ہوتے ہیں جو خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے مینیجرز اتنے باصلاحیت ہوتے ہیں کہ وہ صرف ایک بار کھلاڑی کو کھیلتا دیکھ کر چند منٹ کے اندر اس کی کمزوری اور صلاحیتوں کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ ایسے مینیجرز صرف ٹیمیں نہیں بلکہ چیمپیئنز تیار کرتے ہیں۔ پچھلے 27 سال سے مانچسٹر یونائیٹڈ اور دنیا کے باقی فٹبال کلبوں میں صرف یہی فرق تھا کہ ان کے سر ایلکس فرگوسن کا شمار ان عہد ساز 10 فیصد مینیجرز میں ہوتا تھا جو صدیوں میں ایک بار کسی کلب کو نصیب ہوتے ہیں۔ سر ایلکس فرگوسن نے جب کامیابیوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد مینیجر کا عہدہ اپنے ہم وطن اور ایورٹن کلب کے ڈیوڈ موئز کو دیا تو فٹبال ماہرین اور مداح حیران رہ گئے لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں یہ یقین تھا کہ فرگوسن غلطی نہیں کرسکتے۔ ان کی بات صحیح ثابت ہوئی۔ فرگوسن کا فیصلہ بلکل صحیح تھا لیکن افسوس، ڈیوڈ موئز اس فیصلے کو سمجھ نہیں پائے۔ موئز نہ تو مانچسٹر یونائیٹڈ کی روایت کو سمجھ سکے اور نہ ہی ان کے کھیلنے کے انداز کو۔ 27 سال سے اٹیکنگ یا جارحانہ فٹبال کھیلنے والی مانچسٹر یونائیٹڈ اچانک اِیورٹن کی مانند دفاعی انداز میں کھیلنے لگی۔ کھلاڑیوں کو اپنی پلیئنگ پوزیشنز کا علم نہیں تھا اور گراؤنڈ میں بیشتر میچوں کے دوران افراتفری نظر آنے لگی۔ کھلاڑیوں کا انتخاب اتنا غیر یقینی تھا کہ کھلاڑیوں کو آخری وقت تک یہ علم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کھیل رہے ہیں یا نہیں۔ موئز میڈیا اور اپنی ٹیم سے سہمے سہمے نطر آنے لگے۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی بد سے بدتر ہونے لگی اور پہ در پہ شکستوں کے بعد دنیا کے بیشتر اسپانسروں نے ٹیم سے منہ موڑ لیا۔ چھبیس سال سے چلتے ہوئے نظام میں اچانک ایک طوفان برپا ہو، ایک ایسی آندھی آئی جسے نہ تو کھلاڑی سمجھ سکے نہ شائقین اور نہ ہی موئز خود۔ ماہرین اور مداح موئز کی بیشتر غلطیوں پہ حیران نہیں ہیں تاہم کچھ فاش غلطیاں ایسی تھیں جو ایک فٹبال مینیجر کے لیے ناقابلِ معافی ہیں۔ موئز کی پہلی غلطی یہ تھی کے وہ یونائیٹڈ کے ادھیڑ عمر کھلاڑیوں کوٹیم سے باہر نہیں کر پائے۔ فٹبال کے شعبے میں کھیل کی تیزی کے پیشِ نظر عموماً نوجوان کھلاڑیوں کو ترجیع دی جاتی ہے جس سے کھیل میں نہ صرف تیزی آتی ہے بلکے نئے کھلاڑی جونیئر ہونے کی وجہ سے مینیجر کی بات پہ زیادہ عمل کرتے ہیں۔ موئز ایسا کرنے میں ناکام رہے وہ اگر ایسے چند کھلاڑیوں کو فارغ کر کے مانچسٹر یونائیٹڈ کے ’ٹرانسفراور بائینگ‘ بجٹ سے نئے کھلاڑی خریدتے یا مانچسٹر یونائیٹڈ کے ہی اپنے ٹیلنٹ بینک سے عدنان جنوزاج، شنجی کاگوا اور ہوائن ماتا جیسے نئے اور تیز کھلاڑیوں کو موقع دیتے تو آج صورتِحال بہت مختلف ہوتی۔ دوسری غلطی جو موئز کو بھاری پڑی وہ بیک روم اسٹاف کی تبدیلی تھی۔ کلب کا یہی سٹاف سر ایلکس فرگوسن کے ساتھ 27 سال سے تھا اور یونائیٹڈ کی ہر کمزوری سے واقف تھا۔ ایسے میں موئز کا ان کو فارغ کرنا نہ صرف ماہرین کی سمجھ سے باہر تھا بلکے اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ موئز کے اس فیصلے نے یونائیٹڈ کے کھیلنے کا سٹائل بری طرح الجھا دیا۔ مانچسٹر یونائیٹڈ کے کلب کی سب سے بڑی الجھن اب اس کی معاشی حالت ہے۔ 27 سال سے کلب کے ٹرانسفر بجٹ کی دیوار میں لگی دراڑیں اور ادھیڑ عمر کھلاڑیوں سے بنی ٹیم کے زِرہ میں پڑے شگاف آج تک نہ تو میڈیا کو نظر آئے اور نہ شائقین کو۔ اور آتے بھی کیسے، اِن کمزوریوں کو فرگوسن نے اپنی ناقابلِ شکست کارکردگی سے چھپائے رکھا تھا؟
لیکن اب یونائیٹڈ کے پاس نہ تو فرگوسن ہیں اور نہ ہی ٹرانسفر بجٹ، مختصر یہ کہ یونائیٹڈ کا حال اب 24 سال پہلے والی لیورپول ٹیم جیسا ہے اور مداحوں کو اب دھیرے دھیرے اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے۔ انھیں اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ یونائیٹڈ کا سنہری دور پچھلے سال فرگوسن کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو گیا اور 27 سال سے یونائیٹڈ کی تاریخ لکھنے والے تاریخ دان شاید اب لمبی تان کر سو جائیں۔