کوئٹہ : ہزارگنجی میں ہونے والے بم دھماکے کیخلاف ہزارہ برداری نے مغربی بائی پاس پرگزشتہ تین روز سے جاری دھرنا وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی ، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی یقین دہانی پر ختم کردیا ۔
تفصیلات کے مطابق نا وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی ، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان ،ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری ،وزیر اعظم کے معاون خصوصی ذوالفقار بخاری، رکن صوبائی اسمبلی لیلی ٰ ترین اور دیگر اعلیٰ حکام پر مشتمل وفد مغربی بائی پاس پر ہزارہ برداری کے دھرنے میں گئے اور مظاہرین سے دھرنا ختم کر نے کی درخواست کی ۔
وفد اور دھرنے کے رہنماء طاہر خان ہزارہ کے درمیان مذاکرات ہوئے جن میں ہزارہ برداری کے تحفظ کے لئے اقدامات مزید بہتر بنا نے کی یقین دہانی کروائی گئی جس کے بعد طاہر ہزارہ نے وزیر مملکت شہریار آفریدی اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے ہمراہ دھر نا ختم کرنا کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری روایت نہیں کہ ہم کسی کو آنے سے روکیں حکومت کو مسائل سے آگاہ کرنا ہمارا حق ہے ۔
اس سے قبل بھی ہمیں سیکیورٹی کی فراہمی کی یقین دہانیاں کرائی گئیںآئین پاکستان نے ملک کے ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے، ہمارا مطالبہ غیر آئینی نہیں ، ملک اس وقت خاموش دہشت گردی کا شکار ہے ہم حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ ہمارا یہاں آنے کا مقصد امن کا پیغام پہنچانا ہے۔
ہزارہ کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے،دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی فورسز دن رات محنت کر رہی ہیں،ہم آپکو کسی بھی جگہ پر تنہا نہیں چھوڑیں گے، انہوں نے کہا کہ ہم یہاں سیاست کرنے نہیں آئے بلکہ آپکا دکھ بانٹنے آئے ہیں آپکے جائز مطالبات عملی اقدامات کرینگے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اس شہر اور صوبے کو محفوظ بنائیں ، قیام امن کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں ہیں بلوچستان ہمارا گھر ہے اور گھر والوں کے غم سے بڑھ کر کوئی غم نہیں ہوتا، قیام امن کے لیے اس طرح کی سنجیدگی ماضی میں نہیں ملتی جو موجودہ حکومت دکھا رہی ہے ہزارہ کمیونٹی ، اس شہر اور صوبے نے بہت مشکل حالات دیکھے ہیں ہزارہ کمیونٹی کے تمام مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے، انہوں نے کہا کہ چند وزارتیں لینا حکومت بلکہ عوام کے مسائل حل کرنا اس حکومت کی اصل ذمہ داری ہے،وفاقی حکومت زائرین کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ چیزوں کو درست کرنے میں وقت لگتا ہے، لاپتہ افراد سمیت تمام مسائل کے حل میں ہماری حکومت سنجیدہ ہے، ہمیں پشتون بلوچ ہزارہ یا مہاجر سے بلند ہوکر امن کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا دھرنے کے شرکا نے مسلمان پاکستانی شہری ہونے کا حق ادا کیا ہے ہم سب ایک خاندان ایک گھر کی مانند ہیں دہشت گرد عناصر کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے ۔
وزیراعلی جام کمال نے کہا کہ ہزارہ برادری نے ہمیں عزت دی ان کے مشکور ہیں سب نے مل کر کوشش کی ہے کہ صوبے کو پرامن بنایا جائے، رکن اسمبلی لیلی ترین نے دھرنے کے شرکا سے خطاب میں کہا کہ میں اپنے بھائیوں کے غم میں برابر کی شریک ہوں بلوچستان کا رواج ہے کہ جہاں خاتون صلح کے لیے جاتی ہے وہاں صلح کر لی جاتی ہے، میں اپنے بھائیوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ دھرنا ختم کر دیں ہماری عزت رکھنے پر ہزارہ برداری کی مشکور ہوں ۔
دریں اثناء دھرنے کے شرکاء پر امن طور پر منشر ہوگئے ۔وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے کہا ہے کہ پاکستان دشمن عناصر ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ،دشمن کے ہی ایجنڈے پر زبان اور قومیت کی بنیاد پر تفریق پیدا کی گئی، اتفاق اور یکجہتی سے ان عناصر کو ناکام کرینگے، ریاست بلوچ، پشتون، پنجابی اور ہزارہ سمیت ملک کے ہر شہری کو عزت ،تحفظ اور دہشتگردی میں ملوث عناصر کو سزا دے گی۔
ہزارہ برادری کیساتھ کھڑے ہیں ان سے استدعا ہے کہ ہماری نیت پر شک نہ کریں۔یہ بات انہوں نے پیر کوئٹہ پہنچنے کے بعد ہزارہ ٹاون امام بارگاہ میں ہزار گنجی واقعے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔
اس موقع پروزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری ، صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی قادر علی نائل، چیف سیکرٹری بلوچستان ڈاکٹر اختر نذیر ،آئی جی پولیس بلوچستان محسن حسن بٹ ،مجلس وحدت امسلمین کے رہنماء علامہ ہاشم موسوی اورہزارہ قبیلہ کے سرکردہ رہنماء بھی موجود تھے۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ وزیرعظم عمران خان قانون اور آئین کے تحت آگئے بڑھ رہے ہیں ۔
حکومت نیشنل سیکورٹی پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان میں اصلاحات لارہی ہے جس کے بعد عوام خود حکومت کی کارکردگی کی تعریف کرینگے ، نیشنل ایکشن پلان کو عملی طور پرنافذ کرانے اور نیشنل سیکورٹی پالیسی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے سمیت پولیس کے نظام میں ریفارمز لارہے ہیں جس سے ہر ادرے میں نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہم نے ریفامز کرنے ہیں میرے آپ کے پیاروں کو ضرور شہید کیا گیا ہے لیکن ہماری یہ سوچ ہے کہ دھرتی ماں پر کوئی آنچ نہیںآنے دیں گے،جب سے موجودہ حکومت کا قیام عمل میںآیا ہے تب سے وفاقی وزر اآپ کا پاس آتے رہے ہیں،موجودہ واقعے پر بھی وزیراعظم اور صدر بھی متاثرہ خاندانوں کے پاس آئیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان ، وفاقی حکومت سمیت ہم میں سے کوئی بدنیت نہیں اگر کوئی ہوا تو اللہ اسے رسوا کرئیگا ،یہاںآکر میں نے تمام مسالک کے درمیان ہم آہنگی دیکھی ہے اور ہم نے پوری دنیا کو پاکستانی قوم کی ایسی تصویر دکھانی ہے کہ ہم ایک ہیں ، وزیراعظم ایران جارہے ہیں ، ایرانی صدر کی سوچ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ، ہمیں اتحاد بین المسمین کی طرف جانا ہوگا ۔
یمن ، ایران ، پاکستان ، یا افغانستان سمیت کوئی مسلم ملک ہو ہمیں تمام اختلاف کا خاتمہ کرکے آپس میں اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوتے ہمیں توڑ کی طرف نہیں بلکہ جوڑ کی طرف جانا ہے ،یہ واقعہ ایک ایسے وقت پر پیش آیا جب پاکستان مشکل سے گزر رہا ہے دشمن کی کوشش ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کیا جائے ، پاکستان کو معاشی طور پر ہر ڈگر پر ایسے نقصانات پہنچائے جائیں تاکہ پاکستان کو ناقابل تصور نقصان پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ ہزار گنجی واقعے کی کوئی وضاحت نہیں ، یہ واقعہ نہیں پیش اآنا چائیے تھا ، امن وامان کے قیام کے لئے سیکورٹی فورسز اور عوام نے لاوازل قربانیاں دی ہیں دی ہیں ، میرے گھر سے تین جنازہ نکلے ہیں فلسفہ امام حسین ظالم کے آگئے کھڑا ہونا اور مظلوم کا ساتھ دینا ہے ، جذبہ شہادت تو ہر مسلمان کے خون میں ہے ، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو ملک میں انتشار پھیلارہے ہیں ۔
پہلے زبان ،پھر مذہب و مسلک کے نام پرپھر علاقے کے نام پر پاکستانیوں کو آپس میں دست گریباں کرکے آپس میں میں لڑایاگیا ،غیر کے ایجنڈے پر عوام کو اداروں کے سامنے کھڑا کیا گیاملک کو غیر مستحکم کرنا دشمن کا ایجنڈا ہے مگر ہم سب کا ایمان ہے کہ ان تمام قوتوں کو انشاء4 اللہ یکجہتی اتحاد واتفاق ایک کمٹمنٹ سے ناکام بنادیں اور 22 کروڑ عوام کھبی اس ملک پر آنچ آنے نہیں دینگے،یہ ملک ہمارا ہے اس کے لئے ہم اپنی جانیں بھی قربان کریں گے۔
علماء4 کرام اور شہدا کے ورثاء4 یہاں پر موجود ہیں، امن وامان کے قیام میں پہلا اور اہم کردار صوبائی حکومت کا ہے صوبائی حکومت اوروزیراعلیٰ کی پشت پر وفاقی حکومت کھڑی ہے و زیراعلیٰ بلوچستان سے میں اور زلفی بخاری ابھی ملاقات کرکے آرہے ہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ ہزارہ کمیونٹی پر ظلم ہوا ہے ، یہاں ماضی میں بھی جو ہوا ۔
اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں ، میں نے جب سے وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے بلوچستان آکر عوام کے درمیان بیٹھتا رہا ہوں مجھے کسی کا خوف نہیں ،جان اس رب کو دینی ہے ہمیں کسی کے اشاروں پر نہ تو چلتے ہیں اورنہ کسی کی سوچ کو خود پر مسلط کرنے دیتے ہیں۔
ہم کسی کو حقیر نہیں سمجھتے ہم ہزارہ کیمونٹی کے ساتھ کھڑے ہیں ، ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے ہم آپ کے درد میں برابر کے شریک ہے ، واقعے کے جو بھی ذمہ دار ہیں ریاست بلاکسی تفریق کے انہیں کیفر کردار تک پہنچائے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں ملوث کسی ملزم کو نہیں پکڑا گیا ان واقعات میں ملوث بہت سے عناصر کو پکڑا گیا اور بہت سارے لوگوں کو سزائیں بھی ہوئی ہیں کالعدم تنظیموں کے خلاف پورئے پاکستان میں کریک ڈان بھی ہوا ،یہی وجہ ہے کہ نو ماہ بعد ملک دشمن عناصر کو ایک موقع ملا، مگر ایسے عناصر ہمارئے اتحاد کو کمزور نہیں کرسکتے اور انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ وزیراعظم کا وڑن ہے کہ بلوچستان کو ہم نے آگئے لیکر چلنا ہے اور اس کی محرومیاں ختم کرنی ہیں ، گلگت بلستان سمیت وہ تمام علاقے جن کو کبھی گلے نہیں لگایا گیا تھا ہم ان کے ساتھ بھی کھڑے ہیں،صرف اعلانات یا زبانی حدتک مذمت نہین کرتے بلکہ واقعے کے بعد سے ہم تمام اسٹیک ہولڈرز بیٹھے رہے رات کو ایک بجے تک پاکستان کے تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ میٹنگز ہوئیں اب بھی میٹنگز کرکے آئے ہیں ۔
یہ پوری پاکستانی قوم کے لئے آزمائشں کی گھڑی ہے اور آزمائشیں قوموں پر آتی ہیں لیکن ہم نے سر نہیں جھکانا اور نہ ہی ہم نے گھبرانا ہے ، ہم نے ڈرنا اور منہ پھیرنا بھی نہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور ہم کر بھی رہے ہیں ، ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے ، مرنا سب نے ہے مگر ہم ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ۔
پاک ایران اور پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع ہے جب ہمارا گھر محفوظ ہوگا تو اس گھر میں رہنے والے تمام لوگ بھی محفوظ ہونگے ، بلوچستان کے منتخب نمائندئے جو موجودہ صوبائی حکومت کا حصہ ہیں ۔
ان سے پوچھیں وہ جب بھی اسلام آباد آتے ہیں ہم ان کو گلے لگاتے ہیں ان کے لے کوئی روک ٹوک نہیں ، صرف ہزاہ کمیونٹی ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے ایک ایک بلوچ ، پشتون ، پنجابی سمیت ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں اور ہر علاقے کے رہنے والوں کو ریاست عزت اور تحفظ دیگی ،ہم نے علماء کرام ، لوکل کمیونٹی اور آپ کی سوچ کے مطابق آگئے جانا ہے بتائیں کہ کس راستہ پر چلیں ہم آپ کے ساتھ مل کر آگا جانا چاہتے ہیں ،جو قوتیں جوموقع تلاش کرتی ہیں کہ پاکستان اور پاکستانی اداروں کو کیسے بدنام کیا جائے یا بین الاقوامی سطح پر ملک کا غلط تاثر دیا جائے ان سب کیلئے واضح پیغام ہے کہ ہم پریشر میں نہیں آتے ، بلکہ ہمشہ حق کیساتھ کھڑے ہونگے ۔
زیادتی کوئی بھی کریگا ریاست اس کو سزا دے گی ، حکومت کو اس کا احساس ہے کہ ہزارہ کیمونٹی کے ساتھ کیا ہواآپ بچے اسکول اور کالج نہیں جاپاتے،لیکن آپ کی کیمونٹی کا ٹیلنٹ کسی سے کم نہیں، ففتھ جنریشن وار میں سوشل میڈیا کو استعمال کرکے ہمیں آپس میں لڑانے اور قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ بے بنیاد تاثر دیا جارہا ہے کہ آپ کے غم میں حکومت شریک نہیں ہوتی ایسا تاثر دینے والے آپ کے غم میں اضافہ کررہے ہیں ، علاوہ ازیں وزیر مملکت شہریار آفریدی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے ایف سی اور بی ایم سی ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے ہزارگنجی بم دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی ذوالفقار عباس بخاری کی پیر کے روز یہاں ہونے والی ملاقات میں بلوچستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے، دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں اور ٹھکانوں کے خلاف جاری کاروائیوں کو مزید موثر بنانے، قانون نافذ کرنے والے وفاقی اور صوبائی اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن کو مزید مستحکم کرنے اور نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور طریقے سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو، چیف سیکریٹری بلوچستان ڈاکٹر اختر نذیر، آئی جی ایف سی نارتھ میجر جنرل فیاض حسین شاہ، آئی جی پولیس محسن حسن بٹ، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ،ڈی آئی جی سی ٹی ڈی، کمشنر کوئٹہ اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔
ملاقات کے دوران ہزار گنجی بم دھماکہ سے پیدا ہونے والی صورتحال اور دہشت گردی کے اس واقعہ کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ صوبے کی سیکیورٹی سے متعلق امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ملک کے استحکام کے خلاف گہری سازش قراردیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ اس میں ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے کوئی کسراٹھا نہیں رکھی جائے گی ۔
وزیرمملکت برائے داخلہ نے بلوچستان میں دیرپا امن کے قیام کے لئے صوبائی حکومت کی کاوشوں اور اقدامات کو سراہتے ہوئے وفاقی حکومت کی بھرپور معاونت کی فراہمی کا یقین دلایا ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو پرامن اور ترقی یافتہ بنانا وزیراعظم عمران خان کی اولین ترجیح ہے اور وہ وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر ان کا پیغام لے کر بلوچستان آئے ہیں کہ وفاقی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں صوبائی حکومت کے ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں صوبے کے امن اور ترقی کے لئے کئے جانے والے اقدامات قابل تحسین ہیں، ان اقدامات کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے متعلقہ وفاقی محکمے اور ادارے صوبائی حکومت سے بھرپور تعاون کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان اہم امور پر کوآرڈینیشن نہ ہونے کے باعث بہت سے مسائل پیدا ہوئے جن کا فائدہ ملک دشمن عناصر نے اٹھایاتاہم اب ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونے دی جائے گی، دہشت گردی کو ایندھن فراہم کرنے والے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور غیر ریاستی عناصر کے مذموم مقاصد کو ناکام بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کی کوئی بھی گارنٹی نہیں دے سکتا تاہم حکومت عوام کی جان ومال کی حفاظت کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔ اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم مشکل حالات سے گزر کر امن کی منزل تک پہنچے ہیں اور امن کے دیرپا قیام کو یقینی بنایا جارہا ہے، گذشتہ ایک سال کے دوران سیکیورٹی اداروں نے جانوں کی پرواہ کئے بغیر دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کے خلاف موثر کاروائیاں کرتے ہوئے کئی ایک کامیابیاں حاصل کیں، انہوں نے کہا کہ سانحہ ہزارگنجی سے ہونے والا جانی نقصان ہم سب کا مشترکہ نقصان ہے اور ہم سوگواران کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے لواحقین سے ملاقات کی جنہوں نے ہماری بات سنی اور ہزارہ برادری کے تحفظ کے لئے کئے گئے سیکیورٹی کے مجموعی اقدامات پراطمینان کا اظہار بھی کیا، اس موقع پر سیکیورٹی حکام کی جانب سے واقعہ کے محرکات ، اب تک ہونے والی پیشرفت، دھرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور گذشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔
ملاقات میں اس توقع کا اظہار کیا کہ دھرنا کے شرکاء صوبے ،ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں دھرنا ختم کردیں گے جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز اور عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔