کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت ہر ممکن اقدامات اٹھارہی ہے۔ متاثرہ اضلاع میں ہونے والے نقصانات اور حکومتی اقدامات کی تفصیلات اراکین اسمبلی کو پیش کرینگے۔
ہماری کوتاہیوں پر بے شک با ت کی جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری نہ کریں اگر ہم نظام کو صحیح نہیں کرتے تو اس میں ہمارا قصور ہے۔ جمعرا ت کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے مزید کہا کہ بلوچستا ن گزشتہ کافی عرصے سے خشک سالی کی لپیٹ میں تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مجھے خودبعض ممبران نے بتایا کہ ہمارے علاقوں میں ایسے درخت اور پودے ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوتے لیکن صوبے میں تسلسل سے جاری رہنے والی خشک سالی میں وہ بھی خشک ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خشک سالی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت نے صوبے میں ایمرجنسی ڈکلیئر کی اور اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا کہ پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دیا جائے اس دوران پی ڈی ایم اے کے پاس جو سامان موجود تھا وہ ہم نے مختلف اضلاع میں بھیجا تاہم اس وقت نوعیت مختلف تھی اور آج مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ قحط سالی انسان کا نہیں قدرت کا نظام ہے۔
کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں لوگوں نے گڑا گڑا کربارشوں کیلئے دعائیں مانگیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اوربلوچستان میں بارشوں اور برفباری کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ہمیں قدرت کی ناشکری نہیں کرنی چاہئے پانی بہت بڑا وسیلہ ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب سے لوگ متاثر ہوئے، زمینداری بھی متاثر ہوئی لیکن جہاں تک خشک سالی کا تعلق ہے اس سے انسان حیوان سب متاثر ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوئی اور بلوچستان میں ایسی بارشیں اور ایسی برفباری ہوئی کہ شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 60فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش مالداری ہے اور مالداری کے لئے ان کا انحصار بارشوں پرہوتا ہے ہماری کوتاہیوں پر بے شک با ت کی جائے اور اگر ہم سے کچھ نہیں ہوا تو اس پر بھی بات کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نظام کو صحیح نہیں کرتے تو اس میں ہمارا قصور ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال کوئٹہ سمیت بلوچستان کے تقریباً تمام اضلاع میں بیک وقت بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں ایک ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی تاہم وزراء، انتظامیہ اور پی ڈی ایم اے نے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ہمارے پاس جو جو چیزیں تھیں ہم نے متاثرہ اضلاع کے لوگوں کیلئے بھجوانی شروع کردیں اور ابھی ہم فلڈ ریلیف کو موثر بنانے کے لئے طریق کار اپناکر نیا سلسلہ شروع کررہے تھے کہ اس دوران بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا اور نصیر آباد ڈویژن میں کافی پانی آگیاصورتحال سے نمٹنے کے لئے بلوچستان حکومت اقداما ت اٹھارہی ہے پہلا مرحلہ ریسکیو کا ہوتا ہے۔
اس کے بعد بحالی کاکام ہوتا ہے ہم اگلے دو تین روز میں باقاعدہ رپورٹ بنا کر اراکین کو آگاہ کردیں گے کہ اب تک کہاں کہاں سیلاب آیااور اس کے نتیجے میں کیا کیا نقصانات ہوئے اور ان نقصانات کے ازالے اور متاثرین کی بحالی کے لئے حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں تمام تفصیلات پیش کردیں گے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھارہی ہے اور اس سلسلے میں وفاق سے بھی بات کرلی ہے اور متاثرین کی بحالی کو یقینی بنایا جائے گا۔
قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی کی زینت شاہوانی نے ضلع بولان کچی میں خشک سالی متاثرین میں اشیاء خوردونوش و دیگر اشیاء کی تقسیم سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ حکومت کی جانب سے ضلع بولان کے خشک سالی سے متاثرین میں اشیاء خوردونوش و دیگر اشیاء کی تقسیم کی گئی ہے اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو مذکورہ ضلع کے کن کن علاقوں اور دیہات میں کس قدر اور کونسی اشیاء تقسیم کی گئی ہیں اس کی تفصیل دی جائے اور اگر جواب نفی میں ہے تو اشیاء تقسیم نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں اس کی تفصیل دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ڈپٹی کمشنرز کو بادشاہ بنادیا ہے وہ ہماری بات سننے کو تیار نہیں متاثرہ اضلاع میں من پسند افراد کو امدادی اشیاء میں نوازا جارہا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے کہا کہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے میرے پورے حلقے میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی ہے پورا علاقہ پچاس سال پیچھے چلا گیا ہے۔
مجھے صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ اتنی بڑی تباہی کے بعد بھی ڈپٹی کمشنر نے پانچ سو متاثرین کے لئے امداد مانگی جبکہ صوبائی حکومت نے سات سو متاثرین کے لئے امدادبھیجی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے کیونکہ کچھی اور نصیر آباد کا وہ علاقہ جو اس سے پہلے کچھی کا حصہ تھا وہ بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
80فیصد زرعی علاقے اور بندات متاثرہوئے ہیں مشیر تعلیم کی اراضی کا ایک چھوٹا ساحصہ بھی میرے حلقے میں آتا ہے وہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے علاقے میں کتنی تباہی پھیلی اور نقصانات ہوئے ہیں۔
متاثرین کی ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے بتایاگیا ہے کہ بلڈوزر کے گھنٹے اور بندات کی تعمیر ممکن نہیں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو کچھی میں پھیلنے والی تباہی کا اندازہ نہیں ہے میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اگر یہی صورتحال چھ ماہ تک برقرار رہی تو 80فیصد لوگ نقل مکانی کرکے چلے جائیں گے۔
حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کرے اور یہ متاثرین کا جائز حق بھی بنتا ہے کہ ان کی بحالی اور امدادکو یقینی بنایا جائے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی انہوں نے زوردیا کہ وزیراعلیٰ خود کچھی کا دورہ کرکے متاثرین سے ملاقات کریں یا کم ازکم وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی بنا کر کچھی بھیجیں جو متاثرین کے نقصانات کاخود جائزہ لے اور متاثرین کے مسائل معلوم کرے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ایک طویل قحط سالی نے ہمارے عوام کو شدید مشکلات سے دوچارکئے رکھا مگر ان کو امید تھی کہ کبھی بارشیں ہوں گی تو وہ دوبارہ آباد ہوں گے مگر اب سیلابی ریلوں نے تباہی مچادی ہے صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ بد قسمتی سے پہلے تو ایک جانب طویل خشک سالی رہی جس پر ہم اسی ایوان سے قرار داد بھی منظور کراچکے ہیں۔
خشک سالی سے جہاں صوبے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اس وقت بھی ہم نے کوشش کی تھی کہ بلوچستان کو آفت زدہ قرار دیا جائے متاثرین کو تباہ کن بارشوں اور سیلابی ریلوں کے بعد دوچار کلو آٹا اور چینی دینا مسئلے کا حل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ افسوسنا ک بات یہ ہے کہ کئی سالوں تک جاری خشک سالی میں بھی نہ تو عوام اور نہ ہی زمینداروں و مالداروں کی مدد کی گئی زرعی قرضے جو انتہائی کم تھے انہیں بھی معاف نہیں کیا گیا اب شدید بارشوں اور سیلابی ریلوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلادی ہے ایک جانب ہم صوبے میں پانی کی قلت کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب گزشتہ دنوں بارشوں کا پانی بہہ کر ضائع ہوگیا۔
انہوں نے زور دیا کہ بلوچستا ن کو فوری طو رپر آفت زدہ قرار دے کر نقصانات کا سروے اور متاثرین کی امداد کے لئے حکومتی و اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے اور اسلام آباد جا کر متاثرین کی امداد کے لئے وفاق سے بات کی جائے۔
اجلاس میں جمعیت کے حاجی محمد نواز نے کہا کہ گلستان میں امدادی سامان حکومتی اراکین کے ذریعے تقسیم کیا گیا اور اس میں اپوزیشن کو نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ ڈپٹی کمشنرز کو پابند کیا گیا ہے کہ اگر اپوزیشن اراکین کے فون آپ اٹینڈ کریں گے تو تبادلہ کیا جائے گا۔
نصراللہ زیرئے نے بھی امدادی اشیاء کی غیر منصفانہ تقسیم ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اکثر اضلاع میں غیر معیار ی اشیاء متاثرین کے لئے بھیجی گئی ہیں تین روز قبل دکی میں خراب آٹا بھیجا گیا تھا جسے واپس کردیا گیا۔شکیلہ نوید نے کہا کہ پی ڈی ایم اے سے گلہ نہیں ضلعی انتظامیہ پسند و ناپسند کی بنیاد پر اشیاء کی تقسیم کررہی ہے۔
مشیر تعلیم محمد خان لہڑی نے کہا کہ نصیر آباد میں حالیہ سیلابی تباہ کاریوں سے ایک سو پچاس ایکڑ پر مشتمل فصلات تباہ ہوچکی ہیں متاثرہ علاقو ں کو ایک کلو آٹا اور گھی فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ان کے زرعی نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔
صوبائی وزیر پی ڈیم اے نے اراکین نے توجہ دلاؤنوٹس پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بہت بڑے پیمانے پر حالیہ بارشوں سے تباہ کاریاں ہوئی ہیں متاثرہ علاقوں میں متاثرین کی دوبارہ بحالی کے لئے پی ڈی ایم اے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھی، نصیر آباد اورجھل مگسی میں ڈپٹی کمشنر ز کی جانب سے پانچ سو متاثرین کی فہرست بھیجی گئی جبکہ ہم نے سات سو متاثرین کے لئے خیمے اور فوڈ آئٹمزبھی فراہم کردیئے یہاں سیاست میں الجھنا نہیں چاہئے جو بھی متاثر ہوئے ہیں انہیں بلا تفریق امدادی سامان فراہم کیا جارہا ہے۔