کوئٹہ بلوچستان کا دارالخلافہ ہے اور یہاں سب سے زیادہ آلودگی پائی جاتی ہے ۔ مقامی ادارے اس میں ناکام رہے ہیں کہ وہ ابلتے ہوئے گٹر بند کردیں اور انسانی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے شہر کو صاف ستھرا رکھ سکیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ شہر میں کہیں بھی صفائی ستھرائی کاکام ہوتانظر نہیں آرہا۔ کبھی کبھار سیکرٹریٹ کے قرب و جوار میں کچھ کارکن صفائی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ شاید وہ اس وجہ سے کہ اہم شخصیات کا ان علاقوں سے گزر ہوتا ہے ۔ ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ کچرا اٹھانے والی گاڑیاں بھی شاذو نادر شہر کے سڑکوں پر نظر آتی ہیں ۔ سنیٹری کارکن سڑکوں اور گلیوں کو صاف کرتے نظر نہیں آتے وہ سرکاری ملازم ہیں لیکن سرکاری کام ہی نہیں کرتے ۔ کچھ افسروں کے گھروں پر صفائی کرنے کے بعد وہ مزید آمدنی کا ذریعہ تلاش کرتے نظر آتے ہیں ۔ کوئٹہ میں ان تمام معاملات کی ذمہ دار کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن اور دوسرے مقامی ادارے ہیں ۔ چونکہ یہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں اس لئے پاکستان کا سب سے زیادہ آلودہ شہر کوئٹہ بن گیا ہے اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف میونسپل حکام پر ہے ۔ پہلے تو یہ بتایا جائے کہ جاپان حکومت کی جانب سے جو گاڑیاں فراہم کی گئیں تھیں وہ کہاں ہیں ،کس حال میں ہیں؟ اگر خراب ہیں تو ان کی مرمت کیوں وقت پر نہیں کی گئی ۔ پہلے بہت سی گاڑیاں کچرا اٹھاتے ہوئے نظر آتی تھیں، اب نہیں ۔ شاید سب کے سب خراب ہیں اور یہ میونسپل انتظامیہ کی نا اہلی ہے کہ ان کی وقت پر مرمت نہ ہوسکی ۔ لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ کوئٹہ شہر کا کوئی والی وارث نہیں ۔ کوئی بڑا آدمی ‘ سیاستدان ‘ سرکاری افسر یا نامور اور نامی گرامی شخصیات اس کو اپنا شہر ہی نہیں سمجھتے۔ اگر سمجھتے تو میونسپل حکام کی درگت بنائی جاتی ۔ ضرورت اس بات ہے کہ پہلے اس شہر کے قدیم اور مستقل باشندے کوئٹہ کو اپنا شہر سمجھیں اور اس کی صفائی ستھرائی میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں ۔ کوئٹہ اب بھی دوبارہ ہل اسٹیشن بن سکتا ہے ۔ اور ٹی بی اور سینے کے دوسرے امراض کا بہترین علاج صرف اس شہر کی صاف اور شفاف ہوا اور ماحول کی موجودگی میں ممکن ہونی چائیے ۔ چیف سیکریٹری نے ایک اجلاس میں افسران کو ہدایت کی کہ وہ کوئٹہ میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور صفائی کا خاص خیال رکھیں ۔ ہم اس موقع پر ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ گندے پانی کو صاف کرنے اوراس کو فصلات اور کیمیاوی مواد سے پاک کرنے کے بعد کوئٹہ کے اندر کھیتوں کو فراہم کیا جائے تاکہ سبزی اور ترکاری آلودگی سے پاک ہوں ۔ اور لوگ ان کے کھانے کے بعد بیمار نہ پڑیں ۔ اس پانی کو گاڑیاں دھونے اور درخت اگانے کے لئے بھی استعمال میں لایا جائے تاکہ کوئٹہ گرین ہو ، آلودگی سے پاک ہو ۔ ریسرچ سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ آلودہ سبزیاں اور ترکاریاں کھانے سے کوئٹہ شہر میں یرقان اور پیٹ کی بیماریاں عام ہیں جو جان لیوا ثابت ہورہی ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ فضلہ اور کچرہ کو ٹھکانے لگانے کا پلانٹ حکومت اپنے خرچ پر لگائے ۔ گزشتہ ادوار میں نجی کمپنیاں کوئٹہ آئیں تھیں اوران کی کوشش تھی کہ اس پلانٹ کے بہانے صوبائی حکومت سے ایک کثیر رقم لوٹ لی جائے جو نا قابل قبول ہے ۔ کچرہ اٹھانا اور اس کو ٹھکانے لگانا ‘ ابلتے گٹر بند کرنا اور شہر کو صاف ستھرا رکھنا میونسپل حکام کی ذمہ داری ہے ۔ ان کو یہ معلوم ہونا چائیے کہ ڈیوٹی ایمانداری سے ادا نہ کرنے کی صورت میں ان کوسزائیں بھی مل سکتی ہیں۔