|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2019

مزدوروں کا عالمی دن شہدائے شکاگو کے واقعے کو 134سال گزر چکے ہیں۔ ہر سال اس کی برسی کو پوری دنیا کے محنت کش بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب کے پورے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ کیونکہ شکاگو کے شہیدوں نے 18گھنٹے کے اوقات کار کو آٹھ گھنٹے میں بدلنے کے لیے امریکہ کے شہر شکاگو میں آواز بلند کی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ آٹھ گھنٹے کام کریں گے، آٹھ گھنٹے آرام کریں گے اور آٹھ گھنٹہ اپنی فیملی کو دیں گے۔

مزدوروں نے اپنے مطالبے کو منوانے کے لیے پرامن احتجاج راستہ اپنا یا۔ احتجاجی مظاہروں میں سفید جھنڈے اور بینر اٹھائے ہوئے تھے۔ ظالم استحصالی قوتوں نے مزدوروں کے پرامن ریلی پر فائرنگ کی جس کی وجہ سے سینکڑوں مزدور پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔ مزدوروں نے اپنے خون سے سفید جھنڈے کو سرخ کیا جو آج تک سرخ ہے۔ یکم مئی 1886ء کے دن مزدوروں کی قربانی آخرکار رنگ لائی اور ان کے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کو تسلیم کر لیا گیا۔

دنیا بھر کے محنت کشوں نے اس لازوال قربانی اور جدوجہد سے یہ سبق حاصل کیا کہ محنت کش طبقہ کسی بھی سماج میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی اجازت کے بغیر کوئی چیز حرکت نہیں کرسکتی۔ وہ نظام کا پہیہ بھی جام کرسکتے ہیں اور سماجی تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔ جس طرح 1917ء میں روس میں مزدوروں نے ظالم زارشاہی کا تختہ الٹ دیا اور مزدور راج قائم کیا۔ مزدوروں کی تحریک میں قیادت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر قیادت باشعور، مخلص، ایماندار اور جرات مند ہو تو محنت کش طبقے کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ شگاکو کے مزدوروں کی قیادت کی اسی جرات، دلیری، جرات اور ثابت قدمی سے ان کو کامیابی ملی جو آج تک محنت کشوں کے لیے مشعل راہ بنا ہوا ہے۔

آج سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت کی وجہ سے محنت کشوں کی حالت زار ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔ طبقاتی تفریق کافی بڑھ چکی ہے۔ محنت کشوں کی مراعات میں مسلسل کٹوتی کی جارہی ہے جو انہوں نے ماضی میں جدوجہد کی بدولت حاصل کیا تھا۔ اکیسویں صدی کے اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کام کے اوقات کارمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ٹھیکیداری نظام نے محنت کشوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ تمام تر بنیادی سہولیات زندگی صحت، تعلیم، رہائش اور پوشاک دن دگنی رات چگنی مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔

پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں مزدوروں کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہے۔ کارخانوں، کول مائنز، بھٹوں، ہوٹلوں اور دیگر اداروں میں مزدوروں کا بدترین استحصال کیا جا رہا ہے۔ ان اداروں میں مالکان مزدوروں کے ٹریڈ یونین کورجسٹر ہونے ہی نہیں دیتے۔ مزدوروں کو ٹھیکیداروں کے توسط سے دیہاڑی پر رکھا جا تا ہے۔

حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ چھ سے دس ہزار روپے اجرت دی جاتی ہے۔ روزافزوں مہنگائی کے سامنے یہ رقم آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں کی جاتی۔ EOBIسوشل سیکیورٹی نہیں دی جاتی۔ سیفٹی کا کوئی انتظام نہیں۔ لیبر قوانین پر کہیں بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا جبکہ لیبر عدالتوں کا اس سے بھی برا حال ہے۔ این آئی آر سی میں پیسوں کا لین دین اور کرپشن عروج پر ہے۔ اسی طرح نجی اداروں میں مزدوروں کے خلاف پولیس گردی اور غنڈوں اور بدمعاشوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں حکمران طبقات نے جمہوریت اور آمریت کے نام پر غریب اور محنت کش طبقات پر حکمرانی کی ہے اور ان کا استحصال کیا ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے الیکشن سے پہلے تبدیلی کے بلند و بانگ دعوے کیے اور عوام کو سہولیات، صحت و تعلیم کی فراہمی اور کرپشن ختم کرنے کے وعدے کیے۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد نام نہاد ”تبدیلی سرکار“ نے مہنگائی اور عوام پر معاشی حملوں کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔

تیل، گیس، پیٹرول، بجلی اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ گردشی اور بیرونی قرضوں میں دیوہیکل اضافہ ہواہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ امن و امان کی صورت حال خراب ہے جبکہ مظلوم قومیتوں پر جبر مزید بڑھ گئی ہے۔دوسری طرف صوبائی حکومتوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی لوٹ کھسوٹ اور کرپشن میں مگن ہے۔ اس تمام صورت حال میں یہ بات واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر ناکام ہوچکا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے جو بھی پارٹی حکومت میں آئے گی وہ عمران خان کی طرح ہی ”کارنامے“ انجام دے گی۔

موجودہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے جو قرضے لینے جا رہی ہے ان کے تمام تر شرائط عوام دشمن اور مزدور دشمن ہیں۔ ان شرائط میں پنشن کو ختم کرنا، سروس کا دورانیہ کم کرکے 55سال کرنا، مستقل ملازمت کا خاتمہ، تمام قومی اداروں کو پرائیویٹائز کرنا جبکہ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی شعبوں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کرنا ہے۔ اگر ان شرائط پر عمل کیا جاتا ہے تو محنت کشوں پر یہ کسی جان لیوا حملے سے کم نہیں ہوگا۔ حکمران اپنی لوٹ مار اور کمیشنوں کے لیے ان شرائط پر آنکھیں بند کرکے عمل پیرا ہوں گے۔

دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں بھی عوام کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہیں ان کے پاس بھی عوام کو معاشی بربادی اور غربت سے نکالنے کے لیے کوئی معاشی پروگرام نہیں ہے۔ ایسے میں محنت کشوں کی نجات کی ذمہ داری ان کے اپنے اوپر عائد ہوتی ہے۔ ملک میں مزدور تحریک بھی ان کی قیادت کی وجہ سے زوال پذیر ہے۔ قیادت اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی جنگ لڑ رہی ہے۔

تمام تر فیڈریشنوں اور ٹریڈیونینز میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ لیڈرشپ مزدوروں کی طاقت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہاہے۔ اس باہمی لڑائی اور مفادپرستی اور موقع پرستی کی وجہ سے حکمرانوں کو موقع مل رہا ہے کہ وہ محنت کشوں پر مزید معاشی حملے کریں اور ان پر معاشی بوجھ ڈالے۔ حکمرانوں کی ان استحصالی پالیسیوں کے خلاف کوئی مزاحمت اور لڑائی نہیں لڑی جا رہی ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو حکمران محنت کش طبقے کو زندہ در گور کردیں گے۔

آئیں ہم محنت کش طبقہ مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر یہ عہد کرلیں کہ ہم اپنے حقیقی نعرے ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ“ اور ”ایک کا زخم سب کا زخم“ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنی صفوں میں کالی بھیڑوں کو نکال کر حکمرانوں، سرمایہ داروں اور ان کے ظالمانہ نظام کے خلاف اعلان جنگ کریں گے اور ان مطالبات کیلئے ایک تحریک کا آغاز کریں گے:

۱۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور تمام عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کو منسوخ کرتے ہوئے تمام سامراجی اثاثوں کو ضبط کیا جائے۔
۲۔ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور ٹھیکیداری نظام نا منظور
۳۔ وزارت نجکاری اور نجکاری کمیشن کا خاتمہ کیا جائے۔
۴۔ نجکاری میں دیئے گئے تمام تر اداروں کو دوبارہ قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔
۵۔ کم سے کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کیا جائے۔
۶۔ تمام تر اداروں میں انجمن سازی کا حق دیا جائے۔
۷۔ صحت، تعلیم، بجلی، گیس اور صاف پانی مفت فراہم کی جائے۔
۸۔ سروس کی عمر 60سال کو برقراررکھا جائے اور پنشن کو ختم نہ کیا جائے۔
۹۔ پنشنروں کے پنشن میں اضافہ کیا جائے۔