کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ جام کمال خان کو خفیہ ایجنڈے کے تحت اقتدار سونپا گیا ہے۔تعلیمی اداروں کو بند کرنے میں صوبائی حکومت اپنا بھر پور کرادار ادا کررہی ہے۔ بااختیار طبقے اپنی مرضی کا نظام لانے کیلئے لیویز کے نظام کو ختم کررہے ہیں۔ 6نکات پر عملدرآمدمیں پیش رفت نہیں ہوئی اپنے قول پر قائم اور مقررہ وقت کا انتظارکررہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز سراوان ہاؤس میں نجی ٹی وی چینل کو انٹرویودیتے ہوئے کہا نوابزادہ لشکری رئیسانی نے چھ نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 47 19ء سے معرض وجود میں آنے سے لیکر آج تک پاکستان کا کردار ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ کارہا ہے جس کی وجہ سے اکثر حکومتوں کو اختیار نہیں دیئے گئے اور بے اختیار حکومتیں مسائل میں کمی کی بجائے ان میں مسلسل اضافہ کرتی چلی جارہی ہیں۔
تحریک انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان ہونے والے چھ نکاتی معاہدے میں کوئی خا ص پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔وفاقی حکومت نے جہانگیر ترین کو آگئے کررکھا ہے خدشہ ہے کہ اگر چھ نکات پر پیشرفت ہوتی بھی ہے تو کہیں سپریم کورٹ ا س کا نوٹس نہ لے کیونکہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی نیت پر شک ہونے کے باوجود بحیثیت بلوچ دھرتی کے فرزند ہم اب تک وفاقی حکومت سے کئے اپنے قول پر قائم اور مقررہ وقت کا انتظارکررہے ہیں جس کے بعد پارٹی حکومت کا مزید ساتھ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریگی تاہم ابھی تک ان نکات پر عملدرآمد نہ ہونا وفاقی حکومت کی بلوچستان کے عوام سے غیر سنجیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔
صوبائی حکومت کی نوماہ کی کاکردگی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جام کمال خان آخری وقت تک نواز شریف کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے حکومت ختم ہوتے ہی اس پارٹی کا حصہ بنے جسے کسی سیاسی قیادت نے نہیں ایک سرکاری اہلکار نے بنایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کسی ایک فرد کے اشارے پرراتوں رات ایک پارٹی سے دوسرے پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے پارٹی کا سربراہ اور وزیراعلیٰ کا امید وار بننے والے شخص کو یقیناایک خاص ایجنڈے کے تحت لایا گیا ہے اس کے باجود اس شخص سے صوبے کے حالات درست کرکے معاملات کو آگئے بڑھانے کی توقع رکھنا خود کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں کوشش کرتی ہیں کہ صوبے میں پارلیمانی امن واستحکام ہو اور بجٹ تیار کرتے وقت اپوزیشن جماعتوں کیساتھ ملکر صوبے کے ترقیاتی عمل کو آگے لے جانے کیلئے مشترکہ ایجنڈے کا تعین کیا جا تا ہے۔
اور دونوں بینچز کے ایک دوسرے پر اعتماد سے ہی با اصول بجٹ تیار ہوسکتا ہے اور اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھے نواب محمد اسلم خان رئیسانی، بی این پی، اور جمعیت کے دوست مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ صوبائی حکومت پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں اور بجٹ کی ترتیب طے کرتے وقت انہیں اعتماد میں لے مگر جس خفیہ ایجنڈے کے تحت بلوچستان میں جام کمال خان کو اقتدار سونپا گیا ہے موصوف اس ایجنڈے کے تحت معاملات کو خاموشی سے اگئے لیکر چل رہے ہیں۔
لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کو شکایت ہے کہ لیویز کے زیر اثر علاقوں میں امن وامان کی صورتحال درست نہیں جس کیلئے لیویز کو پولیس میں ضم کیا گیاہے اگر حکومت اپنے اس موقف پر قائم ہے توکوئٹہ میں پولیس اور ایف سی موجودگی میں ؎ تین ہزار افراد کا قتل عام کیا گیا ہے،کراچی میں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ نشانہ بنے ہیں تو پولیس اور ایف سی کے نظام کو بھی ختم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی کارکن کے میرے خیال میں لیویز کو اس لیے ختم کیا جارہا ہے تاکہ بااختیار طبقے بلوچستان میں اپنی مرضی کا نظام چلانے کیلئے پنجاب اور دیگر صوبوں سے پولیس افسران کو یہاں منتقل کرکے صوبے پر اپنے تسلط کو برقرار رکھ سکیں۔
تعلیمی اداروں کے بجٹ میں کٹوتی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی عمل کو برباد کرکے تعلیمی اداروں کو بند کرنے میں صوبائی حکومت اپنا بھر پور کرادار ادا کررہی ہے تاکہ صوبے کے لوگوں کو ان پڑھ اور جاہل رکھ کرانہیں انکے حقوق اور فرائض سے غافل رکھ کر بلوچستان کو کالونی کے طور پر ٹریٹ کیا جاتا رہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو وسائل کی لوٹ مار کیلئے لایا گیا ہے حکومت کے خطرنات عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے سیاسی جماعتوں کو صوبائی ایجنڈا تشکیل دیکر مشترکہ جدوجہد کا تعین کرنا چائیے۔