|

وقتِ اشاعت :   May 17 – 2019

پچھلے سال بولان میڈیکل کالج میں ہم نے ایک سیمینارمنعقد کیا جس کا موضوع تھا”Historical releations of Baloch and Pashtoon”جس میں کالج کے پشتون طلباء نے بھی ہمارے دعوت کے بعد ہمارا ساتھ دیا، پروگرام کا مقصد یہی تھا کہ ہم نفرتوں کی پروان چڑھتی فضاء کو کم کردیں ہم بھی ایک ساتھ اْٹھ بیٹھ سکیں، تجزیے،مباحثے،فیصلے کرسکیں، اسی پروگرام میں ایک سپیکر نے یہ جملہ کہا ”آج وہ لوگ بھی ایک ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر چائے پی سکتے ہیں جن کی پرتعیش تقریروں کے وجہ سے سینکڑوں بلوچ و پشتون نے اپنا خون بہایا اور آج تک ایک ساتھ نہیں بیٹھتے“ یہ واقعی یاد رکھنے والا جملہ ہے، ہمیشہ سے عوام کو جو بھگتنا پڑتا ہے وہ ابدی ہوتا ہے البتہ حکمرانوں کے لیے وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتا اور اسی حکمرانی کے چکر میں بلوچ پشتون تضادات والے کارڈ کو کہیں نہ کہیں استعمال کیا جاتا ہے۔

بلوچ و پشتون کے درمیان غیروں کے پیدا کردہ تنازعات کو حکمران انگاروں کی طرح محفوظ رکھتے ہیں جنہیں بْجنے نہیں دیا جاتا، جنہیں مسلسل ہوائیں دے کرکسی بھی وقت شعلہ میں بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور یہ ہوائیں کونسی ہیں؟ یہ ہوائیں حکمرانوں کے دانستہ کردہ وہ عمل ہیں جو عوام کی دلوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں۔ کبھی تعلیمی اداروں کی شکل میں تو کبھی روزگار اور کبھی حلقہ بلندیوں کے فیصلوں کے ذریعے نفرت کی ہواؤں کو جنم دیا جاتاہے۔

بولان میڈیکل کالج کو جب بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا درجہ ملا تب بھی یہ مسئلہ اْٹھا کہ وی سی کا انتخاب قومی تعصب کے بنیاد پر ہوا ہے، سینٹ کا انتخاب بھی غیر منصفانہ ہے سینٹ کے 12 ارکان میں بس دو ہی بلوچ ہیں،معاملہ عدالتوں میں گھسیٹا گیا، نگران حکومت، اسکے بعد موجودہ حکومت اور آج تک یہ مسئلہ حل نہ ہو پایا، جہاں تک جس نے چاہا اْس نے کھینچ لیا، امتحان ملتوی ہوئے، ٹیسٹ ملتوی ہوا، ایچ ای سی کے 100سیٹ ضائع ہوئے، پرنسپل اور وی سی کے لابی مضبوط بنانے کے چکروں میں سینکڑوں طلباء کا سال ضائع کیا گیا۔

معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ایک طالبعلم خود کشی کر بیٹھا، مگر یہ سارا تماشا،سب کچھ معجزہ، قسمت، کوتائی و طلباء کی نا اہلی وغیرہ کا مکوٹ پہنا کر ردی کے ساتھ پھینک دیا گیا، لیکن یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو پایا آج بھی طلباء کے وظائف پرنسپل اور وی سی کے اکاؤنٹ میں چکر کاٹ رہے ہیں، سال کا نصف گزر چکا ہے مگر کالج میں ایک بھی کلاس شروع نہیں ہوا، المیہ یہاں تک پہنچا ہے کہ بلوچ و پشتون طلباء کو لڑایا بھی گیا، مگر کسے فکر اس قوم کی طلباء کی، نظام تو خْدا نے چلانا ہے چل جائے گا۔

سب خاموش ہیں، تماشائی، شاید ہماری صبر بڑی پختہ ہے کہ حکمرانوں کے سازشی فیصلوں سے بھی نا امید نہیں ہوتے کہ یہ کچھ بھی صحیح کر سکتے ہیں۔مگر اب جب بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی میں اسی نوعیت کا فیصلہ لیا گیا تو محسوس ہوا جیسے گنتی جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں سے واپس دْہرائی جا رہی ہے، جن مسائل سے ہم سال بھر سے دوچار رہے۔

اب بیوٹمز والوں کی باری ہے، سینٹ کا انتخاب پھر سے 18ویں ترمیم کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر کیا گیا، اور تعصبات کو ہوا دینے کے لیے 18 ارکان میں سے بس ایک ہی بلوچ رکن کو لیا گیا، یہ فیصلہ ظاہر ہے جب بلوچوں کو مشتعل کرے گا تو ردعمل میں پشتونوں کو بول اْٹھنا ہوگا یوں بلوچ و پشتون حاکمِ تخت کے خلاف اْٹھنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہونگے۔

جب بلوچوں کے صوبے میں ساحل، وسائل اور میگا پروجیکٹس میں حصہ داری تو دور کی بات ایک تعلیمی ادارے میں مینجمنٹ اْن کے ہاتھوں میں نہیں دی جاتی تو بلوچوں کا ردعمل جو بھی ہوگا وہ جائز اور فطری ہوگا، لیکن شاطر حاکمِ تخت پشتونوں کو بلوچوں کے ردعمل پر اکسائے گا اور ان دونوں اقوام کو آمنے سامنے لائے گا۔ یہ فیصلے یقیناً بغیر سوچے سمجھے تو نہیں لیے گئے ہونگے یا ایسا بھی نہیں کہ ان کے بارے میں کوئی جانتا نہیں مگر پھر بھی یہ ان دیکھے کئے جا رہے ہیں، تعصبات کی پرورش کی جارہی ہے خاموشی سے تاکہ یہ کسر بھی پوری ہوجائے پھر سے عوام اپنے غصے، اپنے جذبات، اپنی اندھی طاقت سے ایک دوسرے کے مدمقابل آجائیں۔

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ تعلیمی سطح پر ان غیر منصفانہ فیصلوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟ تو یہ بات صاف ظاہر ہے جہاں سینٹ کا چناؤ تعصبانہ ہے وہاں اسکے افعال بھی تعصبانہ ہونگے، کیونکہ جس نفرت اور سازش کی بنیاد پر بلوچوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے جس کی بنیاد پر ہم بلوچ طلباء اپنے ہی صوبے کے تعلیمی اداروں میں غیروں جیسے بن گئے ہیں، لاوہ تو کسی دن پھٹے گا۔ غیر منصفانہ فیصلوں کے اعمال سے لیکر نتائج تک سب غیر منصفانہ ہوتے ہیں طلباء کے داخلے سے لیکر اسکالر شپ کے بٹوارے پر تضاد پیدا ہوتے ہیں، عدم تحفظ، غیر اعتمادی کی فضاء جنم لیتی ہے، پھر یہی چیزیں طلباء کو پر تشدد رویہ اپنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں سوچنے کے لیے بہت سے سوال پیدا کرتے ہیں۔

آخر میں چند جملے اْن کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ طلباء کو ان مسائل پر نہیں بولنا چاہیے، یہ مسائل طلباء کے نہیں ہیں، ان سے تعصبات جنم لینگے وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک میں چیزوں کو سمجھ رہی ہوں وہ یہ ہیں کہ تعلیمی اداروں سے منسلک تمام مسائل طلباء کے مسائل ہیں کیونکہ ان سے براہ راست طلباء ہی متاثر ہورہے ہیں۔ غیر منصفانہ اور قومی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے جیسے فیصلوں کے مشکلات کا صرف طلباء ہی سامنا کرتے ہیں اور بلوچستان میں طلباء کررہے ہیں۔

رہی بات نسلی تعصب کی تو میرے خیال سے بلوچ اور پشتون کے درمیان تنازعات ماضی میں بھی فطری نہیں تھے بلکہ پیدا کردہ تھے آج دونوں اقوام بڑی حد تک معاملے کو سمجھ چکے ہیں۔ اور بیوٹیمز کی انتظامیہ میں بلوچوں کو نظر انداز کرنے کی بات ہو تو یہاں بلوچوں کا احتجاج یا غصہ پشتونوں کے نہیں بلکہ حاکمِ تخت کے خلاف ہے۔ بلوچ پشتون سے کیوں شکایت کرے گا پشتون تو خود بلوچوں کی طرح پسے ہوئے ہیں۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گی کہ یہ جو حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں وہ دانستہ نفرتیں پھیلارہے ہیں ہم جن سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں وہ تو آگ کے بھڑکانے کے درپے ہیں۔


لکھاری بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی وائس چیئرپرسن ہیں


 

One Response to “ہر کوئی آگ بھڑکانے کو تیار ہے”

Comments are closed.