اپنے ہم عمروں کی طرح وسیم نے بھی اپنی زندگی میں بہت سے خواب دیکھ رکھے تھے۔کچھ کر دکھانے کی جستجو اسے کسی لمحہ بھی چین نہ لینے دیتی تھی۔ وہ ہر وقت کچھ کچھ نہ کچھ سوچتا ہی رہتا تھا۔لیکن اس کے یہ سارے خواب اس کی ذات تک ہی محدود تھے۔ کسی کو کانوں کان بھی اس کی خبر نہ تھی۔ خبر ہوتی بھی تو کیسے؟ اگر وہ کسی سے یہ خواب بیان کرتا تو ہی نہ۔ لیکن اس نے کسی کو بھی اس کے بارے میں نہ بتا نے کی ٹھا ن رکھی تھی۔ اس کی سوچ بھی درست تھی کہ بجائے اس کے کہ وہ دوسروں سے اپنے خواب بیان کرے وہ چاہتا تھا کہ ان خوابو ں کی تعبیر حاصل کرنے کے بعد ان کو دوسروں کو بتائے۔ وہ دن رات محنت سے پڑھتا تھا تا کہ جلد جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچ جائے۔
وہ عام بچوں کی طرح ڈاکٹر یا انجیئنر بن کر روپے کما نے کی ایک مشین نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دوسروں کی مدد کرے۔ دوسروں کو وہ روشن مستقبل باآسانی دے سکے جس کے حصول کے لیئے اس کے باپ کی کمر خمیدہ ہو چکی تھی اور اس کی ماں جوڑوں کی مریض بن چکی تھی۔ اس ظلم وستم کی چکی میں پس پس کر دونوں کی اپنی پہچان تو ختم ہی ہوچکی تھی۔ بس ان کو یہی یاد تھا کہ ان کا ایک بچہ وسیم ہے جو کچھ بننا چاہتا ہے۔ جس کے آئیڈیل بھارتی فلموں کے ہیرو یا ہیروئن نہیں بلکہ قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسی عظیم ہستیاں تھیں۔وہ ان کے کردار اور افکار کا مطالعہ کرتا تھا۔ اور اپنے آپ کو پوری دنیا میں نمایاں اور امر کرنے کے لیئے ہر وقت سوچوں میں کھویا رہتا تھا۔غربت کے باوجود اس کا دل امیر تھا۔ اپنے ہاتھ میں موجود چند سکے بھی وہ دوسروں کو دے دیا کرتا تھا۔ اس کو سکے سنبھالنے نہیں آتے تھے۔ اکثر وہ گم کر بیٹھتا تھا اور پھر اپنی ماں سے ڈانٹ کھاتا تھا۔
لیکن اس کے دل میں عجیب سی مسرت ہوتی تھی جب وہ اپنے پیسوں سے کسی کو کچھ کھاتے ہوئے دیکھتا تھا۔ بہت سے لوگ تو اپنی جیبوں میں لاکھوں روپے ڈال کر بھی نہ تو خود کچھ کھا سکتے ہیں نہ ہی دوسروں کو کھلا سکتے ہیں۔لیکن اپنے چند سکوں سے دوسروں کی خوشیاں خریدنا کچھ مہنگا سودا نہیں ہے۔
کبھی کبھی وہ خود بھی پریشان ہو جاتا کہ وہ آخر کیا کرنا چاہتا تھا۔ اس کی سوچ عام بچوں سے بالکل مختلف تھی۔ عام بچوں کی طرح اس کے لیئے اہم چیزکا حصول نہ تھا بلکہ اس کا فائدہ دوسروں کو دینا تھا۔ خود کے لیئے تو سبھی کرتے ہیں۔ اس کی زندگی میں دین ہی دین تھا وہ بس دینا جانتا تھا۔وہ کچھ لینا نہیں جانتا تھا۔ اس کی اس عادت سے اس کے گھر والے بھی پریشان تھے۔ وہ یہ سوچ کر پریشان رہتے کہ اس کی عادات عام بچوں سے مختلف کیوں ہیں؟ اس کو کھیل میں دلچسپی کیوں نہیں۔یہ یا تو کتابوں میں کھویا رہتا ہے یا سوچوں میں۔ہروقت پڑھتے دیکھ کر وہ خوش بھی ہوتے کہ بچہ بہت محنت کر رہا ہے اور ایک دن نام کما ئے گا۔
لیکن اس کی عادتوں کو دیکھ کر سب بہت پریشان تھے۔ اس کے پاس اگر پاکٹ منی ہوتی تو وہ کسی دوسرے بچے کو دے دیتا۔ کو ئی گفٹ ملتا تو وہ کسی کو دے دیتا۔ وہ ہر وقت دوسروں کے بارے میں سوچتا تھا۔ اس کے اندر میں نہیں تھی۔اس کے لیئے اس کے اردگرد کے لوگ اہم تھے۔ اسی وجہ سے سب لوگ اس سے خائف تھے۔ جن کی وہ مدد کرتا تھا۔ وہ زیادہ تر غریب طبقہ سے تھے۔ان کے لئے یہ سب بہت عجیب تھاکہ کوئی شخص بن مانگے ان کو دیتا تھا۔ وہ لوگ تو مانگ مانگ کر تھک جاتے لیکن کچھ نہیں ملتا تھا۔ وہ ان میں خاصا مقبول تھا اور ان کا ہیرو تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے احساس ہوا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اسے اس سے بڑھ کر کچھ کرنا چاہیے۔کچھ ایسا کہ ان غریبوں کا مستقبل سنور جائے۔ان کو روز روز امداد کی ضرورت نہ ہو۔ اس کے لیئے اس نے ایک خیراتی سکول بنا نے کا فیصلہ کیا اور اس کام میں جت گیا۔ اس نے اپنا دن رات ایک کر دیا۔ علاقے کاکو ئی مالدار گھرانہ نہ ہوگا جس کے دروازے پر وہ نہ گیا ہو۔ اس نے سب کو اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کا کہا۔ جو اپنی جمع پونجی تھی وہ بھی ڈال دی اور سکول کا آغاز کردیا۔ بچوں کے لیئے سکول فر ی تھا۔ کتابیں اور یونیفارم بھی فری تھے۔
وہ ان کو سٹیشنری بھی فری دیتا تھا۔ سکول کے آغاز کے ساتھ ہی اس کی سوچوں میں ٹھہراؤں آگیا۔ اسے لگا کہ اس کی منزل اس کو مل گئی ہے۔ اس کی تپسیا کا پھل اس کو مل گیاہے۔ اس کی باقی زندگی اس سکول کے لیئے ہی وقف ہو گئی۔ اس کا دل مطمئن ہو گیا کہ وہ جس کا م کے لیئے اس دنیا میں آیا تھا وہ پورا ہوگیا۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں اور نہ ہی ان کے حصول کے لیئے کوشش کرنے پر۔ اپنے لیئے اچھا تو سب چاہتے ہیں لیکن اس دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کا اچھا ہو۔اپنے اندر ایسے شخص کو تلاش کریں اور صرف ایک بار دوسروں کے لیئے ایک سانس ہی لے کر دیکھیں۔آپ کے دل کا سکون شرط ہے۔