|

وقتِ اشاعت :   May 27 – 2019

تربت: بلوچستان میں بے روزگاری کے خاتمے میں سکولوں میں بلوچی زبان کے اساتذہ کیلئے پوسٹوں کی منظوری دی جائے۔ تعلیمی اداروں میں بلوچی زبان کیساتھ سوتیلا سلوک ختم ہونا چاہیے،موجودہ صوبائی حکومت اس نیک کام کا کریڈٹ اپنے نام کرے۔

گزشتہ صوبائی حکومت نے تعلیمی اداروں میں بلوچی زبان کو رائج کرنے کا بل پاس کیا جس کے بعد پرائمری سطح تک بلوچی کی کتابیں بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ نے چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا لیکن المیہ یہ ہے کہ اسکولوں سمیت انٹر سطح تک عربی اور دیگر زبانیں پڑھانے کیلئے الگ سے پوسٹ دیئے گئے ہیں لیکن بلوچی زبان پڑھانے کیلئے روایتی انداز اپنایا گیا ہے اور کسی قسم کی پوسٹ منظور نہیں کیئے گئے جس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار بلوچی ادبی سرکل ,,اوتاک مکران،، کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک اخباری بیان میں کیا۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں قانونی طور پر جو زبان پڑھانے کی اجازت ہوگی اس کیلئے نئی پوسٹوں کی منظوری بھی ضروری ہے۔جس کے بغیر وہ مضمون ادھورا رہ جائیگا اور اس کے پڑھنے پڑھانے کا عمل معطل رہے گی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ موجودہ صوبائی حکومت فوری طور سے تمام اسکولوں میں پرائمری سے لیکر انٹر سطح تک بلوچی مضمون کی پوسٹیں منظور کراکے تعلیمی سطح میں اس بے چینی کا خاتمہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم معاشرے میں دیگر ادبی اداروں،وکلاء برادری،اساتذہ تنظیموں اور نیک نیت سیاسی،سماجی ورکروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ,,اوتاک،، کی جانب سے اس مطالبے پر آواز اٹھائیں اور صوبائی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ سکولوں میں انٹر تک بلوچی زبان پڑھانے کیلئے ٹیچرز کے پوسٹوں کی منظوری دیدیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سکولوں میں بلوچی زبان کو عملی صورت میں نہیں پڑھا یا جارہا ہے۔جبکہ ہائی سکول کی لیول تک ریاضی،سائنس،معاشرتی علوم،عربی،اردو اور دیگر سبجیکٹ اسپیشلسٹ بلوچی پڑھانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں،جو کہ بلوچی مضمون کیساتھ سراسرنا انصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بلوچی پڑھانے کیلئے الگ سے پوسٹوں کی منظوری ہو تو بلوچستان میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر کم ہوگی اور بلوچی کا ایک اسکوپ بھی سامنے آئیگا۔