زلزلہ ایک قدرتی عمل اور کائنات کے نظام کا حصہ ہے اور زمین پر ہزاروں لاکھوں سالوں سے زلزلے آتے رہے ہیں اور اپنی تباہ کاریوں کے باعث انسانی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں زمین کی تھر تھراہٹ نے ہمیشہ زمینی مخلوقات کو بے شمار نقصان پہنچا ئے ہیں زلزلوں کی تاریخ میں 31مئی 1935کو کوئٹہ میں آنیوالا زلزلہ بھی ایک قیامت خیز زلزلہ تھا انسانی جانوں کے نقصان کے اعتبارسے کوئٹہ کا زلزلہ دنیا کے بڑے تباہی پھیلانے والے زلزلوں میں پندرھویں 15نمبر پر آتا ہے کوئٹہ میں 31مئی1935کو نیم شب کو آنیوالے زلزلے میں ایک انداز ے کے مطابق 60ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے آج بھی اس زلزلے کو یاد کرتے ہوئے لوگوں کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں گو کہ زلزلوں میں عمارتیں اور دیوار ے گرنے سے ہلاکتیں ہوتی ہیں لیکن بعض لوگ زلزلے کے خوف سے ہی مر جاتے ہیں۔
31مئی1935کی شب جب شالکوٹ کے لوگ محو خواب تھے کہ شب تین بجے ایک گھڑگھڑاہٹ شروع ہوئی اور شہر میں مٹی کے دھول اٹھنے لگے زلزلے کی شدت نے لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا انگزیزوں کی حکومت تھی کوئٹہ شہر اور چھاؤ نی کے درمیان موجودہ سٹی نالہ ہے اس کے دوسری جانب چھاؤنی میں زلزلہ نہیں ہوا زلزلے میں ایک اندازے کے مطابق 60ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے مرنے والے ریلوے ملازمین کے بعض افراد کے نام کوئٹہ اسٹیشن پر لگے سنگ مر مر کے کتبے سے معلوم ہوتا ہے۔
کہ اس سانحہ میں تمام اقوام اور مذاہب کے لوگ مرے جس پر ریلوے کے مرنے والے مسلمان انگزیز اور ہندوں ملازمین کے نام کندا ہیں زلزلے کے فوراً بعد برٹش حکومت حرکت میں آگئی اور سب سے پہلے اپنے لوگوں اور ملازمین کو بچانے کیلئے سپاہیوں کو ریلوے اسٹیشن بھیجا گیا بتایا جاتا ہے کہ انگزیز سپاہیوں نے سب سے پہلے اپنے لوگوں کو بچانے میں ترجیح دی صبح ہوتے ہی ہر طرف زخمیوں کی چیخ و پکار کے ساتھ سورج کی شعاعیں مہر در کی چوٹی سے نمودار ہونے لگیں تو شہر میں قیامت برپا تھی ہر طرف لاشیں ملبے کے ڈھیر میں دبے اور زخمی افراد اپنے زخموں کے درد سے کرہار ہے تھے۔
انگریز فوج نے شہر میں ایمر جنسی نافذ کردی اور سب سے پہلے ریلوے لائن کو بحال کرنے کا حکم دیا تا کہ ٹرین کے ذریعے زخمیوں کو علاج کیلئے دیگر شہروں میں منتقل کیا جاسکے زلزلے سے متاثرہ ریل کی پٹریوں کو درست کرنے کیساتھ مواصلاتی نظام کو بھی بحال کردیا گیا اور تار کے ذریعے دہلی تک پیغام پہنچایا گیا ریل کو بھی بحال کردیا گیا اور فوری طور پر زخمیوں کو نکالنے اور مرہم پٹی کا مرحلہ شروع ہوا انگریزوں کے علاوہ شہر کے مکین بھی ایک دوسرے کو بچانے اور ملبے سے نکالنے میں مصروف تھے سریاب کے ریلوے اسٹیشن پر ریلوے کے ایک ملازم نے انسانی خدمت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنے اہل خانہ کو زخمی حالت میں چھوڑ کر فوراً اپنی ڈیوٹی پر آگئے اور پٹریوں کو درست کرنے لگے جب ان سے پوچھا گیا کیا آپ کا کوئی نقصان ہورہا۔
ہے تو انہوں نے کہا کہ اپنے زخمی بیوی بچوں کو گھر میں چھوڑ کر ڈیوٹی کرنے آیا ہوں تاکہ کوئٹہ شہر کے زخمیوں کو ٹرین کے ذریعے دیگر شہروں کو لے جایا جاسکے کوئٹہ کے بزرگ شہری مولانا عبدالباقی لہڑی کہتے ہیں کہ کوئٹہ شہر میں زلزلے سے زیادہ تر مغربی علاقے متاثر ہوئے جن میں سریاب،کرانی،بروری اور دیگر علاقے شامل تھے جبکہ مشرقی حصوں میں اس قدرتی نقصانات نہیں ہوئے مسجد روڈ کے قریب جھٹکا مارکیٹ کے ایک قصائی نے اپنے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ جانوروں کو ذبح کرنے کیلئے میں آدھی رات کو آتا تھا 31مئی کی شب 3بجے کے قریب میں جب مارکیٹ جارہا تھا تو راستے میں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنا شروع ہوئی اتنے میں لرزہ خیز گھڑ گھڑاہٹ کے ساتھ مٹی کے دھول اٹھنے لگے۔
اس کے بعد ہر طرف قیامت برپا تھی کوئٹہ کے ایک بزرگ شہری اس قیامت خیز رات کی منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم چھوٹے بچے تھے زلزلے سے ہمارے گھر تو محفوظ رہے لیکن ایک خوف کی صورتحال تھی جس رات زلزلہ آیا اس رات معمول سے زیادہ گرمی تھی اب بھی اگر کسی رات زیادہ گرمی ہوں تو پرانے لوگوں کو وہی زلزلے کی رات یاد آجاتی ہے زلزلے کے بعد چوری ڈکیتی کے ایک آدھ واقعات پیش آئے تو حکومت نے کوئٹہ کو چاروں طرف سے مکمل سیل کرکے کرفیو لگادی تاکہ باہر سے کوئی بھی شخص شہر میں داخل نہ ہوسکے۔
زخمی اور متاثرین کیلئے کیمپ قائم کئے گئے جہاں زخمی اور متاثرہ افراد کو لایا گیا لاشوں کی شناخت کیلئے ہندو ¿ مسلم اورعیسائی مذہب کے پیشواہوں کی موجودگی میں بڑے بڑے کھڈے کھود کر مردوں کو دفنایا گیا انگریزوں نے سب سے پہلے اہم کام یہ کیا کہ ریل کے نظام کو فوری بحال کرنے کیلئے احکامات جاری کئے اور ریل سروس کو بحال کرنے کے بعد زخمیوں کو لاہور کراچی علاج کیلئے منتقل کیا گیا شہر میں کتوں کے کاٹنے کے واقعات کے باعث تمام کتوں کو مارنے کا حکم دیا گیا۔
کوئٹہ کے شہری انتہائی غمزدہ حالت میں تھے کس کا پورہ خاندان مرگیا تو کسی کے بچے لقمہ اجل بن گئے کراچی لاہور لے جانے والے زخمیوں میں سے بھی بعض افراد یہ سمجھ کر کہ پورا خاندان مرگیا ہے پھر دوبارہ کوئٹہ کا رخ نہیں کیا اور دیگر شہروں میں زندگی کے باقی ایام گزارے کوئٹہ زلزلے میں مرنے والے ہزاروں افراد کو کاسی قبرستان سمیت مختلف قبرستانوں میں سپرد خاک کئے گئے مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں کو مری روڈ کے قبرستان اور پارسیوں کو سمنگلی روڈ کے قریب قبرستانوں میں سپردخاک کیا گیا تدفین کیلئے تمام مذاہب کے نمائندہ افراد کو اپنے اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے شناخت کیلئے بلایا گیا جوکہ مرنے والے افراد کی اپنے عقیدے کے مطابق آخری رسومات ادا کرتے رہے۔
ہندو ؤں کیلئے موجودہ سائنس کالج کی عمارت کی جگہ پر خصوصی شمشان گھاٹ تیار کئے گئے زلزلے نے بلوچستان کے ایسے دیدہ ور ہستیوں کو بھی نگل لیا جوکہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ زندہ رہیں گے کوئٹہ کے انہی فرزندوں میں سے ایک میر یوسف عزیز مگسی بھی تھے جس پر چلتن نازاں ہے میر یوسف عزیز مگسی جو کہ بلوچسان میں سیاست کے آسمان پر سریاں کا ستارہ ہے میریوسف عزیز مگسی ایک نواب اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے باوجود بلوچستان کے عوام میں سیاسی شعور کا شمع روشن کیا میر یوسف عزیز مگسی نے ایام جوانی میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور تحریک آزادی کے ایک لاثانی شخصیت تھے لیکن کوئٹہ کے نیم شب کے زلزلے میں نوجوان سیاستدان اور چلتن کا فرزند زندگی کی بازی ہارگئے کاسی قبرستان میں میر یوسف عزیز مگسی کا تربت اپنے تہی بہت سارے راز سموے شہر خاموشاں کا حصہ ہے۔
زلزلے میں بہت سارے زندہ رہ جانے والے بچے اور خصوصا مکانات کے ملبے تلے بچ جانے والے کمسن بچوں کی پرورش ایک اہم مسئلہ بن گیا جن کے خوراک کیلئے شہر کے تمام دودھ دینے والے گائے بھینس اور بکریوں سے یتیم ہونے والے بچوں کو اپنی مال مویشی کے دودھ پلاکر خوراک دیئے گئے شہر میں کچے اور مٹی گارے سے بنے مکانات کے گرنے کی وجہ سے جانی نقصانات زیادہ ہوئے تھے انگریزوں نے زلزلے کے بعد کوئٹہ شہر کو دوبارہ اسی جگہ آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور جاپانی ماہرین کے ذریعے زلزلہ پروف مکانات سیون ٹائپ کمرے بنائے گئے کوئٹہ کے ٹین ٹاو ¿ن کا نام بھی انہیں سیون ٹائپ مکانات سے منسوب ہے۔
انگریزوں نے مہر در کے دہانے میں سیون ٹائپ کے متعد مکانات بنائے اور انہیں ملازمین میں تقسیم کیا گیا آئندہ زلزلوں سے محفوظ رہنے کیلئے میٹروپولٹین میں سیون ٹائپ اور تھری ٹائپ کے زلزلہ پروف مکانات ماڈل کے طور پر بنائے گئے تاکہ شہر کے لوگ اس قسم کے مکانات تعمیر کرے انگریزحکومت نے 1937میں بلڈنگ کوڈ لاگو کیا جس کے تحت مکانات بنائے جاتے تھے اور بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کو سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا لیکن آج کاکوئٹہ بلند و بالا عمارتوں پلازوں،مارکٹیوں اور نجی ہسپتالوں کا شہر بن گیا ہے۔
بلڈنگ کوڈ پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا جاتا شہر میں بلڈنگ کوڈ کے خلاف اور 30فٹ سے بلند عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ تیزی کے ساتھ جاری ہے جبکہ بیشتر سرکاری عمارتیں بھی بلڈنگ کوڈ کے خلاف بنے ہوئے ہیں شہر میں ایسے بے شمار بلڈنگ اور مکانات بنیں ہیں جوکہ ناقص غیر معیاری میٹریل کے باعث خطرے کی علامت بن گئے ہیں شہر میں گزشتہ 30سال کے دوران بنے والے بلڈنگز میں اب بھی دراڑ یں پڑگئیں ہیں گو کہ بلڈنگ کوڈ اور کوئٹہ کے زلزلہ زون میں واقع ہونے کے باعث یہاں ٹائل اور ٹی آر کی چھتیں تعمیر کرنا منع ہے لیکن اس کے باوجود شہر میں زیادہ تر عمارتوں کی چھتیں،ٹائل اور ٹی آر سے بنے ہوئے ہیں کوئٹہ شہر میں بعض بلند و بالا عمارتیں این او سی اور نقشے کے بغیر بنے ہیں۔
سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے مالدار و سرمایہ کار حکومتی قوانین ٹریفک کے مسائل اور بلڈنگ کوڈ کو خاطر میں لائے بغیر آسمان کو چونے والی عمارتیں کھڑی کررہے ہیں جیالوجیکل ماہر ین کے مطابق کوئٹہ کی زمین دھنس رہی ہے کیونکہ زیر زمین پانی اور معدنی ذرائع کو نکالنے سے زمین نیچے سر کتی جاتی ہیں جس کے باعث زلزلے آتے رہتے ہیں جس بے دردی کے ساتھ کوئٹہ میں بورنگ اور بھاری بھر کم مشینوں کے ذریعے زیر زمین پانی کو نکالا جارہا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے قدرتی آفات سے بچنے اور نقصانات کو کم کرنے کیلئے پی ڈی ایم اے کا ادارہ فعال ہے اور بلوچستان بھر میں آفا ت سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار اور متعدد منصوبے پلان کئے گئے ہیں لیکن یہ اقدامات آفات کے بعد کے ہے یہ امر قابل غور ہے۔
کہ کوئٹہ کے قدیم آبادیوں میں بنے زلزلہ پروف سیون ٹائپ عمارتوں کی زنگ زدہ چھتیں جناح روڈ کے آخری سر ے پر قائم عیسائی برادری کی یاد گاراور کوہ چلتن کی چوٹیاں شہر میں قائم آسمان کو چھونے والے بلڈنگوں کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے ہیں کوئٹہ کے نئے باسیوں نے شاہد 31مئی1935کو بھول گئے لیکن چلتن نے کچھ نہیں بھولا نہ یوسف عزیز مگسی کو اور نہ ہی ان ہزاروں باسیوں کو جو نیم شب کو صبح اٹھنے کیلئے خوبصورت خواب آنکھوں میں سجائے سوگئے اور پھر دوبارہ نہیں اٹھ سکے ش ضحی مرحوم 1969-1924-نے کوئٹہ پر ایک خوبصورت نظم 1948میں کوئٹہ کے حسن نظارے کے عنوان سے کسی تھی یہ نظام قارہین کی نذر ہے۔
دورپچھم میں ڈوبتا سورج
سر کہسار کچھ شفق پارے!
سبز وادی میں کچھ شگفتہ گلاب!
جیسے مخمل پہ سرخ انگارے!
باد صر صر کے ایک اشارے پر
ّآنکھیں ملتے ہوئے اٹھے تارے!
نغمہ و نور کی ہوئی بارش
مستیوں کے ابل پڑے دھارے
کتنے رنگیں،مگر اداس اداس!
کوئٹہ کے حسین نظارے!