|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2019

انسانی تاریخ اور سماجی ارتقاء عظیم دانشوروں،فلاسفروں، انقلابی اور قومی رہنماؤں کے کارناموں اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جنہوں نے اپنی علمی، فکری جدو جہد اور خیالات سے قوموں کی ارتقاء کی راہوں کا تعین کرکے سماجی زندگی میں اہم کلیدی کردار ادا کرکے قوموں کی ترقی، آزادی اور خوشحالی کیلئے مضبوط اور مستحکم بنیادیں فراہم کیں۔ انہی نظریات، خیالات اور سوچ نے انہیں قومی ہیرو اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھا ہوا ہے۔

برصغیرکے مسلمانوں کی انگریزوں کے خلاف آخری جدو جہد 1857 میں جنگ آزادی میں ناکامی کی صورت میں اختتام پذیر ہوئی اور انگریزوں نے پورے برصغیر پر قبضہ کرلیا۔ جس کے بعد انگریزوں نے مغرب کی جانب پیش قدمی شروع کردی جس کو روکنے کیلئے بلوچوں نے بھر پور مقابلہ کیا اور متعدد حملوں کے بعد بالا خر 1877 میں انگریزوں نے مکمل طور پر بلوچستان پر قبضہ کر لیا۔ جسکے بعدمزاحمی جنگ اور گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا لیکن وسائل کی عدم دستیابی اور طاقتور دشمن سے مقابلہ کرنے کی طاقت بہت جلد کمزور ہوگئی اس مزاحمتی جدو جہد میں ناکامی کے بعد بلوچوں نے سیاسی جدو جہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔

اس سیاسی جدو جہد کی بنیاد رکھنے والوں میں میر یوسف عزیز مگسی بھی ہیں جنہوں نے بلوچستان کی زرخیز مٹی پر جنم لیاجوتاریخ بلوچستان میں ایک بڑے دانشور صحافی، انقلابی تعلیم یافتہ اور باشعور سیاسی رہنماؤ کی صورت میں ہمیشہ نمایاں نظر آتا ہے۔ جنہوں نے سیاسی جدو جہد کی راہ اپنا کر عوام میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے میں رہنمائی کی اور انہیں آزاد فضاء اور ملک میں سانس لینے کاموقع فراہم کیا۔

میر یوسف عزیز مگسی 8جنوری 1907 میں بلوچستان کے تاریخی شہر جھل مگسی میں نواب قیصر خان مگسی کے گھر پیدا ہوئے وہ نواب مگسی کے دوسرے صاحبزادہ تھے۔ انکے والد ایک روشن خیال اور نیک دل انسان اور قبیلہ کے سو لہویں تمن دار تھے۔ والد نے اپنے بیٹوں کیلئے تعلیم و تربیت کے بہترین انتظامات کئے اور ابتدائی تعلیم جید استاد قاضی رسول بخش سے حاصل کی۔ جنہوں نے انہیں پرائمری تک تعلیم دی بعد ازاں مولانا غلام محمد عبدالکریم نے انہیں دینی تعلیم کے علاوہ فارسی، عربی اور اردو پر عبور حاصل کرنے میں مدد دی۔ جبکہ انگریزی تعلیم کیلئے استاد کنہیا لعل کی خدمات سے استفادہ حاصل کیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے لاہور کا رخ کیا جہاں پر انہوں نے پہلی بار سیاسی جدو جہد اور تحریک آزادی سے روشناس ہوئے۔

خان آف قلات میر محمود خان مسلسل بیماررہنے اور ریاستی معاملات میں شمس شاہ کو بااختیار بنانے پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ نواب قیصر خان مگسی عوام میں خاصے مقبول تھے تاج کی اطاعت کے باوجود سر شمس شاہ کے غصے کا شکار ہوئے۔ کیونکہ شمس شاہ خان آف قلات کی سادگی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے بلوچستان کے سیاہ سفید کا مالک بن ہوا تھا۔ نواب قیصر خان کی آزادنہ سوچ خیالات اور عوامی مقبولیت کی وجہ سے شمس شا ہ انہیں 1922 میں سرداری منصب سے معزول کرکے انکے بڑے بیٹے سردار گل محمد زیب کو تمن دار مقررکرکے نواب کو زبردستی جلا وطن کر وایا۔

میر یوسف مگسی اپنے والد کے ہمراہ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر ملتان ہجرت کر گئے۔ اور وہاں چار سالوں تک قیام پذیر رہے، اسی دور میں ہندوستا ن بھر میں برطانوی سامراج کے خلاف لوگ صف آراء ہو رہے تھے۔برصغیر کے مسلمان پہلی بار متحد ہورہے تھے۔ میر یوسف مگسی بھی تحریک خلافت اور آزادی کی انقلابی فضاء میں سانس لے رہے تھے۔ جہاں انہیں انگریزوں کے خلاف جدو جہد آزادی اور سامراج کے خلاف ملک گیر تحریک اور جدو جہد سے آگاہی حاصل ہوئی۔

اس سوچ اور عزم نے انہیں شمس شاہ کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا وسیلہ فراہم کیا۔ 1927 میں میر یوسف مگسی ملتان میں رہتے ہوئے بلوچستان کے سیاسی حالات، ریاست قلات کی انتظامی صورتحال عوام پر جبر، سازشیں اور ظلم وزیادتیوں پر بھر پور تحریک چلانے کا آغاز کردیا تھا۔ کیونکہ بلوچستان میں زبان و بیان پر پابندی، روشن خیال اور جمہوری سوچ کو صلب کردیا گیا تھا۔

اسی صورتحال نے انہیں قلم کو بطور ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا۔ 1929 میں لاہور کے ایک اخبار میں ”فریاد بلوچستان“کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں وزیر اعظم شمس شاہ اور انگریزوں کے ظلم و زیادتیوں، غیر آئینی اور قبائلی مفادات کے خلاف پالیسیوں، انکے فضول کارناموں اور بلوچوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک پر کڑی نکتہ چینی کی۔ عوام کو انگریزسرکار اور شمس شاہ کے خلاف میدان بغاوت میں آنے کی تجویز بھی دی۔

اس مضمون کی اشاعت نے ایوانوں میں بھو نچال برپا کردیا۔آخر کار روایاتی طریقہ اپنا کر جر گے کے ذریعے میر یوسف مگسی کوایک سال نظر بند اور بارہ ہزار نو سو روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ اور مستونگ جیل میں پابند سلا سل کردیا گیا۔ اسی اثناء میں ریاست قلات سے مکیں ”ینگ بلوچ“ کے نام سے عبدالعزیز کر د کی نگرانی میں ایک جماعت قائم کی۔ جس کے ممبران نے مستونگ جیل میں ہی میر یوسف سے رابطے کئے ایک سال کے بعد رہائی پر انہیں انہوں نے انجم اتحاد بلوچستان میں شامل ہوکر بلوچستان میں سیاسی تحریک کی بھا گ دوڑ سنبھالی اس تنظیم کے صدر میر یوسف مگسی جنرل سیکریٹری عبدالعزیز کر دجبکہ بارہ اراکین مجلس عامہ منتخب ہوئے اسطرح انہوں نے باقاعدہ اپنی سیاسی جدو جہد کا آغاز کیا۔

میر یوسف عزیز مگسی کی جیل سے رہائی پر ان کے بڑے بھائی سردار گل محمد نے قتل کا بہا نا بناکر شمس شاہ کو خط لکھا۔ ان حالات میں میر یوسف مگسی کچھ عرصہ کیلئے سندھ ہجرت کر گئے تاکہ دور رہ کر اپنی سیاسی سر گرمیوں کو جاری رکھ سکے۔ نومبر 1931 میں میر محمود خان دوئم کی طویل بیماری کے بعد انتقال ہوا۔ جس کے بعد محمد اعظم خان ان کے جانشین بنے جس سے سر شمس شاہ کی پالیسی کے تباہ کن نتائج کو دیکھ کر 1932 میں انہیں عہدے سے ہٹاکر خان بہادر گل خان کو وزارت عظمیٰ سونپی گئی اسطرح انجمن اتحاد بلوچستان کا دیرنیہ مطالبہ پورا ہوا شمس شاہ کو ہٹانے کیلئے میر یوسف مگسی نے انجمن اتحاد کی سر پرستی میں شمس گردی کے نام سے ایک پمفلٹ جاری کیا جس نے انگریزوں کو للکارنے کے علاوہ بلوچستان کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اور اسی کوشش نے شمس شاہ کے ظلم و ستم سے بلوچستان اور بلوچوں کو آزاد ی نصیب ہوئی۔

میر محمود خان نے بلوچ قبائلی مسائل کے حل کیلئے نئے طریقے وضع کئے اور ہجرت کرنے والے مگسیوں کو دو بارہ انکے آبائی علاقے میں واپس لائے۔ میر یوسف عزیز مگسی بلوچستان کے وسیع تر مفاد کیلئے مختلف بلوچ قبائل اور سردار وں کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جسکی مثال پہلی بلوچ کا نفرنس کے کامیاب انعقاد پر ہوا۔ اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے میر یوسف اور ان کے ساتھیوں کے حوصلے مزید بڑھے اور انہوں نے سر زمین کے مختلف پہلوؤں، سیاسی و سماجی اور معاشرتی حالات کا بغور مطالعہ شروع کرکے اپنی زندگی بلوچوں کی حالات بہتر بنانے اور انکی اصلاح کیلئے وقف کردی۔

1933 میں ”بلوچستان کی آواز“ کے عنوان سے ایک اور پمفلٹ شائع کر کے بلوچستان کے مسائل اور بلوچوں کے مطالبات برطانوی پار لیمنٹ لندن بھجوا دیئے۔ میر یوسف عزیز مگسی راسخ العقیدہ قسم کے مسلمان تھے۔ قید و بند کی صوبتیں جرمانے اور طرح طرح کی اذیتیں بھی انکے عزائم کو کمزور نہ کرسکے۔ اسی لئے اپنے عوام کے مطالبات اور علاقائی مسائل کو اجاگر کرنے کی خاطر انہوں نے بلوچستان کا پہلا ”اخبار بلوچستان“ کے نام سے منسوب کیا۔

جس کے بعدبا الترتیب ”البلوچ“ بلوچستان جدید اور ینگ بلوچستان کے نام سے اخبارات جاری کئے جن کا مرکزکراچی تھا جبکہ انکی سر پرستی وہ خود کر رہے تھے عوام میں مقبولیت اور خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے میر گل زیب مگسی کو معزول کرکے میر یوسف عزیز مگسی کو قبیلے کانواب بنا دیا گیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے انہوں نے اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنایا۔ اور اپنے علاقے میں متعدد اصلاحات نافذ کرکے ترقی کی بنیاد ڈالی۔ جن میں کھیتر تھر کینال کوٹ یوسف کا شہر تعلیمی ادارہ جامعہ یوسفیہ غریبوں کے علاج کیلئے ڈسپنسری اور دار الامان بنوایا۔ 1933 سے پہلے تعلیم کا کوئی خاص انتظام نہ تھا صرف چند آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ انہوں نے اپنی آمدنی کا دسواں حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی تعلیم دوستی کی وجہ سے تعلیمی انتظامات کیلئے ونگ آفیسر بھی مقرر کیا۔

نومبر 1933 میں دوسری آل انڈیا بلوچ اینڈ بلوچستان کا نفرنس کا انعقاد حیدر آباد میں ہوا۔ بحیثیت نواب دوسرے سر داروں کی طرح حکمرانوں نے انہیں بھی شرکت سے روکا لیکن وہ کانفرنس میں شریک ہوئے جس میں بلوچستان کے علاوہ متحدہ ہندوستان، ایران افغانستان، مشرق وسطیٰ، ترکمانستان سے بلوچ سرداروں اور مبصرین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں بلوچوں کے حقوق، آزادی، خوشحالی کیلئے کئی قرار دادیں منظور ہوئیں۔

جب افغانستان میں انگریزی استبداد پولی ٹیکل ایجنٹوں نے ظالم کے روپ میں سر اٹھا یا برطانوی حکومت نے نواب یوسف عزیز مگسی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سیاسی جدو جہد، باغیانہ سوچ، سرمایہ دار طبقے کی مخالفت، حکمرانوں کی نا انصافیوں اور ظلم کے خلاف جدو جہد کا شعور پیدا کرنے سے روکنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرنے شروع کئے۔ بغاوت کے خوف اور عوامی مقبولیت کی وجہ سے نواب یوسف عزیز مگسی کو جبری طور پر جلا وطن کرکے لند ن بھجوایا۔ جس وقت وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے خان محمد خان اور میر عبدالعزیز کرد تین سال کیلئے مچھ جیل میں بند تھے۔ جس سے بلوچستان میں تحریک آزادی کی شدت کم ہوگئی۔

نواب یوسف عزیز مگسی متحرک انسان تھے لند ن میں قیام کے دوران وہاں کے تعلیمی اور سماجی اداروں کا بغور مطالعہ کیا اور بلوچوں کیلئے دار القائمہ بنانے کی تجویز بھی دی تاکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بلوچ لند ن میں قیام کر سکیں ۔دس ماہ جلا وطنی کے بعد نواب یوسف عزیز مگسی واپس اپنے وطن آئے اور واپس آتے ہی انہوں نے منشتر بلوچوں کی تحریک کو دوبارہ منظم اور فعال کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ لیکن وقت اور زندگی نے انکا ساتھ نہیں دیا۔ 31 مئی 1935 کے خوفناک زلزلے میں جہاں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے وہیں کوئٹہ کے مقامی ہوٹل کے ملبے سے بلوچستان کی تحریک آزادی کا سر خیل اور نڈر سیاسی رہنما کی لاش بھی ملی۔ جن کا ملبے تلے دب کر انتقال ہوچکا تھا۔

نواب یوسف عزیز مگسی کو ہم سے بچھڑے کئی سال ہوگئے ہیں لیکن ان کے نظریات، فکر، سوچ اور حب الوطنی آج بھی سیاسی رہنماؤں صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی رہنمائی کر رہی ہے۔ نواب یوسف عزیز مگسی بلوچستان کیلئے ایک تاریخ ساز، نڈر صحافی، پر عزم نوجوان اور عملی جدو جہد کرنے والے سیاسی رہنما تھے۔