گزشتہ روز وزیرستان میں دہشت گردی کے دو واقعات ہوئے پہلے واقعہ میں دہشت گردوں نے سڑک پر بم نصب کررکھا تھا ۔ جب سیکورٹی افواج کی گاڑی اس کے قریب سے گزری اسے ریمورٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا ۔ پانچ جو ان مواقع پر ہی جاں بحق ہوگئے ۔ چار دوسرے اسپتال پہنچنے سے پہلے انتقال کر گئے ۔ ایک دوسرے واقعے میں جنوبی و زیرستان میں سیکورٹی فورسز کے ایک چیک پوسٹ پر حملہ ہوا جس میں ایک جوان جاں بحق ہوا اس طرح سے دو دہشت گردی کے واقعات میں دس سیکورٹی اہلکار جاں بحق ہوگئے ۔ طالبان کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کے بعد یہ سب سے بڑا واقعہ ہے جس میں نو افراد ہلاک ہوئے ۔ یہ حملہ طالبان کے مائنڈسٹ کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ صرف جنگجو ہیں اور کچھ نہیں ہیں۔ اس لئے حکومت کو چائیے کہ وہ ان واقعات کو زیادہ اہمیت دے جس میں امن کی خواہش کا اظہار نہیں ہوتا ۔ حکومت طالبان رہنماؤں سے اس کی بھر پور وضاحت طلب کرے اور پوچھے کہ انہوں نے سیکورٹی افواج کو کیوں ٹارگٹ بنایا ہے ۔ ظاہر ہے کہ طالبان اور ان کے جنگجو کمانڈروں کو امن سے کوئی دل چسپی نہیں ۔ ایک بڑے کمانڈر نے بہت سارے الفاظ میں یہ کہہ دیا ہے کہ امن کی صورت میں ملک میں شرعیت کا نفاذ نا ممکن ہے ۔ اس کے نفاذ کے لئے جنگ ضروری ہے وہ شریعت کا نفاذ جنگ جدل سے چاہتے ہیں ۔ حکومت کا طرز عمل بھی واضح ہونا چائیے کہ طاقت کے زو ر پر کوئی بھی حکم نہیں مانا جائے گا۔ بنیادی مسئلہ ریاست کے اندر ریاست کا ہے ۔ طالبان کے نجی فوجی حکومت کے رٹ کے خلاف ہیں اور ان پر حملہ کررہے ہیں ۔ کیا ایک ملک کے اندر دو افواج ہوسکتی ہیں ۔ ایک طالبان کی فوج دوسری ریاست پاکستان کی فوج ‘ جلد یا بدیر ایک فوج کو جانا پڑے گا ۔ ظاہر ہے کہ وہ طالبان کی نجی فوج ہوگی یہ نا ممکن ہے کہ طالبان کے پیدل سپاہی ایٹمی قوت پاکستان کو شکست دیں ۔دہشت گردی کے واقعات میں ریاست اور عوام کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر طالبان کی شکست یقینی ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بھی مرحلہ میں بین الاقوامی امداد بھی پاکستان کو ملے اور سرحد کے دونوں طرف طالبان کا صفایا ہوجائے ۔ افغانستان کے سرحد کے اندر ناٹو افواج کی کارروائی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی فوج پاکستان کے سرحدی علاقوں کے قریب فوجی کارروائیاں شروع کریں ۔ صرف ایک حملے میں 69افغان طالبان مارے گئے ۔ ناٹو افواج نے فضائی قوت کا بھی مظاہرہ کیا جبکہ زمینی کارروائی افغان افواج نے کی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ پاکستانی طالبان کے فرار کے راستے بند ہیں وہ افغانستان فرار نہیں ہوسکیں گے۔ پاکستانی طالبان نے حالیہ دنوں میں چپ کا روزہ رکھ لیا ہے اور بہت زیادہ دعوے اور پروپیگنڈے نہیں کررہے ہیں ۔ شاید حکومت کی جانب سے فضائی قوت کا مظاہرہ تھا جس کا نعم البدل طالبان کے پاس نہیں ہے ۔ دوسری جانب وزیرستان سے افغانستان فرار ہونے کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں ۔ کسی بھی دو ٹوک لڑائی میں ان کی شکست یقینی ہے امریکا اور ناٹو افواج نے پاکستان کی مدد کرنے کا وعدہ کر لیا ہے کہ وہ افغانستان بھاگنے کے تمام راستے بند کردیں گے۔ خود وہ افغان طالبان خصوصاً حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کریں گے۔ شاید یہ سارا کام امریکی افواج کے انخلاء سے پہلے مکمل ہوجائے گا۔ پاک افغان سرحد آمد و رفت اور تجارت کیلئے بلا خوف و خطر کھلی رہی گی ۔ ادھر کوئی خطرات لاحق نہیں ہوں گے۔ گمان ہے کہ طالبان کے کمانڈر اور کنٹرول سینٹر‘ تربیتی مراکز پہلے ٹارگٹ ہوں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبان حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور نہ صرف مستقل جنگ بندی کریں بلکہ نجی فوج کے خاتمے کا بھی اعلان کریں تاکہ حکومت پاکستان ان کی دوبارہ بحالی کاکام کرسکے ۔