کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے کہا ہے کہ اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لاناسیاست کا حصہ ہے حکومت کی توجہ نظام میں بہتری لانے پر ہے۔
حکومت وہ پی ایس ڈی پی بنائے گی جسے مکمل کرسکے،مختلف سرکاری محکموں میں تیرا سے چودا ہزار آسامیاں مشتہر کردی گئیں ہیں، آئندہ بجٹ میں مزید روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں گے۔کوئٹہ سیف سٹی منصوبے پر کافی حدتک پیش رفت ہوچکی ہے دیگر ضلاع میں بھی سیف سٹی منصوبہ شروع کئے جائیں گے۔ پی ایس ڈی پی سے ایسے تین ہزار منصوبوں کو نکال دیا گیا ہے جو صرف بجٹ کا حصہ بنتے چلے آرہے تھے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے عیدالفطر کے پہلے روز پولیس لائن کوئٹہ میں یادگار شہداء پر حاضری کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں قیام امن کیلئے پویس، لیویز، پاک فوج، ایف سی سمیت قانون نافذکرنے والے اداروں اور عوام نے بہت بڑی قربانی دی ہے۔ گزشتہ دس پندرہ دنوں میں پولیس نے ایسے بہت سے واقعات کو ناکام بنایا ہے جن کے رونما ہونے سے بہت بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی تھریٹ عالمی مسئلہ بن چکاہے حالیہ کچھ عرصہ میں فلوریڈا، نیوزی لینڈ، سری لنکامیں بھی دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے صوبے میں امن وامان سے متعلق صورتحال کو لمحہ بہ لمحہ جائزہ لیا جارہا ہے اس سلسلے میں کوئٹہ سیف سٹی کا بہت بڑا منصوبہ جو گزشتہ کئی سالوں سے زیر التواء تھا اس میں پیش رفت شروع ہوچکی ہے اورحکومت آئندہ پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے تمام بڑے شہروں کو سیکور کرنے کیلئے منصوبہ بندی کررہی ہے۔
11 جون کواپوزیشن کے ریکوزیشن پر طلب کئے گئے اجلاس اور تحریک عدم اعتماد سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ اپوزیشن نے بی ڈی اے ملازمین۔پی ایس ڈی پی اور اپنے دیگر ایشوز سے متعلق ریکوزیشن پیش کی ہے اگر اندرونی طور پران کی خواہشات کچھ اور ہیں تو مجھے اس کا علم نہیں صوبائی حکومت کی توجہ پی ایس ڈی پی اور نظام میں بہتری لانے سمیت بجٹ پر ہے اور ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرکے نظام میں بہتری لائیں۔
عدم اعتماد کی تحریک لانا سیاست کا حصہ ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ کوئٹہ سیف سٹی منصوبہ کو جلد سے جلد مکمل کرکے اس کا دائرکارتمام اضلاع تک پھیلا یا جائے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے سے ملک کو نقصان پہنچانے والوں کو موقع میسر آئیگا اور وہ اس موقع کو استعمال کرکے ملک کو خدانخواستہ بہت بڑے نقصان سے دوچار کرسکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک یا دو بجٹ کے علاوہ باقی تمام خسارے کے بجٹ پیش کئے گئے ہیں ہر سال یہی ہوتا ہے کہ ہمارے پاس خرچ کرنے کیلئے ایک ہزار روپے ہوتے ہیں اور ہم پانچ ہزار کا منصوبہ بنا کر ایک منصوبہ ختم نہیں ہوتا مزید تین چار نئے منصوبہ بنائے دیئے جاتے ہیں اور پانچ یا چھ ارب روپے سے شروع ہو نے والے خسارہ کا پی ایس ڈی پی 88 ارب تک جا پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پی ایس ڈی کو 23 ارب روپے کی بننا چائیے تھا مگر اسے 88 ارب کا بنایا گیا جو ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ صوبے کو وفاق سے ملنے والے پیسوں سے تنخواہیں، ڈویلپمنٹ اور نان ڈویلپمنٹ کے بعدجو پیسے بھی بچ جائیں گے انہیں پی ایس ڈی پی کا حصہ بنایا جائیگا اور پی ایس ڈی پی کو اس طریقہ سے بنائیں جسے مکمل کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی میں 3000 ایسے منصوبوں کو نکال دیا ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے صرف بجٹ کا حصہ بنتے چلے آرہے تھے ایسے منصوبے جنہیں نظر انداز کیا گیا تھا ان پر کام جاری ہے اور آن گوئنگ 1200 سے 1400 منصوبے جلد مکمل کرلیے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کا حدف روزگار کے ذرائع میں اضافہ کرنا ہے۔
اب تک 14000 سے 15000 آسامیاں مختلف سرکاری محکموں میں مشتہر کردی گئی ہیں آئند بجٹ میں روزگار کے نئے موقع فراہم کئے جائیں گے۔ بلوچستان کے مختلف تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے حکومت کی توجہ بہتر منصوبہ بندی کرنے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت محکمہ پولیس کی تمام ضروریات کو پوار کریگی اور سی ٹی ڈی کوتمام اضلاع تک لے جایا جائیگا۔